نہ وہ سورج نکلتا ہے

ارے کوئی تو عدالت ہو، کوئی تو جج ہو جو انصاف کرجائے، انصاف کا علم بلند کردے۔


Saeed Parvez May 15, 2017

چلو! یہ تو دہشت گرد ہیں، کسی کے اشارے پر خودکش دھماکے کرتے ہیں، خود بھی مر جاتے ہیں اوروں کو بھی مار دیتے ہیں۔ ان کے پیچھے دہشت گرد تنظیمیں ہوتی ہیں۔ یہ خودکش حملہ آور کسی سوچ سے متاثر ہو کر روپے پیسے کے لالچ میں انسانوں کو مارتے ہیں، مگر یہ کون ہیں! ان کا کیا مسئلہ ہے! یہ جنھیں تمام آسائشیں، آرام میسر ہیں، اللہ کی زمین پر یہ قابض، کھیت کھلیان ان کے، ہتھیار بند جتھے ان کے پاس، خزانے ان کے، اشاروں کے منتظر نوکر چاکر ان کے، پھر یہ انسانوں پر ظلم کیوں کرتے ہیں۔ نئی خبر آئی ہے کہ ایک زمیندارنی نے وقت پر جانوروں کو چارہ نہ ڈالنے پر دس بارہ سال کے ملازم لڑکے کا ہاتھ چارہ کاٹنے کی مشین سے کاٹ دیا۔ اس کے ماں باپ دہائی دیتے زمیندارنی کے گھر گئے تو انھیں ڈنڈے مار کر بھگا دیا۔ پچھلے دو تین سال میں ایسے کئی واقعات ہوچکے ہیں۔ رحیم یار خان کے جاگیرداروں کے شکاری کتوں نے غریب ہاریوں کے دو بچے چبا کر مار دیے۔ گجرات میں جاگیردار نے ایک ملازم بچے کے دونوں ہاتھ کاٹ دیے۔ شیخو پورہ میں بھی ایک مزدور کے ہاتھ کاٹ دیے گئے۔ اب یہ واقعہ بھی شیخوپورہ میں ہی رونما ہوا ہے۔ ایک بااثر شخص کی بیوی نے ننھی ملازمہ طیبہ پر ظلم کے پہاڑ توڑ دیے، اب خبر آئی ہے کہ طیبہ کے ماں باپ صلح پر راضی ہوگئے ہیں۔ مگر جس عدالت میں یہ کیس زیر سماعت ہے اس کے جج نے کہا ہے کہ یہ کیس عدالت کا ہے، اس کے فریقین حکومت اور ظلم کرنے والے ہیں، اس کیس میں کوئی تیسرا فریق خود سے کچھ نہیں کرسکتا، فیصلہ عدالت کو کرنا ہے۔

شاباش جج صاحب! آپ نے بہت درست فیصلہ کیا ہے، آپ کی طرف کروڑوں غریب عوام آس امید بھری نظروں سے دیکھ رہے ہیں۔ آپ فیصلے تک اس عدالت کو مت چھوڑیے گا، اگر آپ کا تبادلہ بھی کردیا جائے تو اس تبادلے کے حکم نامے کو ہرگز نہ مانیے گا۔ جب تک ان ظالموں کو اپنے کیے کی عبرت ناک سزا نہیں ملے گی، یہ ظالم نہیں سدھریں گے۔

ارے کوئی تو عدالت ہو، کوئی تو جج ہو جو انصاف کرجائے، انصاف کا علم بلند کردے، حیدرآباد پریس کلب کے باہر منوبھیل دو سال بیٹھا رہا، اس کے گھر والوں کو بچوں سمیت وڈیرے نے بند کر رکھا تھا، معاملہ سپریم کورٹ تک چلا گیا، جیکب آباد کے وڈیرے بھی سپریم کورٹ تک پہنچے، گجرات کے ہاتھ کاٹنے والے جاگیردار، شیخوپورے کے ہاتھ کاٹنے والے زمیندار، رحیم یار خان کے شکاری کتوں والے جاگیردار، یہ سارے کے سارے مکمل خیریت سے ہیں اور ان کے خلاف آئین خاموش۔ بے چاری پولیس بے ہوش، پولیس والوں کا تازہ ترین واقعہ تو پورے پاکستان میں سب نے دیکھا ہے۔

سندھ کا ایک وڈیرا طاقت کے نشے میں چور، تھانے پہنچا، ایس ایچ او کو کرسی سے اٹھایا، خود اس کی کرسی پر بیٹھ گیا۔ سب نے دیکھا وہ وڈیرا ایس ایچ او کو گالیاں دے رہا تھا اور ایس ایچ او ہاتھ باندھے تھر تھر کانپ رہا تھا۔ جتوئی خاندان کا یہ وڈیرا ایک سیاسی جماعت کا رہنما بتایا جا رہا ہے۔ یہ وڈیرا سب کچھ کر کراکے منظر سے غائب کروادیا جاتا ہے اور پھر بلوچستان کے ہائی کورٹ سے ضمانت قبل از گرفتاری کروا کے واپس سندھ آچکا ہے۔ حکمران سب جانتے ہیں یہ وڈیرا کس طرح بلوچستان پہنچایا گیا۔ جانے کس روز مریں گے یہ وڈیرے۔

اب دباؤ، پریشر اتنا بڑھ چکا ہے کہ لاوا کسی بھی روز ابل کر باہر آجائے گا۔ وہ لوگ کون ہیں، کہاں ہیں؟ کوئی نہیں جانتا۔ مگر وہ ہیں، آخر یہ تو ہونا ہی ہے۔ پھر نہ ظالم رہیں گے اور نہ ان کے طرف دار۔ لگتا ہے ''چاروں اور ہوا پھرتی ہے لے کر تیر کمان، بگیا لہولہان'' یہ جالب نے مشرقی پاکستان پرآپریشن پر کہا تھا، گو یہاں فریقین وہ نہیں، مگر حالات ویسے ہی ہیں۔ دھماکے، خودکش حملے، تو اپنی جگہ مگر ان ظالم جاگیرداروں، وڈیروں، خانوں، سرداروں کو لگام دو۔ ہمت اور حوصلہ کرکے ان کتے والوں، ہاتھ کاٹنے والوں، ملازماؤں پر ظلم کرنے والوں کو قرار واقعی سخت سزائیں دے کر انھیں نشان عبرت بنادو۔

اگر انصاف نہ کیا گیا، تو کتے چھٹتے رہیں گے، ہاتھ کٹتے رہیں گے، پولیس بے وقعت ہوتی رہے گی۔ اب یہ وڈیرا گردی عرصہ ہوا، شہروں میں آچکی ہے۔ بڑے چھوٹے شہروں کی سڑکوں پر ہیبت ناک سیاہ فام گاڑیاں رات گئے، نکلتی ہیں اور کہانیاں چھوڑ جاتی ہیں اور۔۔۔۔ اور ہم سب خاموش تماشائی بنے۔ شاید اپنی باری کا انتظار کر رہے ہیں۔

یہ سیاسی جماعتیں کیا راگ پاٹ کر رہی ہیں، سارے ظالم تو انھی سیاسی جماعتوں میں پناہ گزیں ہیں۔ وہ جالب نے کہا تھا ناں:

کہاں قاتل بدلتے ہیں، فقط چہرے بدلتے ہیں

عجب اپنا سفر ہے، فاصلے بھی ساتھ چلتے ہیں

اور اسی غزل کا ایک اور شعر بھی ہے، وہ بھی ضرور سناؤں گا:

وہ جس کی روشنی کچے گھروں تک بھی پہنچتی ہے

نہ وہ سورج نکلتا ہے، نہ اپنے دن بدلتے ہیں

تو سورج کے سامنے کھڑی بلند و بالا مضبوط دیواروں کو ڈھانا ہوگا، تاکہ کچے گھروں تک سورج کی روشنی وہاں بھی پہنچے۔

مولانا عبدالغفور حیدری کے قافلے پر مستونگ میں خودکش حملہ ہوا۔ مولانا کا بچ جانا معجزہ ہی ہے۔ 30 افراد مارے گئے۔ بہت سے زخمی ہیں۔ بات تو وہیں سے شروع ہوتی ہے اور اس ظلم پر سارے ہی ظالم یاد آگئے۔ اللہ مرنے والوں کے درجات بلند کرے۔ زخمیوں کو جلد صحت یاب کرے (آمین)۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں