روہنگیا مشرقی تیمور جنوبی سوڈان

ہم ان تمام تاریخی حوالوں سے دیکھیں تو ہمیں روہنگیا مسلمانوں کے لیے مستقبل بھی کچھ ایسا خوش آیند نظر نہیں آتا۔


سید معظم حئی November 03, 2017
[email protected]

انتہائی جنوب مشرقی ایشیا میں واقع سابق پرتگالی کالونی مشرقی تیمور پہ انڈونیشیا نے 1975 میں قبضہ کرلیا اور 1976 میں اسے اپنا 27 واں صوبہ قرار دے دیا ۔ تاہم مشرقی تیمورکے لوگوں نے جن کی اکثریت کرسچن ہے مسلم اکثریت والے انڈونیشیا کا حصہ بننا تسلیم نہیں کیا اور انڈونیشیا کے خلاف مسلح اور سیاسی جدوجہد شروع کر دی ۔ اس جدوجہد کو عالمی انسانیت کا ضمیر کہلائے جانے والے آسٹریلیا، شمالی امریکا اور یورپ کے ممالک کی بھرپور حمایت حاصل رہی اور اقوام متحدہ آسٹریلیا، شمالی امریکا اور یورپ کے ممالک کی بھرپور حمایت حاصل رہی اور اقوام متحدہ کے زیر اہتمام کیے جانے والے آزادی کے لیے ایک ریفرنڈم کے ذریعے مشرقی تیمور 2002 میں 21 ویں صدی میں آزاد ہونے والا پہلا ملک بن گیا۔

عالمی انسانیت کے اسی ضمیر کی زوردار حمایت سے شمال مشرقی افریقہ میں مسلم اکثریت والے ملک کے کرسچن آبادی والے جنوبی خطے کے لوگوں نے اقوام متحدہ کی حمایت سے ہونے والے ایک ریفرنڈم کے ذریعے مسلم اکثریت رکھنے والے سوڈان سے علیحدگی کا فیصلہ کرلیا اور یوں 9 جولائی 2011 کو عیسائی اکثریت رکھنے والا ملک جنوبی سوڈان وجود میں آگیا۔ ویسے اگر حق خود ارادیت کی بات کی جائے تو اقوام متحدہ نے 1948 میں مسلم اکثریت رکھنے والے کشمیرکے لوگوں سے بھی ایسا ہی ریفرنڈم کرانے کا وعدہ کیا تھا ۔ یہ وعدہ تو اب تک پورا نہیں ہوا کشمیر کے لوگ البتہ روز ہی اپنے بچوں کو بھارتی سیکیورٹی فورسزکے ہاتھوں اندھا، معذور اور شہید ہوتا دیکھتے ہیں۔اب کشمیر سے ذرا جنوبی فلپائن چلیے۔

یہاں منڈاناؤ کے خطے میں رہنے والے مسلمان کوئی آج سے نہیں بلکہ 1898 سے ریاستی ظلم و تشددکا سامنا کر رہے ہیں جب امریکا نے فلپائن کو اپنی کالونی بنانے کے بعد ان لوگوں کی زرخیز زمینوں پہ فلپائن کے دوسرے حصوں سے عیسائی آبادکاروں کو لا لا کر بسانے کا سلسلہ شروع کیا۔ حکومت کی طرف سے کیے جانے والے کئی معاہدوں کے بعد بھی مورو لوگ جوکہ مسلمان ہیں حق خود مختاری سے محروم ہیں۔

آپ مشرق بعید میں واقع ایک ملک تھائی لینڈکے انتہائی جنوبی مسلم اکثریت والے صوبوں کی مثال لے لیجیے جو ایک زمانے میں خود مختار سلطنت پٹانی کا حصہ تھے۔ اس خطے کے لوگ جوکہ مسلمان ہیں 1948 سے اپنے حق خود ارادیت کے لیے جدوجہد کر رہے ہیں مگر جواب میں انھیں صرف حکومتی تشدد اور زیادتیاں ہی ملی ہیں۔ اب آپ ذرا مشرق بعید سے بہت دور شمالی کاکیس (کاکیشیا) کے مشرق میں واقع روسی فیڈریشن کے ''سب جیکٹ'' چیچنیا کو بھی دیکھ لیجیے۔

آزادی کے لیے لڑنے والے چیچن مجاہد رہنما شیخ منصورکی اپریل 1794 میں سزائے موت سے لے کر اپریل 1996 میں چیچنیا کے پہلے منتخب جمہوری صدر زہوکاردودایف کی شہادت اور فروری 2000 میں گروزنی کے سقوط تک روس نے چیچنیا کے عوام کو جن کی 95 فیصد اکثریت مسلمان ہے اپنا محکوم بنانے کے لیے سالوں یا چند عشروں نہیں بلکہ صدیوں سے ان پر جنگ اور تشدد مسلط کیا ہوا ہے۔ چیچن کیونکہ مسلمان ہیں اس لیے ان کے بارے میں عالمی انسانیت کا ضمیر کبھی فکرمند نہیں رہا۔ اب جہاں تک ''امہ'' جیسی کسی چیزکا تعلق ہے تو عملی طور پر اس دنیا میں صرف ایک امہ ہے اور وہ ہے کرسچن امہ جس کی قیادت امریکا، برطانیہ اورآسٹریلیا کے پروٹیسٹنٹ کرسچن کرتے ہیں۔

1992 میں بوسنیا ہرزیگووینا میں ہونے والے ایک ریفرنڈم میں جس میں ووٹنگ کی شرح 63.4 فیصد تھی 99.7 فیصد رائے دہندگان نے آزادی کے حق میں ووٹ دیا۔ 6 اپریل 1992 سے لے کر 14 دسمبر 1995 تک کرسچن سربین حکومت کے حمایت یافتہ بوسنیا کے سربوں نے بوسنیا کے مسلمانوں پہ ایسی خوفناک جنگ مسلط کی کہ دوسری جنگ عظیم کے بعد یہ پہلا اجتماعی نسل کشی کا دور تھا جس میں تقریباً ایک لاکھ بوسنیائی مسلمانوں کو قتل کیا گیا اور یہ قتل عام جمہوریت اور انسانی حقوق کے گڑھ یورپ میں اقوام متحدہ کی خاموش رضامندی کے ساتھ کیا گیا۔

یاد رہے کہ اس وقت اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل مصر کے قطبی عیسائی بطرس غالی تھے جنھوں نے بوسنیا میں جاری بوسنیا کے مسلمانوں کے قتل عام کو جلد روکنے میں حتی الامکان روڑے اٹکائے۔ آخر کار جب دنیا کی واحد ''امہ'' کو اطمینان ہوگیا کہ بوسنیا کے لوگوں کو آزادی مانگنے کی قرار واقعی سزا مل چکی ہے اور بوسنیا ایک کٹا پھٹا کمزور ملک ہوگا تب کہیں جاکے ناؤ کی مداخلت سے یہ تقریباً یک طرفہ جنگ ختم ہوئی۔

ہم ان تمام تاریخی حوالوں سے دیکھیں تو ہمیں روہنگیا مسلمانوں کے لیے مستقبل بھی کچھ ایسا خوش آیند نظر نہیں آتا۔ جہاں تک روہنگیا کے مذہبی بھائیوں یعنی مسلمان ممالک کا تعلق ہے تو وہ کچھ ایسا ہے کہ کویت پاکستانیوں پہ چھ سال تک ویزا بند کرسکتا ہے، خلیجی ممالک ایک ہو کے قطر کا بائیکاٹ کرسکتے ہیں۔ ایران شامی حکومت کی مدد کے لیے فوج بھیج سکتا ہے۔

سعودی عرب یمنی حکومت کی مدد کے لیے فوج بھیج سکتا ہے، ترکی کی فوجیں کردوں کے خلاف عراق اور شام میں آپریشن کرسکتی ہیں، مصر اسرائیل کی حمایت میں غیر معینہ مدت تک غزہ کے فلسطینیوں کی ناکہ بندی کرسکتا ہے، افغانستان اور ایران پاکستان میں دہشت گردی کرنے میں بھارت کی مدد کرسکتے ہیں۔

یہ برادران سب کچھ کرسکتے ہیں مگر میانمار کی فاشسٹ حکومت کا اقتصادی بائیکاٹ نہیں کرسکتے، اپنے اپنے ملکوں سے میانمارکے سفیر کو نکالنا دور کی بات یہ روہنگیا لوگوں کے حکومتی قتل عام پہ بطور احتجاج اپنے اپنے ملکوں میں میانمار کے سفارتی عملے کی تعداد میں کمی تک نہیں کرسکتے۔ یہ مل کر روہنگیا لوگوں کی بنگلادیش میں مناسب آبادکاری کے لیے ایک فنڈ نہیں قائم کرسکتے۔ یہ روہنگیا لوگوں کی مدد کے لیے بنگلادیشی حکومت کو چند کروڑ ڈالر نہیں دے سکتے کہ وہ ان بے بس لوگوں کو دوبارہ میانمار کے جہنم میں نہ بھیجے۔

یہ انسانیت کے خلاف وسیع جرائم اور منظم نسل کشی میں ملوث میانمارکی فاشسٹ حکومت اور دہشت گرد فوج کے خلاف عالمی عدالت انصاف (آئی سی جے) تک میں نہیں جاسکتے۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ روہنگیا کی مدد کے لیے فوٹو شوٹ کے علاوہ کوئی قرار واقعی قدم نہیں اٹھا سکتے۔ حقیقت یہ ہے کہ اس دنیا میں ''مسلم امہ'' جیسی عملی طور پر کوئی شے نہیں پائی جاتی۔

اور حقیقت یہ ہے کہ درحقیقت ہم صرف سفید فام کرسچن امہ سے ہی یہ درخواست کرسکتے اور توقع رکھ سکتے ہیں کہ وہ بنگلادیشی حکومت کی مالی امداد کرکے اسے روہنگیا لوگوں کو دوبارہ میانمار کے مقتل میں دھکیلنے سے باز رکھے کہ وہ میانمار حکومت کے انسانیت کے خلاف جرائم پہ میانمار پہ موثر اقتصادی پابندیاں عائد کرے کہ وہ راکھائن میں اقوام متحدہ کے مبصرین کی تعیناتی ممکن بنائے تاکہ میانمار فوج اور بدھ دہشت گردوں کو روہنگیا لوگوں کے خلاف مزید دہشت گردی سے باز رکھا جاسکے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں