انداز اپنے اپنے دنیا کے مختلف ممالک میں ویلنٹائن ڈے کی مخصوص اور دل چسپ روایات

امریکا میں روایت ہے کہ 14 فروری کو وہ لڑکے لڑکیاں جو آپس میں شادیاں کرنا چاہتے ہیں، وہ اسٹیم ہاؤس جاکر ڈانس کرتے ہیں۔


Ashraf Memon February 14, 2013
ہر معاشرے میں ویلنٹائن ڈے کے موقع پر مختلف روایات پر عمل کیا جاتا ہے۔ فوٹو : فائل

ویلنٹائن ڈے کو ہمارے ہاں جس نظر سے بھی دیکھا جاتا ہو لیکن اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ یہ دن پوری دنیا میں ایک تہلکا مچا دیتا ہے۔

اخبارات ہوں یا ٹیلی ویژن، رسائل ہوں یا پھر سوشل میڈیا ہر طرف ویلنٹائن ڈے ہی کے تذکرے سنائی دیتے ہیں۔ ویلنٹائن ڈے کی مقبولیت ہر سال بڑھتی ہی جارہی ہے اور یوں یہ دن نہ صرف ایک جشن بلکہ بہت بڑے کاروبار کی شکل بھی اختیار کر گیا ہے۔ لہٰذا پہلے جہاں گلاب کے پھول، تہنیتی کارڈز، چاکلیٹس کا تبادلہ کافی سمجھا جاتا تھا، وہاں اب ان تحائف میں سونے چاندی اور ہیرے کی انگوٹھیاں بھی شامل ہوچکی ہیں۔

دنیا بھر میں ویلنٹائن ڈے کے حوالے سے مخصوص رسومات اور روایات رہی ہیں، جن میں سے کچھ برقرار ہیں اور کچھ گردشِ زمانہ کی نذر ہوچکی ہیں۔ برطانوی کائونٹی ویلز میں 14 فروری کو لکڑی کے چمچے تحفے کے طور پر دیے جاتے تھے، جن کے اوپر دل اور چابیاں بنی ہوتی تھیں، جو تحفہ وصول کرنے والے کے لیے اس بات کا اشارہ ہوتیں کہ تم ''میرے بند دل کو اپنی محبت کی چابی سے کھول سکتے ہو۔'' کچھ لوگ اس بات پر بھی یقین رکھتے ہیں کہ ویلنٹائن ڈے کو اگر کوئی چڑیا کسی عورت کے سر پر سے گزر جائے تو اس کی شادی ملاح سے ہوتی ہے اور اگر کوئی عورت چڑیا دیکھ لے تو اس کی شادی کسی غریب آدمی سے ہوتی ہے، اور اُس کی زندگی بھی خوش گوار گزرے گی، اور اگر عورت ویلنٹائن ڈے پر کسی سنہرے پرندے کو دیکھ لے تو اس کی شادی کسی امیر کبیر شخص سے ہو گی اور زندگی ناخوش گوار گزرے گی۔

امریکا میں روایت مشہور ہے کہ 14 فروری کو وہ لڑکے لڑکیاں جو آپس میں شادیاں کرنا چاہتے ہیں، وہ اسٹیم ہائوس جاکر ڈانس کریں اور ایک دوسرے کے نام دہرائیں۔ جوںہی رقص ختم ہو گا اور جو آخری نام اُن کے لبوں پر ہوگا، اُس ہی سے اس کی شادی ہوگی۔ اس کے علاوہ امریکا کے بعض ایلیمنٹری اسکولوں میں طلبہ سے اپنی کلاسوں کو سجانے اور وہاں موجود تمام ساتھیوں کو ویلنٹائن کارڈ یا تحفہ دینے کے لیے بھی کہا جاتا ہے۔



برطانیہ میں ویلنٹائن ڈے کو علاقائی روایت مانا جاتا ہے۔ ملک کے مشرق میں واقع علاقے نور فولک میں ''جیک'' نامی ایک کردار گھروں کے پچھلے دروازوں پر دستک دیتا ہے اور بچوں کے لیے دروازے پر ٹافیاں اور تحائف چھوڑ جاتا ہے۔ ویلز میں بہت سے لوگ اس دن کی جگہ 25 جنوری کو ''سینٹ ڈائینونز ڈے'' مناتے ہیں۔ فرانس اور اسپین میں بھی یہ دن دیگر مغربی ممالک ہی کی طرح منایا جاتا ہے۔ ڈنمارک اور ناروے میں یہ دن بڑے پیمانے پر تو نہیں منایا جاتا مگر بعض لوگ اس دن اپنے ساتھی کے ساتھ رومانوی ڈنر پر جاتے ہیں اور ایک دوسرے کو کارڈ اور تحائف دیتے ہیں۔ سویڈن میں اس دن کو ''آل ہارٹس ڈے'' کہا جاتا ہے۔ یہاں یہ دن پہلی بار 1960ء میں منایا گیا۔ فِن لینڈ میں اس دن کو ''فرینڈ ڈے'' کہا جاتا ہے اور اسے خاص دوستوں کے لیے اور ان کی یاد میں منایا جاتا ہے۔ سلوانیا اور رومانیا میں یہ دن عام مغربی ممالک کی طرح منایا جاتاہے، اور اس دن روایتی طور پر چھٹی ہوتی ہے۔ جاپان، چین، کوریا اور دیگر ایشیائی ممالک میں بھی یہ دن منایا جاتا ہے اور اس دن تحائف، کارڈز اور خاص طور پر ایک دوسرے کو سرخ گلاب تحفے محبت کی نشانی کے طور پر دیے جاتے ہیں۔ بھارت میں بھی اس دن کو بہت جو ش و خروش سے منایا جاتا ہے، لیکن کئی بھارتی تنظیمیں اسے منانے کے خلاف ہیں۔

دوسری طرف مشرق وسطیٰ کے کئی ممالک میں اس دن کو منانے پر پابندی ہے، جن میں ایران، سعودی عرب اور دوسرے کئی ممالک شامل ہیں۔ سعودی عرب میں ویلنٹائن ڈے پر تحائف کے طور پر دیے جانے والی چیزوں پر پابندی لگا دی گئی ہے۔ پاکستان کی بات کی جائے تو یہاں بھی اس دن کو منانے کا رجحان بڑھ رہا ہے۔ ٹی وی چینلز پر اس دن کی خصوصی نشریات دکھائی جاتی ہیں۔ ایک دوسرے کو تحائف دینا، تفریحی مقامات پرجانا اور کھانے کی دعوت دینا اس دن کی مناسبت سے عام ہے۔ لیکن دوسری طرف ایک بہت بڑا طبقہ اس دن کو منانے کا شدید مخالف بھی ہے اور اسے بے حیائی قرار دیتا ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں