آپ ذمے داری سے بچ نہیں سکتے

ہوسکتا ہے کہ آپ کا کسی مذہب پر ایمان نہ ہو، ہوسکتا ہے کہ خدا کے آگے جواب دہی کے تصور پر ہی آپ یقین نہ رکھتے ہوں


سید معظم حئی October 20, 2017
[email protected]

ISLAMABAD: ہم آسان لفظوں میں بات کرتے ہیں، فرض کیجیے آپ حکمران بننا چاہتے ہیں۔ آپ اس سلسلے میں کوشش کرتے ہیں، آپ کامیاب ہوجاتے ہیں، آپ حکمران بن جاتے ہیں اور آپ کے حکمران بن جانے کا سیدھا سیدھا مطلب یہ ہوا کہ آپ نے اپنی خواہش سے، بارضا و رغبت حکمرانی حاصل کی یعنی آپ نے جان بوجھ کر پورے ہوش و حواس میں کروڑوں لوگوں کی ذمے داری قبول کرلی ۔

اب آپ کی حکمرانی کے دوران ان لوگوں کے ساتھ جتنی بھی زیادتیاں، نا انصافیاں اور مظالم ہوں گے آپ ان کے ذمے دار ہوں گے۔ کہیں کوئی وزیر، سیکریٹری، ڈی آئی جی، ڈائریکٹر، انسپکٹر، حوالدار،کلرک، پٹواری، چپراسی، جہاں بھی کوئی ظلم زیادتی کرے گا، کرپشن کرے گا، ان کے ساتھ ان سب کے سب مظالم، زیادتیوں، نا انصافیوں، بد معاشیوں، کرپشن سب میں آپ بھی ذمے دار ہوں گے۔ آپ اپنی خواہش سے صدر، وزیراعظم، ایڈمنسٹریٹر، وزیر، مشیر، گورنر، وزیراعلیٰ، سیکریٹری، چیئرمین، میئر، ڈائریکٹر، ڈپٹی کمشنر، تھانیدار، حوالدار، پٹواری یا سپاہی بن جائیں، مطلب صاف ہوگا کہ آپ نے باہوش و حواس اپنی عملداری میں آنے والی خدا کی مخلوق کی ذمے داری قبول کی۔

آپ کی غفلت، نااہلی، سستی، کوتاہی، لاپرواہی، بے حسی، سنگ دلی، بے ایمانی، تعصب، اقربا پروری، تنگ نظری، رشوت خوری، حرام خوری، ذاتی و خاندانی مفاد پرستی، لالچ، ہوس، خود غرضی، غروروتکبر، اکڑ، ہٹ دھرمی، ضد، انا، رعونت، شان و شوکت، پروٹوکول، چال، سازش، منصوبہ بندی، جھوٹ، دھوکا دہی، آپ کی ذات کی کسی بھی حرکت، کسی بھی بات سے آپ کے دائرہ اختیار میں آنے والی خدا کی مخلوق کو کسی بھی طرح سے کسی بھی سطح پر کسی بھی حجم کی، کسی بھی دن، کسی بھی وقت تکلیف پہنچتی تو خدا کے آگے آپ اس کے ذمے دار ہوں گے۔

اس دنیا میں ہوسکتا ہے آپ کی فوج، سیاسی پارٹی، لسانی و فرقہ وارانہ تنظیم، پریشرگروپ، خاندان، برادری، یار دوست، بیچ میٹس، امریکا، برطانیہ، سعودی عرب، ترکی، قطر، ایران، بھارت آپ کو بچالیں مگر آخر میں آپ کو اپنی خواہش سے حاصل کی گئی اس ذمے داری، اس مکمل ذمے داری کا خدا کو جواب دینا ہوگا۔

ہر مذہب ہی آپ کو آخر میں خدا کو جواب دہی کی یاد دہانی کرتا نظر آئے گا۔ ہوسکتا ہے کہ آپ کا کسی مذہب پر ایمان نہ ہو، ہوسکتا ہے کہ خدا کے آگے جواب دہی کے تصور پر ہی آپ یقین نہ رکھتے ہوں، اچھائی کا بدلہ اچھائی، برائی کا بدلہ برائی کی سزا کو مانتے ہی نہ ہوں مگر بچ آپ پھر بھی نہیں پائیں گے، اس دنیا میں کائنات میں جہاں جائیں گے آپ کو ہر جگہ ''ایوری ایکشن ہیز اے ری ایکشن'' ''ہر عمل کا رد عمل ہے'' کا نظام ہی چلتا نظر آئے گا۔

آپ کا جہاز ہوا کو پیچھے دھکیلتا ہے، ہوا جہاز کو آگے اڑاتی ہے، آپ پانی کو پیچھے دھکیلتے ہیں، پانی آپ کو آگے دھکیلتا ہے، آپ بال زمین پر جتنی زور سے ماریں گے بال اتنی زور سے آپ کی طرف واپس آئے گی۔ آپ جو کرتے ہیں وہ پلٹ کے آپ کے پاس واپس آئے گا۔ آج نہیں تو کل، ابھی نہیں تو بعد میں اس زندگی میں نہیں تو اس زندگی میں، اس زمین پر نہیں تو اس زمین کے نیچے، آپ اپنے عمل کی ذمے داری کا جواب دینے سے بچ نہیں سکتے۔

اب ایک دوسرا ہی معاملہ دیکھتے ہیں، آپ ایک عام آدمی ہیں، آپ کے دائرۂ کار میں آپ کا خاندان، آپ کے ملنے جلنے والے اور آپ کے کام کاج کے ساتھی آتے ہیں، آپ ایمانداری اور محنت سے ان کے حقوق کا خیال کرتے ہیں ۔ آپ بحیثیت ایک عام آدمی کے ملک کے کروڑوں لوگوں کے مسائل حل کرنے کے ذمے دار نہیں ہیں نہ ہی اس سلسلے میں آپ کی خدا کے ہاں کوئی پوچھ گچھ ہوگی مگر آپ پھر بھی اپنے محدود اور منطقی دائرہ کار سے نکل کرخدا کی مخلوق کی بہتری کے لیے کچھ کرنے کی جستجو کرتے ہیں آپ اپنے خاندان، دوست احباب اور کام کے ساتھیوں کے علاوہ دوسرے لوگوں جن سے آپ کا کوئی تعلق و واسطہ نہیں، آپ ان کے لیے بھی کچھ اچھا کرنے کی کوشش کرتے ہیں، آپ خدا کی مخلوق کی بھلائی کے لیے نئے نئے آئیڈیا دیتے ہیں، آپ آس پڑوس، محلے، گاؤں، قصبے، شہر، ملک کی سطح پر عملی طور پر بہتری لانے کے لیے کام کرتے ہیں .

آپ اپنی اپنی جگہ پر عبدالستار ایدھی، ڈاکٹر ادیب رضوی، حکیم محمد سعید، ڈاکٹر امجد ثاقب، ڈاکٹر اعجاز حسن قریشی بن جاتے ہیں آپ عام لوگوں کی بھلائی کے لیے کام کرتے ہیں، جو ذمے داریاں آپ کی نہیں آپ وہ اٹھاتے ہیں آپ خدا کے پاس وہ کچھ بھیجتے ہیں اور وہ کچھ ساتھ لے کر جائیں گے جو خدا کی طرف سے آپ پر عاید ذمے داریوں سے بھی بڑھ کر ہے تو ذرا سوچیے کہ آپ خدا کو خود سے کتنا خوش اور قریب کر پائیںگے۔

اب ذرا بتایئے کہ کیا وہ شخص ذہین نہیں ہوگا جو اقتدار مانگے بغیر، جو اقتدار لیے بغیر خدا کی مخلوق کی بھلائی کے لیے سرگرداں ہو اورکیا وہ شخص بد عقل نہیں جو جان بوجھ کر لاکھوں، کروڑوں لوگوں کی ذمے داری اٹھالے اور پھر ادا نہ کر پائے، ہاں البتہ مکار انسانوں کی بات دوسری ہے کہ جن کے لیے حکومت کروڑوں، اربوں، کھربوں روپے لوٹنے، دبئی، لندن، نیو یارک اور نجانے کہاں کہاں جائیدادیں خریدنے، کاروبار جمانے اور VVIP پروٹوکول سے اپنی نچلی فطرت کو تسکین پہنچانے کا ذریعہ ہے۔

ہم بات کو ذرا اور واضح کرنے کے لیے آسان سا ایک موازنہ کرتے ہیں کہ ہمارے سامنے کسی نے کیا کیا کمایا۔ مثلاً ایک طرف عبدالستار ایدھی کو رکھیے، دوسری طرف کسی آمر کو۔ ایک طرف ایدھی فاؤنڈیشن اور اس سے لاکھوں لوگوں کو پہنچنے والی راحت کو رکھیے اور دوسری طرف NRO کے ذریعے ملک پر نازل ہونے والے بدترین کرپشن اور نا اہلی کے دور اور اس دور سے متاثر ہونے والے کروڑوں لوگ اور ان کی اربوں، کھربوں بدعائیں۔

ایک طرف ڈاکٹر ادیب رضوی کو رکھیے اور دوسری طرف کسی سیاسی قائد کو۔ ایک طرف ہزاروں نادار انسانوں کی تکالیف کا مداوا اور لاکھوں کروڑوں دعائیں، دوسری طرف کراچی میں گینگ وار، ہزاروں لوگوں کا قتل بشمول زندہ جلائے جانے والے سیکڑوں انسان، ملک پر لادے گئے کھربوں روپوں کے غائب شدہ قرضے، لسانی بنیادوں اور سیاسی وابستگی پر ہزاروں نا اہلوں کی سرکاری عہدوں پر تعیناتی، کراچی جیسے شہر کی تباہی، ایک طرف ایس آئی یو ٹی، دوسری طرف سرے محل، بلاول ہاؤس، سوئس اکاؤنٹ، شوگر ملیں اور نجانے کیا کیا۔

ایک طرف سکھ پانے والے ہزاروں انسانوں کی کروڑوں دعائیں، دوسری طرف دکھ اٹھانے والے کروڑوں انسانوں کی اربوں، کھربوں بد دعائیں، ایک طرف کسی مسیحا صفت سماجی رہنما کو رکھیے دوسری طرف کسی حکمراں کو۔ ایک طرف سیکڑوں ذہین مگر غریب طالب علموں کی امداد اور اس امداد کے نتیجے میں سیکڑوں، ہزاروں خاندانوں کی بہتری اور ان کی لاکھوں کروڑوں دعائیں، دوسری طرف ملک پر کھربوں کا قرض، قومی معیشت کی ایسی تباہی کہ پتا نہیں چلتا کہ اگلا بجٹ کیسے بنے گا، ذاتی وفاداریوں پر سرکاری عہدے داروں کی تعیناتیاں، میثاق جمہوریت المعروف میثاق کرپشن کے تحت اربوں، کھربوں کی کرپشن نظر انداز کرنا، گندا زہریلا پانی پیتے انسان، سڑکوں پر بچے جنتی اس ملک کی غریب عورتیں، ایک طرف کاروان علم فاؤنڈیشن، دوسری طرف رائے ونڈ پیلس، سرے محل، لندن فلیٹس، آف شور اکاؤنٹس، اربوں کھربوں کا کاروبار، ایک طرف زندگیاں سنور جانے والے سیکڑوں انسانوں کی لاکھوں، کروڑوں دعائیں، دوسری طرف ہر روز نت نئی تکلیفیں اٹھاتے کروڑوں بد حال انسانوں کی اربوں کھربوں بد دعائیں۔

آپ خود بتایئے آخری تجزیے میں کون عقل مند اور کون بد عقل نکلتا ہے۔ کون ہے وہ جو آخر خسارے میں رہتا ہے؟

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں