شوہر و بیوی کا باہمی تعلق

دونوں کو باتوں میں سختی کرنے سے ڈرنا چاہیے۔


نکاح، حرام کاموں سے نفس کی پاک دامنی اور معاشرے کو برائیوں سے پاک کرنے میں مدد کرتا ہے۔ فوٹو : فائل

نکاح، مرد اور عورت کے درمیان محبت اور رحمت کا ذریعہ ہے، یہ میاں بیوی کے درمیان خوش بختی اور اطمینان حاصل کرنے کے اسباب میں سے ایک ہے۔

اﷲ تعالیٰ نے فرمایا : '' اور اس کی نشانیوں میں سے ہے کہ اس نے تمہارے لیے تمہی سے بیویاں پیدا کیں تاکہ تم ان کی طرف سے آرام پاؤ اور اس نے تمہارے درمیان مودت اور مہربانی رکھ دی کیوں کہ اس میں ان لوگوں کے لیے یقینًا بہت سی نشانیاں ہیں جو غور کرتے ہیں۔'' ( الروم:21)

امام ابن کثیر رحمہ اﷲ کہتے ہیں : اﷲ سبحانہ کی بنی آدم پر اپنی کامل رحمت میں سے یہ ہے کہ اس نے ان کی جنس سے ہی ان کے جوڑے بنائے اور ان کے اور ان کی بیویوں کے درمیان مودت ڈال دی۔ وہ محبت اور رحمت دراصل نرمی ہے۔ بے شک ایک مرد عورت کو اس سے اپنی محبت کی وجہ سے یا اس پر رحمت کی وجہ سے روک کر رکھتا ہے تاکہ اس سے اس کی اولاد پیدا ہو یا اس لیے کہ وہ (عورت) خرچ کرنے میں اس کی محتاج ہوتی ہے یا یہ کہ ان دونوں کے درمیان الفت ہوجاتی ہے یا اس کے علاوہ کوئی اور وجہ ہوسکتی ہے۔

نکاح پاک دامنی کا ذریعہ

نکاح، حرام کاموں سے نفس کی پاک دامنی اور معاشرے کو برائیوں سے پاک کرنے میں مدد کرتا ہے۔ اس کے فائدے بہت عظیم ہیں، اور اس کی مصلحتیں بہت زیادہ ہیں۔ یہ صرف مردوں اور عورتوں تک ہی عام نہیں! بل کہ تمام امت کے لیے اس کے فوائد عام ہیں۔

امام ابن قدامہ رحمہ اﷲ کہتے ہیں : نکاح، دین کو مضبوط اور اس کی حفاظت کرنے، عورت کی مضبوطی و تحفظ، اس کی نگرانی کرنے، نسل کے وجود میں لانے، امت کی تعداد میں اضافہ کرنے اور نبی ﷺ کی اپنی امت کی کثرت پر فخر کو ثابت کرنے پر مشتمل ہے۔ اس کے علاوہ ایسی ایسی مصلحتیں ہیں جن میں سے ایک ایک نفلی عبادت پر بھاری ہے۔

شکر گزاری

میاں بیوی دونوں اﷲ کا اس بات پر شکر ادا کریں کہ اس نے ان دونوں کا باہم ساتھ رہنا آسان بنایا اور اس عظیم نعمت کے شکر میں سے یہ ہے کہ وہ دونوں ہر اس کام سے دور رہیں جو اس تعلق کے ٹوٹنے کا سبب ہوسکتا ہے جو ان دونوں کے درمیان ہے اور جو ان کے اتحاد کو پارہ پارہ کرسکتا ہے۔ خاص طور پر وہ نافرمانیاں اور گناہ جو ہر مصیبت کی بنیاد اور ہر بدنصیبی کے نکلنے کے مقام ہیں۔

باہمی حقوق کا خیال

میاں بیوی دونوں پر لازم ہے کہ وہ باہمی حقوق و فرائض کا لحاظ رکھیں۔ شوہر کو چاہیے کہ اپنے بیوی بچوں کی خیرخواہی اور راہ نمائی کی جو ذمے داری اس پر عاید ہوتی ہے وہ اسے ادا کرے، چناں چہ وہ انہیں ایسی چیز کی ترغیب دے جو اُن کو دونوں جہانوں میں فائدہ دے اور ایسی چیز سے ڈرائے جو ان کے لیے نقصان دہ ہے۔ شوہر پر لازم ہے کہ وہ ان پر اتنا خرچ کرے جو اسے میسر ہو اور ان کی ضروریات پوری کرنے کا حریص ہو۔ عورت پر لازم ہے کہ وہ اپنے شوہر کی اطاعت کرے اور اﷲ جل و علا کی نافرمانی کے علاوہ اس کی خواہشات کو پورا کرنے کی حریص ہو۔ شوہر اور اپنے گھر کے حق کے بارے میں جو چیز اس پر لازم ہے اسے بجا لائے۔

جب ان میں سے کوئی ایک دوسرے کے حق میں کوئی غلطی کرے تو اسے چاہیے کہ وہ اس کی خیر خواہی کرے۔ اسے نصیحت کرے۔ اس کی غلطی کو حکمت اور نرمی کے ساتھ اس پر واضح کرے۔ دونوں کو باتوں میں سختی کرنے سے ڈرنا چاہیے! اور سختی کرنے میں حد سے آگے نہیں بڑھنا چاہیے! خاص طور پر شوہر کی طرف سے! جب اس (سختی ) کی ضرورت بھی نہ ہو۔ ان دونوں کو اس بات کی حرص ہونی چاہیے کہ باہمی معاملہ کرتے وقت نرمی ہی ان پر غالب ہو کیوں کہ اسی میں کام یابی، خوش نصیبی اور فلاح ہے۔

ام المومنین عائشہ رضی اﷲ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اﷲ ﷺ نے ان سے فرمایا : '' اے عائشہ! نرمی سے کام لیا کرو کیوں کہ جب اﷲ تعالیٰ کسی گھرانے سے خیر کا ارادہ فرماتا ہے تو نرمی کے دروازے کی طرف ان کی راہ نمائی کردیتا ہے۔''

نرمی اور بھلائی کا معاملہ

مرد کو چاہیے کہ وہ ہمیشہ یاد رکھے کہ عورت دین، علم یا فقہ میں جس مقام تک بھی پہنچ جائے وہ پھر بھی عقل اور دین میں ناقص ہی رہے گی کیوں کہ وہ اسی پر پیدا کی گئی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہمارے نبی ﷺ نے اس کے ساتھ بھلائی کی وصیت کی ہے۔ چناں چہ آپ ﷺ نے فرمایا : '' عورتوں کے بارے میں نصیحت قبول کرو! کیوں کہ عورت پسلی سے پیدا کی گئی ہے اور پسلیوں میں سب سے ٹیڑھا اس کا اوپر والا حصہ ہوتا ہے۔ اگر تم اسے سیدھا کرنے لگ جاؤ گے تو اسے توڑ دو گے اور اگر تم اسے چھوڑ دو گے تو وہ ٹیڑھی ہی رہے گی، عورتوں کے ساتھ اچھے سلوک کی نصیحت قبول کرو۔''

شیخ ابن عثیمین رحمہ اﷲ کہتے ہیں : '' یہ وصیت جو میں تمہیں کررہا ہوں اسے قبول کرو، وہ اس طرح کہ عورتوں کے ساتھ بھلائی کرو، کیوں کہ عورتیں عقل میں قاصر ہوتی ہیں، دین میں قاصر ہوتی ہیں، غور و فکر میں قاصر ہوتی ہیں اور اپنے تمام کاموں میں بھی قاصر ہوتی ہیں کیوں کہ وہ پسلی سے پیدا کی گئی ہیں اور اس کی تفصیل یہ ہے کہ اﷲ نے آدمؑ کو بغیر ماں اور باپ کے پیدا کیا، مخلوق پھیلے تو اس نے ان سے ان کی بیوی کو پیدا کیا پس اس نے اس کو اس کی ٹیڑھی پسلی سے پیدا کیا تو وہ ٹیڑھی پسلی سے پیدا کی گئی۔

اگر آپ ٹیڑھی پسلی سے فائدہ اٹھائیں گے تو اسی حال میں اٹھائیں گے کہ اس میں کجی ہوگی اور اگر آپ اسے سیدھا کرنا چاہیں گے وہ ٹوٹ جائے گی۔ تو اسی طرح یہ عورت ایسی ہے کہ اگر انسان اس سے فائدہ اٹھانا چاہے گا تو اسی حال میں فائدہ اٹھا سکے گا کہ وہ ٹیڑھی ہوگی، تو جو کچھ بھی ملے وہ اس پر راضی رہے۔ اگر وہ اسے سیدھا کرنا چاہے تو وہ کبھی بھی سیدھی نہیں ہوگی اور وہ اس پر کبھی بھی قدرت نہیں پاسکے گا۔ اگر وہ اپنے دین میں سیدھی ہوگی تو اپنے مزاج کے تقاضے کے مطابق کبھی بھی سیدھی نہیں ہوگی۔ ہر چیز میں وہ اپنے شوہر کے لیے ویسی نہیں ہوگی جیسے وہ چاہتا ہے، بل کہ مخالفت ضرور ہوجائے گی۔ اس سے کوتاہی بھی ضرور ہوگی، اس کوتاہی کے ساتھ ساتھ جو اس میں پہلے سے ہی موجود ہے۔ تو یہ اپنی فطرت اور مزاج کے تقاضے کے مطابق قاصر ہے اور اس میں کوتاہی کرنے والی بھی ہے۔ اگر تم اس کو سیدھا کرنا چاہو گے تو تم اس کو توڑ دوگے اور اس کا ٹوٹنا اس کی طلاق ہے یعنی اس کا معنی یہ ہے کہ اگر تم کوشش کرو کہ وہ تمہارے لیے اس طریقے پر سیدھی ہوجائے جیسے تم چاہتے ہو تو یہ ممکن نہیں۔ تب تم اس سے بے زار ہوجاؤ گے اور اس کو طلاق دے دو گے تو اس کا ٹوٹنا اس کی طلاق ہے۔

اﷲ تعالیٰ تم دونوں کو توفیق دے، اس بات پر حریص رکھے کہ باہم معاملہ، خیر خواہی، گفت گو کرتے وقت، نرمی اور رحمت تمہارے درمیان غالب رہے کیوں کہ ایسا کرنا احسان میں سے ہے۔ یہ ان اہم اسباب میں سے ہے جو المنان کی اجازت سے خوش نصیبی اور اطمینان کو کھینچ لاتے ہیں۔

 

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں