مولانا عبید اللہ سندھی اور ریشمی رومال تحریک

اب جمعیت الانصارکی طرف سے یہ فیصلہ کیا گیا کہ انگریزوں کے خلاف انقلابی تحریک شروع کردی جائے


لیاقت راجپر July 04, 2017

KARACHI: انگریزوں سے آزادی حاصل کرنے کے لیے کئی تحریکیں چل پڑی تھیں جن میں ایک تحریک ریشمی رومال بھی تھی۔ جس کے بانی مولانا عبیداللہ سندھی تھے جن کو ہم بھول چکے ہیں۔ میں ان کی زندگی اور جدوجہد پرکچھ لکھ کر اپنی نوجوان نسل کو یہ بتانا چاہتا ہوں کہ ہمارے ماضی کے ہیرے کتنے صاف ستھرے کردار کے مالک تھے اور اپنی زمین سے قبضہ چھڑانے کے لیے کتنی زندگیوں کی قربانیاں دیں، اس میں ایسے لوگ بھی تھے جنھوں نے اسلام سے متاثر ہوکر نہ صرف اسلام قبول کیا بلکہ یہ ثابت کردکھایا کہ انھوں نے دوسری قوم اور مذہب رکھنے والوں کے ساتھ مل کر غاصبوں سے کیسے آزادی حاصل کی جن میں مولانا عبید اللہ سندھی بھی شامل ہیں۔

مولانا کا تعلق پنجاب سے تھا مگر سندھ میں آنے کے بعد سندھ سے ایسی محبت ہوگئی کہ انھوں نے اپنے نام کے آخر میں سندھی لگادیا۔ وہ ایک سکھ گھرانے میں پیدا ہوئے اور ان کا نام بوٹا سنگھ تھا اور وہ اپنے والد رام سنگھ کے گھر 10 مارچ 1872 میں سیالکوٹ کے گاؤں چیانا والی میں پیدا ہوئے تھے اور کون جانتا تھا کہ یہ تحریک آزادی کے بڑے رہنما بن کر ابھریں گے اور اسلام قبول کرکے دین کی خدمت کریں گے۔ ہند اور سندھ میں ماڈرن قومی سوچ رکھنے والے پہلے لیڈر بن جائیں گے۔ انھوں نے اپنی پوری زندگی اس مقصد کے لیے وقف کردی تھی۔

وہ اپنے والد کے انتقال سے 4 مہینے بعد پیدا ہوئے تھے، ان کے والد سونار(Goldsmith) کا کام کرتے تھے۔ ان کی پرورش ان کے دادا نے شروع کی مگر ان کی موت کے بعد ان کے ماموں نے ان کی پرورش شروع کردی جو ریونیو کے محکمے میں پٹواری تھے اور ان کی پوسٹنگ ضلع ڈیرہ غازی خان کے علاقے جام پور میں تھی۔ وہاں کے ایک مڈل اسکول میں انھیں پڑھانے کے لیے بٹھایا گیا۔ اس پڑھائی کے دوران 1884 میں انھیں دو اسلامی کتابیں ملیں جس میں ایک تھی تحفۃ الہند اور دوسری تھی تقویت الایمان جس کو انھوں نے پڑھنا شروع کیا اپنے شوق کی خاطر۔ گہرے مطالعے کی وجہ سے ان کتابوں نے ان پر بڑا گہرا اثر چھوڑا جس کی وجہ سے انھوں نے 15 اگست 1887 میں اسلام قبول کیا اور اپنا نام عبید اللہ رکھا جو تحفۃ الہند کے رائٹر کا نام تھا۔

اب مزید اسلامی تعلیم حاصل کرنے کے لیے وہ سندھ چلے آئے کیونکہ اس زمانے میں سندھ اسلامی تعلیم میں خاص اہمیت رکھتا تھا۔ وہ بھرچونڈی میں سیدھے نامور مولانا حافظ محمد صدیق کے پاس آئے جنھوں نے ان کی اسلام سے محبت دیکھ کر انھیں اپنا بیٹا بنا لیا۔ ان میں خاص بات یہ تھی کہ انھوں نے سارے رشتے چھوڑ کر اسلام کو اپنایا تھا۔ عبید اللہ نے مولانا حافظ محمد صدیق اور وہاں پر رہنے والوں کا پیار، محبت، مہمان نوازی دیکھ کر اپنے نام کے آخر میں سندھی لگا لیا۔ سندھی کہلانے پر فخرکرتے تھے اور سندھ میں رہنا شروع کردیا۔ انھوں نے مولانا محمد صدیق سے طریقت اور راسخ العقیدہ کے بارے میں بڑی معلومات حاصل کیں۔

مولانا عبیداللہ اب سندھ میں پیرجھنڈو گاؤں میں پہنچے جو حیدرآباد ضلع میں تھا جہاں پر انھوں نے مدرسہ دارالاشاد میں پڑھانا شروع کردیا جسے پیر رشد اللہ شاہ راشدی نے 1901 میں قائم کیا تھا۔ یہاں پر مولانا نے کئی اسلامی انقلابی شاگرد پیدا کیے اور دس سال کی مدت میں وہاں پر اسلامی تعلیم پھیلانے میں اپنا کردار ادا کیا۔ سن 1889 میں وہ دیوبند مدرسہ دہلی گئے جہاں پر شیخ الہند مولانا محمود الحسن کے شاگرد بن گئے جو ایک بڑے انقلابی لیڈر تھے۔ وہاں سے واپسی پر وہ پھر سندھ آئے 1891 میں مولانا تاج محمد امروٹی کے ساتھ رہنا شروع کیا۔ یہاں پر ان کی شادی ماسٹر محمد عظیم یوسف زئی کی بیٹی سے امروٹی صاحب نے کرا دی۔ مولانا عبیداللہ کو ان کے استاد شیخ الہند نے دہلی بلوایا اور کہا کہ اب وقت آگیا ہے کہ انگریز حکومت کے خلاف ایک تحریک شروع کی جائے، جس کے نتیجے میں انھوں نے جمعیت الانصار پارٹی قائم کرکے اس کے سیکریٹری بن گئے۔ اس کے علاوہ انھوں نے نظارت العارف 1913 میں دہلی میں قائم کی تھی۔

مولانا صاحب کا ایک بڑا کارنامہ یہ بھی تھا کہ انھوں نے ایک فورس جنودل ریانہ تشکیل دی تھی جس میں سندھ سے مولانا تاج محمد امروٹی، مولانا محمد صادق کھڈے وارو، شیخ عبدالرحیم سندھی، علامہ اسد اللہ شاہ ٹھکرائی شامل تھے جنھیں مختلف ذمے داریاں سونپ دی گئی تھیں۔ ایک دوسرے کو معلومات فراہم کرنا اورخبردار رکھنے کے لیے لال رومال کی تحریک شروع کی جس میں ساری معلومات لکھ کر بھیجی جاتی تھیں ۔ یہ رومال پر لکھی ہوئی تحریر ایک دوسرے تک پہنچانے کے لیے خاص اعتماد کے لوگوں کو استعمال کیا جاتا تھا۔

اب جمعیت الانصارکی طرف سے یہ فیصلہ کیا گیا کہ انگریزوں کے خلاف انقلابی تحریک شروع کردی جائے اور دوسری طرف افغانستان اور ترکی کو اس بات پر آمادہ کیا جائے کہ وہ انقلابی تحریک کے دوران ہندوستان پر حملہ کرے جس کے دباؤ سے وہ ہندوستان چھوڑنے پر مجبور ہوجائیں گے۔ مولانا عبیداللہ افغانستان روانہ ہوگئے تاکہ جو پلان بنایا گیا ہے، اس پر عمل شروع ہوسکے۔افغانستان اس وقت حکومتوں کو تبدیل کرنے کا مرکز بنا ہوا تھا۔ انھوں نے وہاں پر حکومت کے اہم اور طاقتور لوگوں سے، فوج سے اجلاس کرنا شروع کیے۔ اب اس دوران انھوں نے ہند آزاد جلاوطن حکومت کا اعلان کردیا جس کا صدر راجہ مہندر پرتاب کو بنایا گیا اورخود وزیر اعظم بن گئے۔ اس سلسلے میں دنیا کی کچھ حکومتوں نے حمایت کی جس کی وجہ سے ان کی ہمت افزائی ہوئی۔

مولانا نے ہندوستان پر حملے کرنے کے لیے نقشے تیارکروائے اور سندھ میں انقلابی مراکز قائم کروائے جو ہند تک پھیلے ہوئے تھے۔ یہ سارے پیغام لال رومال پر تحریر کیے گئے جس میں عمل کرنے کی تاریخ لکھی ہوئی تھی۔ یہ رومال انھوں نے عبدالخالق نامی شخص کو دے کر روانہ کیا اور حیدرآباد میں شیخ عبدالرحیم کے حوالے کردیے۔ جب یہ رومال کا پیغام لے کر بندہ ملتان پہنچا تو یہ رومال پکڑے گئے جس کے لیے خان بہادر رب نواز نے غداری کرکے راز فاش کردیا تھا۔ اس سازش کی وجہ سے انگریز سرکار خبردار ہوگئی اور ہندوستان میں اور سندھ میں سارے لیڈرزگرفتار ہوگئے، جس کی وجہ سے افغانستان ہندوستان پر حملہ نہیں کرسکا اور پلان فیل ہوگیا۔

اس ناکامی کے بعد عبیداللہ افغانستان میں ایک سال رہنے کے بعد روس چلے گئے۔ 1923 میں وہ ترکی چلے گئے جہاں پر ان کا بڑا پرتپاک استقبال کیا گیا۔ انھیں اتا ترک کی طرف سے سیاسی اور مالی مدد ملنے کی امید پیدا ہوئی، مگر وہ ملٹری سپورٹ حاصل نہ کرسکے ،کیونکہ پہلی عالمگیر جنگ میں ترکی کی شکست نے انھیں کمزورکردیا تھا۔ اس لیے وہ فوجی امداد نہیں کرسکتا تھا۔ مولانا نے ترکی میں تین سال تک قیام کیا اور اس دوران انھوں نے سارو رجیہ پارٹی قائم کردی۔ وہ 1926 میں مکہ چلے گئے جہاں پر وہ اسلامی تعلیم 12 سال تک دیتے رہے اور ان کے پاس سندھ، ہند، انڈونیشیا، تاشقند اورکئی ممالک سے شاگرد پڑھنے آتے تھے۔

سندھ کے وزیر اعظم اللہ بخش سومرو کی کوششوں سے برٹش حکومت عبیداللہ کو سندھ آنے کی اجازت دینے پر راضی ہوگئی۔ 1938 کی پہلی جنوری کو مولانا کو پاسپورٹ بنا کے دیا گیا جس سے ان کا 24 سالہ Asylum جلاوطنی ختم ہوا۔ وہ سمندر کے راستے کراچی بندرگاہ پہ 4 مارچ 1939 کو پہنچے، وزیراعظم اللہ بخش سومرو نے خود جاکر ان کا استقبال کیا۔ سندھ واپس آنے کے بعد انھوں نے نوجوانوں پر دھیان دینا شروع کیا اور انقلاب کی طرف انھیں راغب کرنے کے لیے لیکچر دیا کرتے تھے۔ مولانا نے 1944 میں حیدرآباد سندھ میں جمعیت طلبا کی بنیاد ڈالی جب کہ اس سے پہلے انھوں نے جمنا نریدہ پارٹی بھی بنائی تھی۔ جس کا مطلب تھا کہ ہندوستان کی تقسیم مذہب پے نہیں بلکہ زبان پر کی جائے۔

اب زیادہ کام کرنے اور بڑھتے ہوئے بڑھاپے کی وجہ سے وہ بیمار پڑگئے اور وہ اپنی بیٹی کے پاس دین پور (پنجاب) ضلع بہاولپور چلے گئے جہاں وہ 22 اگست 1944 کو خالق حقیقی سے جا ملے۔ ان کی تقریروں کا ایک مجموعہ مذہب کا فلسفہ کے نام سے شایع کیا گیا ہے۔

میری یہ کوشش ہے کہ میں سندھ اور پاکستان کی تمام شخصیات کو نئی نسل تک متعارف کرواؤں تاکہ وہ دیکھیں کہ ہمارے ماضی کے ہیروز کتنے کام کرتے تھے جنھوں نے اپنی زندگی کسی نہ کسی مقصد کے لیے وقف کردی تھی اور وہ بھی اپنی زندگی میں ملک و قوم، مذہب، انسانیت اور جمہوریت کے لیے کوئی کارنامہ سرانجام دیں اور تاریخ میں امر ہوجائیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں