مولانا غلام محمد گرامی

یہ بہادر علمی، ادبی شخصیت ہم سے 15 ستمبر 1976ء کو جدا ہوگئی، جسے ہم ان کی تحریروں میں تلاش کرتے رہتے ہیں۔


لیاقت راجپر June 29, 2017

مولانا غلام محمدگرامی کا شمار سندھ کی ہمہ جہت شخصیات میں ہوتا ہے، وہ اسکالر، ادیب، شاعر، دانشور، محقق، نقاد اورماہر تعلیم بھی تھے۔ان کے لیے سراج الحق میمن نے کہا تھا کہ '' گرامی سندھی ادب کی قد آور شخصیت ہیں اور میں نے ان سے بہت کچھ سیکھا ہے'' موسیقی کے بارے میں بھی انھیں بڑی معلومات تھیں اور وہ جب اس موضوع پر بولتے تو لگتا تھا کہ موسیقی ان کی روح کے اندر سمائی ہوئی ہے، کلاسیکل میوزک سے انھیں بڑا لگاؤ تھا۔

انھوں نے موسیقی کے بارے میں بے شمار مضامین لکھے۔ ان کے پسندیدہ گانے والے استاد منظورعلی خان تھے جنھوں نے سندھی موسیقی میں کلاسیکل راگ کو بلندیوں تک پہنچانے میں اپنا کردار ادا کیا۔ گرامی نے جوکچھ لکھا ہے وہ پڑھنے والوں کیلیے ایک بڑا علمی خزانہ ہے، جب وہ کسی موضوع پرگفتگو کرتے تو سننے والوں پر ایک سحر طاری ہوجاتا تھا،ان کے الفاظ میں ایک کشش تھی، سننے والے اور پڑھنے والے ان کے مداح بن جاتے تھے۔

ان کا مقصد تھا کہ لوگ ان کی باتوں سے اپنے ذہن کو روشن کریں۔ ان کی خواہش تھی کہ لوگ ادب اورعلم کی دنیا سے اپنے آپ کو جوڑکر رکھیں اور معاشرے سے برائیوں کا خاتمہ ہو۔ وہ ایک ہاری جاڑو لغاری کے گھر میں 30 دسمبر 1920ء کو پیدا ہوئے، ان کے والد میہڑ ضلع دادو میں رہتے تھے۔

گرامی کے خاندان کے لوگ 1840ء میں ڈیرہ غازی خان سے آکر یہاں پر آباد ہوئے، شروع میں وہ ڈرگھ بالا جاگیر میں رہنے لگے اور پھر میہڑ چلے آئے وہاں پر انھوں نے علاقے کے لوگوں میں ایک دوسرے سے رشتے داری کرلی، شادیاں ہوئیں، بچے پیدا ہوئے اور ایک دوسرے کے قریب آگئے۔ کسی بات پر ان کے درمیان لڑائی ہوگئی جس کی وجہ سے وہ وہاں سے ضلع دادو کے علاقوں میں میہڑ، جوہی اور اس کے علاوہ لاڑکانہ، حیدرآباد، میروخان اور قمبر میں آباد ہوگئے۔

وہ سندھی قوم پرست تھے اور جب 1964ء میں حکومت نے ون یونٹ بنایا اور شیخ ایازکی کتاب ''بھونر بھرے'' پر پابندی عائد کی گئی تو انھوں نے ایک 300 صفحات پر مشتمل ایک تحقیقی مقالہ لکھا جس میں انھوں نے کہا کہ شیخ ایاز کی اس شاعری کی کتاب کی جو فنکارانہ اہمیت ہے، وہ ترقی پسند شاعری کو جنم دے رہی ہے جس کی وہ تعریف کرتے ہیں اور یہ چیز ترقی پسند ادب کے دورکا دروازہ کھٹکھٹا رہی ہے۔ اس بات پر Conservative ادبی گروپ نے تنقید کرتے ہوئے یہ مطالبہ کردیا کہ ان کی سندھی ادبی بورڈ سے نوکری ختم کی جائے مگر ادب کے باقی گروپوں نے ان کا یہ مطالبہ مستردکردیا۔

گرامی نے اپنی ابتدائی تعلیم مکتب اسکول سے حاصل کی، پرائمری تعلیم میہڑ سے حاصل کرتے ہوئے انھوں نے عربی، فارسی اور کچھ اسلامی تعلیم کی طرف بھی توجہ دینا شروع کی۔ جب وہ بڑے ہوئے تو ان کے حلقہ احباب میں کئی نامور مذہبی اسکالرز بھی شامل رہے۔ان کا ذہن بہت تیز تھا وہ ہر چیز پر سوچنے لگتے اور اسے تحقیق کے دائرے میں لے آتے۔اس وقت ان کے ہم جماعت مولوی نور محمد تھے۔

جنھوں نے گرامی کے بارے میں بڑی باریک بینی سے لکھا ہے جس میں ان کا بچپن، جوانی، تعلیم اورکارنامے شامل ہیں۔پہلے تو گرامی میہڑ میں پرائمری ٹیچر بنے پھر وہاں سے حیدرآباد چلے گئے جہاں پر جامعہ عریبیہ اسکول میں پڑھانے لگے لیکن وہاں اساتذہ سے اختلافات پیدا ہونے پر نوکری چھوڑ کر چلے آئے۔ پھر وہ ٹریننگ کالج حیدرآباد میں بطور فارسی استاد 1951ء سے 1954ء تک درس وتدریس کے فرائض سرانجام دیتے رہے۔ ان کا ایک بیٹا محمد شبیر اور دو بیٹیاں پیدا ہوئیں۔ وہ سب اعلیٰ تعلیم یافتہ تھے۔ان کی بیوی کا پہلے شوہر سے ایک بیٹا تھا، جسے گرامی نے بیٹوں کی طرح پالا پوسا جو آگے چل کر امان اللہ قریشی کے نام سے اچھے صحافی اور ادیب بن کر ابھرا۔

گرامی نے بطور صحافی 1943ء میں سندھی روزنامہ ہلال پاکستان میں کام کیا اور سندھی روزنامہ عبرت میں بھی کالم لکھتے رہے جبکہ اس وقت کے مشہور اخبارات اور رسائل میں لکھتے رہے جن میں اساں جی دنیا، روح ادب، ہاری حقدار، آفتاب وغیرہ شامل ہیں۔ وہ کئی اخباروں اور میگزین کے ایڈیٹر بھی رہے۔ جب وہ 1955ء میں سندھی ادب بورڈ سے نکلنے والے سہ ماہی میگزین مہران کے منیجنگ ایڈیٹر بنے تو انھوں نے اس رسالے کی تحریروں کے معیارکو برقرار رکھا۔

وہ 1958ء سے 1976ء تک اس میگزین کے ایڈیٹر بھی رہے۔ مہران وہ سہ ماہی میگزین تھا جس نے کئی نامور لکھاری پیدا کیے اور نئے لکھنے والوں کی رہنمائی کرکے ان کی حوصلہ افزائی کی۔گرامی کے لکھے ہوئے ایڈیٹوریل بڑے پائے کے ہوتے تھے، جنھیں پڑھ کر ان کی ذہانت، تعلیمی سوجھ بوجھ اور لیاقت کا اندازہ لگایا جاتا تھا۔ جب پڑھنے والے ان کا ایڈیٹوریل پڑھتے تو ان کی معلومات میں اضافہ ہوتا اور ان میں روشن خیالی پیدا ہوجاتی تھی۔ وہ اپنی تحریروں میں سندھ کی تعلیم، ادب، کلچر، مہمان نوازی، دوستی، تاریخ اور روایات کو ضرور ذکرکرتے تھے۔

وہ انسانیت اور اس کی بھلائی کو زیر بحث لاتے تھے تاکہ مذہب کے ساتھ ساتھ اس ضمن میں بھی قارئین اور لوگوں کی تربیت ہو۔ وہ کئی ادبی اور اشاعتی اداروں کے ممبر بھی رہے جس میں صوفیائے سندھ، سندھی ادبی انجمن، بزم طالب المولیٰ، سندھی ادبی سنگت، سندھی زبان سوسائٹی اور پاکستان رائٹرزکلب۔ وہ ادبی کانفرنس کے بانی بھی تھے جو لنہواری (Lanhwari) شریف بدین کے عرس کے موقعے پر منعقد ہوئی تھی۔انھوں نے لکھنے کی شروعات 1937ء سے اخبار سنسار سماچار سے کی جہاں سے آہستہ آہستہ وہ سندھی ادب کی دنیا میں نام پیدا کرتے چلے گئے۔ گرامی کا لقب انھیں اپنے استاد سید حاجی علی اکبر شاہ نے دیا تھا۔

انھوں نے لکھنے کی دنیا میں کئی بڑے نام متعارف کروائے جن میں ڈاکٹر تنویر عباسی، استاد بخاری، امداد حسینی، ظفر حسن، تاج بلوچ، نفیس احمد شاد، اسحاق راہی، شہید سومرو وغیرہ شامل ہیں۔ ایک مرتبہ کا ذکر ہے کہ صدر محمد ایوب خان ملک کے صدر تھے جنھوں نے سندھی زبان کو بڑا ٹف ٹائم دیا اور سندھی زبان کو تیسرے درجے کی زبان کا Status دیا۔

جب صدر ایوب جمہوری ٹرین کے ذریعے پورے ملک کا دورہ کرنے نکلے اور انھوں نے مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے لوگوں کو دعوت دی کہ وہ ان کے ساتھ سفرکریں۔ ان میں میں سندھی ادبی بورڈ کی طرف سے گرامی گئے ہوئے تھے۔ ایوب خان باری باری سب کو بلاکر سفر کے دوران ملاقات کر رہے تھے کہ وہ انھیں بتائیں کہ ان کی حکومت کے بارے میں ان کے کیا خیالات اور محسوسات ہیں،حکومت کی پالیسیوں کے بارے میں کچھ بتائیں اور عام آدمی اس بارے میں کیا کہتا اور سوچتا ہے۔

جب گرامی کی باری آئی تو انھوں نے صدر سے کہا کہ سندھ کے لوگ بڑے سادہ، صابر اور اسپرنگ کی طرح ہیں انھیں جتنا دبایا جائے گا وہ اتنے ہی زور سے react کریں گے۔ وہ جب تک دبے رہیں گے اور برداشت کرتے رہیں اور جب برداشت کی حد ختم ہوئی تو وہ دبانیوالے کو اتنی طاقت سے پھینک دیں گے کہ وہ منہ کے بل زمین پر جاگرے گا۔

مزید بات کرتے ہوئے کہا کہ سندھ کے لوگوں کے پاس عزت اور جذبہ ہے اور اگرکسی نے انھیں چیلنج کیا تو پھر وہ اپنا رویہ بدل دیتے ہیں۔اس بات کے جواب میں ایوب خان نے کہا کہ وہ سندھیوں کی فطرت کو جانتے ہیں۔جب ایوب خان اپنا دورہ ختم کرکے واپس پہنچے تو انھوں نے جاتے ہی سندھی زبان کا Status واپس کردیا۔ اس بات کی تصدیق ڈاکٹر غلام علی الانہ نے اپنے ایک مضمون میں کی تھی۔

یہ بہادر علمی، ادبی شخصیت ہم سے 15 ستمبر 1976ء کو جدا ہوگئی، جسے ہم ان کی تحریروں میں تلاش کرتے رہتے ہیں۔ ان کی خواہش کے مطابق انھیں حیدر بخش جتوئی اور غلام شاہ کلہوڑو کے قریب دفن کیا گیا۔ لوگ ہمارے واقعی سادہ ہیں اور کتنی جلدی ایسے لوگوں کو بھول جاتے ہیں جن کی بے شمار خدمات ہمارے لیے مشعل راہ ہیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں