جالب سچ کا دم بھر جانا دوسرا حصہ

غزل کے اختتام پر پنڈت جی نے جالب کو گلے لگایا ان کی آنکھیں بھیگی ہوئی تھیں


Saeed Parvez March 19, 2017

یہ غزل مشاعرے میں مقبول ہوگئی، اس کی بڑی پذیرائی ہوئی، بہت شہرت ہوئی اور مجھے بہت عزت ملی۔ لوگوں نے کہا ''ایک اور ایک اور مکرر مکرر۔'' دوسرے دن ''احسان'' اخبار لاہور میں ظہور الحسن ڈار نے اپنے کالم میں لکھا کہ زہرہ نگاہ، جالب اور جگر صاحب کو مشاعرے میں سنا گیا۔

زہرہ نگاہ بہت خوبصورت پڑھتی تھیں اور بڑے اچھے سادہ شعر کہتی تھیں ان کی آواز میں ایک تہذیب تھی، ایک شدت تھی، ایک پاکیزگی تھی۔ ان کے بعد پڑھنا بڑا مشکل کام ہوتا تھا۔ جگر صاحب نے اپنے صدارتی خطاب میں کہا ''اگر ہمارا زمانہ مے نوشی ہوتا تو ہم پاؤں میں گھنگھرو باندھ کر جالب کی غزل پر سر محفل رقص کرتے۔''

1954 میں حبیب جالب ہاری تحریک کے کارکن کی حیثیت سے پہلی بار ریگل چوک کراچی سے گرفتار ہوئے۔ 1956 میں لال قلعہ دہلی میں پنڈت جواہر لعل نہرو وزیر اعظم ہندوستان کی صدارت میں پاک و ہند مشاعرے میں ہجرت کا درد لیے غزل پڑھی:

محبت کی رنگینیاں چھوڑ آئے
ترے شہر میں اک جہاں چھوڑ آئے

غزل کے اختتام پر پنڈت جی نے جالب کو گلے لگایا ان کی آنکھیں بھیگی ہوئی تھیں، انھوں نے اگلے روز جالب کو وزیر اعظم ہاؤس مدعو کیا۔ 1957 میں پہلا شعری مجموعہ ''برگ آوارہ'' مکتبہ کارواں لاہور سے شایع ہوا۔ اس سال نیشنل عوامی پاکستان میں شامل ہوئے اور اس جماعت سے ہی وابستہ رہے، مزدور، کسان پارٹیوں سے بھی تعاون رہا۔ 1950 میں مستقلاً لاہور آباد ہوگئے۔ 1962 میں فیلڈ مارشل محمد ایوب خان کے خودساختہ دستور کے خلاف ملک میں پہلی آواز بلند ہوئی:

دیپ جس کا محلات ہی میں جلے
چند لوگوں کی خوشیوں کو لے کر چلے

وہ جو سائے میں ہر مصلحت کے پلے
ایسے ''دستور'' کو صبح بے نور کو

میں نہیں مانتا' میں نہیں جانتا

اعلان بغاوت کشمور سے چاٹگام تک سنا گیا۔ 1964 میں محترمہ فاطمہ جناح نے جنرل ایوب خان کے خلاف صدارتی انتخاب میں حصہ لیا۔ حزب اختلاف کی پانچ شخصیات کو محترمہ فاطمہ جناح کی انتخابی مہم میں ساتھ رہنا تھا۔ نوابزادہ نصراللہ خان اور دیگر کے ساتھ حبیب جالب بھی شامل تھے کہ لوگ انھیں سننے کے لیے آتے تھے۔ حبیب جالب کا راستہ روکتے ہوئے جنرل ایوب و گورنر کالا باغ نے حبیب جالب کو اقدام قتل دفعہ 307 کے تحت گرفتار کرکے جیل میں ڈال دیا۔

الزام یہ تھا کہ لاہور کرشن نگر کے رہائشی بستہ ب کے بدمعاش اور بی ڈی ممبر بابو وارث نے آخری بس اسٹاپ کرشن نگر پر حبیب جالب سے اپنا قرض ایک ہزار روپے مانگے تو حبیب جالب نے اپنے بیگ سے چاقو نکال کر بابو وارث پر حملہ کردیا۔ شدید زخمی ہونے کے باعث بابو وارث گر گیا تو منیر احمد کتب فروش اور دیگر نے حبیب جالب کو پکڑ کر پولیس چوکی پہنچادیا۔

پولیس نے آلہ قتل بھی برآمد کرکے قبضے میں لے لیا جب کہ اصل واقعہ یوں تھا کہ محترمہ فاطمہ جناح کے انتخابی جلسوں سے دور رکھنے کے لیے گورنر پنجاب نواب امیر محمد خان آف کالا باغ نے لاہور پولیس کے سپرنٹنڈنٹ سے کہہ دیا تھا کہ اگر حبیب جالب کو گرفتار نہ کیا تو سب کی پیٹیاں اتروا دوں گا اور سارے لاہور کی پولیس اپنی نوکریاں بچانے کے لیے حبیب جالب کو ڈھونڈ رہی تھی، جب کہ لاہور کی دیواروں پر جہازی سائز کے پوسٹر لگے ہوئے تھے جن میں جلی حروف میں دو نام لکھے گئے تھے محترمہ فاطمہ جناح اور حبیب جالب۔

پولیس سے بچانے کی خاطر میاں محمود علی قصوری نے حبیب جالب کو اپنے آبائی گھر قصور میں روپوش کردیا تھا مگر حبیب جالب روپوشی سے تنگ آکر لاہور کافی ہاؤس پہنچ گئے، جہاں منیجر کافی ہاؤس نے مخبری کرکے پرانی انارکلی پولیس کو بلوالیا اور پولیس حبیب جالب کو گرفتار کرکے لے گئی۔ یہ تھی اصل کہانی، پولیس کا ڈرامہ سراسر جھوٹ تھا۔ جہاں یہ سب کچھ تھا وہیں ایک تکلیف دہ بات بھی تھی کہ ایک صف اول کے اردو شاعر نے حبیب جالب کے خلاف حکمرانوں کی ایما پر کردار ادا کیا۔

حبیب جالب کا مقدمہ لوئر کورٹس سے ہوتا ہوا لاہور ہائی کورٹ تک پہنچا تو اس وقت کے جسٹس عبدالعزیز نے جالب کی ضمانت منظور کرتے ہوئے رہا کردیا۔ اس وقت تک پشاور، راولپنڈی اور لاہور کے انتخابی جلسے ہوچکے تھے۔ لاہور فوجی گیٹ کے جلسے میں روزنامہ امروز کی رپورٹ کے مطابق پانچ لاکھ افراد شریک تھے اور گرفتاری کے سبب شریک نہ ہونے والے شاعر حبیب جالب کی نظم دستور بذریعہ ٹیپ جلسہ شروع ہونے پر سنائی گئی حبیب جالب زندہ باد کے نعرے بلند ہوئے۔

ہائی کورٹ سے ضمانت پر رہائی کے بعد میاں محمود علی قصوری جالب کو جیل سے لے کر سیدھے گلستان فاطمہ، باغ جناح پہنچے جہاں لاہور کے شہریوں کی طرف سے محترمہ فاطمہ جناح کو استقبالیہ دیا جا رہا تھا۔ جالب نے استقبالیہ میں تازہ ترین کلام سناتے ہوئے کہا ''میں جیل سے ایوب خان کا قصیدہ لکھ کر لایا ہوں'' اور ان الفاظ کے بعد جالب نے تین چار مرتبہ یہ مصرعہ دہرایا ''صدر ایوب زندہ باد'' لوگ غیر متوقع طور پر یہ سن کر پریشان ہوگئے کہ یہ کیا ماجرا ہے اور پھر جالب صاحب شروع ہوئے:

بیس گھرانے ہیں آباد
اور کروڑوں ہیں ناشاد

آج بھی ہم پر جاری ہے
کالی صدیوں کی بے داد

صدر ایوب زندہ باد

صدارتی الیکشن ہوا اور بانی پاکستان قائداعظم کی دست راست محترمہ فاطمہ جناح کو ہروا دیا گیا۔ جالب کا تبصرہ تھا:

دھاندلی، دھونس، دھن سے جیت گیا
ظلم پھر مکر و فن سے جیت گیا

مگر بدترین دھاندلی کے باوجود حکمران کراچی اور حیدرآباد کے انتخابی نتائج نہ بدل سکے اور ان دونوں شہروں سے مادر ملت کی فتح کا اعلان کیا گیا۔ جس کی سزا فتح کا جشن مناتے ہوئے بادشاہ سلامت کے شہزادے نے لیاقت آباد کے گھروں کو آگ لگا کر دی۔ حبیب جالب نے واقعہ تاریخ بند کیا۔

نشیمنوں کو جلا کر کیا چراغاں خوب
سنوارتے ہیں یونہی چہرۂ گلستان خوب

کھلا کے شاخ دل و جاں پہ پھول زخموں کے
سڑکوں کو کیا آپ نے نمایاں خوب

لہو اچھال کے اہل وفا کا راہوں میں
قدم قدم پہ کیا یاس دل فگاراں خوب

ہر ایک بجھتا ہوا دیپ کہہ رہا ہے یہی
تمام رات رہا جشن نوبہاراں خوب

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں