سندھ میں سیاحت کا فروغ

سندھ کی یہ بدقسمتی رہی ہے کہ نہ تو حکومت پاکستان نے اور نہ کبھی صوبائی حکومتوں نے اس سلسلے میں کوئی کام کیا ہے


لیاقت راجپر September 27, 2017

ہر سال دنیا میں 27 ستمبر کو ٹور ازم کا دن منایا جاتا ہے، جس کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ ساری دنیا کے لوگ اپنے اپنے ملک میں موجود قدرتی مناظر اور تاریخی مقامات کی تشہیر کریں، جس سے لوگوں میں انھیں دیکھنے کا اشتیاق پیدا ہو اور پھر ملک کی معیشت بھی مضبوط ہو۔

افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ پاکستان میں موئن جو دڑو جیسا تاریخی مقام موجود ہے، جسے دیکھنے کے لیے دنیا بھر سے لوگ آتے رہتے ہیں مگر وہاں پر باہر سے آنے والے ٹورسٹ کے لیے بین الاقوامی معیار کی سہولتیں نہ ہونے کی وجہ سے یہ مقام دن بدن دنیا کی نظروں سے اوجھل ہوتا جا رہا ہے۔ اس کے علاوہ پاکستان میں کئی ایسے مناظر ہیں جنھیں بین الاقوامی لیول کی سہولتیں دی جائیں تو ہم بڑا زر مبادلہ کماسکتے ہیں، اس سے ان مقامات گھومنے کے لیے ملکی اور غیر ملکی سیاح آتے ہیں۔ خیبرپختونخوا میں بھی قدرتی نظارے دیکھنے کے لیے اکثر لوگ آتے ہیں۔

سندھ کی یہ بدقسمتی رہی ہے کہ نہ تو حکومت پاکستان نے اور نہ کبھی صوبائی حکومتوں نے اس سلسلے میں کوئی Serious ہوکر کام کیا ہے اور ٹور ازم کو کبھی اہمیت نہیں دی ہے۔ میں نے کچھ سال پہلے پاکستان کے آرکیالوجی ڈپارٹمنٹ کی ایک رپورٹ دیکھی تھی جس میں کہا گیا تھا کہ پاکستان میں سب سے زیادہ ٹور ازم کے اسپاٹ سندھ میں ہیں، جس میں لاڑکانہ سرفہرست ہے۔

ہم چاہتے ہیں کہ سندھ میں اب کام ہونا چاہیے کیونکہ ملک کے 1973ء والے آئین میں 18 ویں ترامیم کے بعد ہر صوبے کو وہاں پر موجود تاریخی ورثے پر حق حاصل ہوگیا ہے۔ لیکن اس کے باوجود بھی معلوم ہوا ہے کہ کچھ مقامات کو سندھ حکومت کے Take Over کے بعد مرکزی حکومت نے عدالت میں کیس داخل کیا ہے، جس سے مقامات کو Renovate اور ریپیئر کرنے میں رکاوٹ پیدا ہوگئی ہے۔ سندھ حکومت نے کچھ عرصہ پہلے کلچر کے محکمہ کی طرف سے کافی رقم وہاں خرچ کی گئی جہاں سے ٹور ازم کو کوئی فائدہ نہیں ہوا۔

مجھے خوشی اس بات کی ہورہی ہے کہ جب سے سندھ کلچر ڈیپارٹمنٹ کے لیے سردار علی شاہ کو وزیر بنایا گیا ہے اس نے اس محکمے کی کارکردگی بہتر بنانے کے لیے War-footing پر کام کرنا شروع کیا ہے، جس میں خاص طور پر آرکیالوجیکل مقامات اور ٹور ازم کارپوریشن کا فروغ سرفہرست ہے۔

اس ضمن میں انھوں نے روشن کناسرو کو ٹورازم کارپوریشن کا چارج دیا، جس نے آتے ہی کچھ بڑے اہم اور اچھے کام کیے ہیں، جس کی وجہ سے ٹور ازم جیسے اہم ادارے کو نیند سے جگایا ہے۔ اب امید پیدا ہوگئی ہے کہ اب سندھ میں ٹور ازم کی تقدیر جاگ جائے گی۔ ورنہ میں جب بھی ٹور ازم کے آفس میں جاتا تو یہ کہا جاتا ہے کہ پیسے نہیں ہیں اور جلد اس ادارے کو فعال کیا جائے گا۔

ٹور ازم کے فروغ کی ابتدا پاکستان کی آزادی والے دن سے ہوئی اور ٹور ازم ترقیاتی کارپوریشن کے دفتر یعنی فیلڈ آفیسز میں منایا گیا۔ وہاں پر چراغاں کیا گیا، باقاعدہ پاکستانی پرچم لہرایا گیا جس کی وجہ سے لوگ متوجہ ہوئے اور دیکھنے والوں کے ذہن میں یہ بات آگئی کہ یہ بھی کوئی ادارہ ہے۔

سندھ ٹور ازم ڈویلپمنٹ کارپوریشن جو 13 اگست 1991ء کو قائم ہوا، جسے کمشنر آرڈیننس 1984ء کے تحت عمل میں لایا گیا تھا، محکمہ کلچر سندھ کی چھتری کے تحت کام کررہا ہے، جیسا کہ لوگ مذہبی مقامات کا بھی ٹور کرتے ہیں جس کی وجہ سے قلندر شہباز، شاہ عبداللطیف بھٹائی، سچل سرمست وغیرہ کے مزارات پر ٹور ازم کی طرف سے آنے والے لوگوں کے لیے موٹلز بنائے گئے ہیں۔ ٹور ازم کے مزید فروغ کے لیے سندھ لٹریری فیسٹیول 2016ء کے موقع پر آنے والے شرکا کو لٹریچر اور تصاویر بھی دکھائی گئیں۔

حضرت شاہ عبداللطیف بھٹائی کے میلے کے موقع پر ٹور ازم کی تشہیر کے لیے کام کیا۔ سندھ میں موجود پہاڑوں کے بارے میں سندھ ماؤنٹین فیسٹیول کا تین روز منعقد کرکے دیکھنے والوں کو حیران کردیا کہ سندھ میں ایسے پہاڑی سلسلے ہیں جن کی ایک بڑی تاریخی حیثیت ہے۔

سردار شاہ، منسٹر فار کلچر اینڈ ٹور ازم کا کہنا ہے کہ سندھ کے سیاحتی مقامات کو پوری دنیا میں متعارف کروانے کے لیے ہر ممکن کوشش کی جائے گی، جس کی ایک کڑی یہ بھی ہے کہ سندھ ٹور ازم ڈویلپمنٹ کارپوریشن کے عملے نے بین الاقوامی پروگرام INTERNATIONAL CONFERENCE on Civilization and cultural tourism، جو بلغاریہ کے شہر صوفیہ میں کیا گیا تھا، میں شرکت کی، جہاں پر چار دن سندھ کی سیاحتی مقامات کو متعارف کروایا گیا۔

روشن کنا سرو کا بھی کہنا تھا کہ وہ چاہتے ہیں کہ سندھ کے تاریخی مقامات کو لوکل یعنی پاکستان لیول پر بھی فروغ دینا چاہتے ہیں، کیونکہ ملک کے لوگ ایک دوسرے کے علاقے اور مقامات دیکھیںگے تو محبت اور اتحاد زیادہ مضبوط ہوگا۔ سندھ میں سردیوں کے موسم میں آگ جلاکر چاروں طرف جب لوگ بیٹھ کر قصے، کہانیاں، گیت، غزل اور موسیقی کے ساز، شعر و شاعری پیش کرتے ہیں تو بڑا مزا آتا ہے، جس سے سندھ کے کلچر کا آنے والے مہمانوں کو پتہ چلتا ہے، جس کے لیے بھی ٹور ازم کارپوریشن نے کئی کچہریاں منعقد کروائیں، جس سے خاص طور پر باہر سے آنے والے مہمان بہت خوش ہوئے۔

2016ء اور 2017ء کے درمیان اور کئی عوامی ٹائپ فیسٹیول اور میلے لگ چکے ہیں جس میں میلہ یاران، سندھ آرٹ وک، فیسٹیول تھر، عرس آف دودو سومرو میلہ جہاں پر ہندوستان اور پنجاب سے بھی لوگ شرکت کرتے ہیں، اس کے علاوہ مزید پروگرام اور پلانز بنائے جارہے ہیں تاکہ ملکی اور غیر ملکی ٹوررسٹ کو سندھ کے تاریخی اور ثقافتی مقامات کی طرف Attractکیا جائے۔ انڈومنٹ فنڈ کی طرف سے سندھ کے کئی مقامات کی مرمت کرکے انھیں اپنی اصلی شکل میں لانے کی کوشش کی جارہی ہے تاکہ اس ورثہ کو تباہ ہونے سے بچایا جائے اور ٹورسٹ انھیں دیکھ کر باقی ملنے والوں کو اس کے بارے میں بتائیں، تاکہ آنے والوں کی تعداد بڑھتی رہے۔

حکومت سندھ اور خاص طور پر وزیراعلیٰ سندھ سے یہ گزارش ہے کہ وہ بڈوجبل جو سیہون شریف کے قریب ہے اور وہ ایک ٹھنڈا تفریحی مقام ہے اس کی طرف توجہ دیں، جیسے سید مراد علی شاہ کے والد وزیراعلیٰ عبدﷲ شاہ نے اپنے دور میں کئی ترقیاتی اسکیمیں وہاں شروع کی تھیں جو ان کی حکومت ختم ہونے سے نامکمل ہیں، جن پر اربوں روپے خرچ ہوچکے ہیں، انھیں دوبارہ شروع کیا جائے، جس سے وہاں کے لوگوں کو بھی بنیادی سہولتیں مل سکیںگی۔ اس کے علاوہ سندھ کے میٹھے پانی کی جھیلوں پر مزید توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ کیونکہ سندھ میں بے شمار Wetlands ہیں جو تباہی کے کنارے پہنچ گئی ہیں۔ گورکھ ہل اسٹیشن، رنی کوٹ جیسے بڑے ورثے ہمارے پاس ہیں، ان پر خاص توجہ دی جائے۔

میں امید کرتا ہوں کہ بین الاقوامی ٹور ازم ڈے کے موقع پر کلچر کے وزیر کچھ ٹور ازم کے فروغ کے لیے اہم اعلانات کریںگے جس سے پاکستان میں رہنے والوں کے لیے خوشیاں منانے کا ایک اور موقع فراہم کیا جائے گا۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں