امریکی ہتھکنڈوں کے شکار ممالک چوتھا حصہ
اگر امریکا روس کی مدد نہ کرتا اور روس جرمنی کے قبضے تلے آجاتا تو جرمنی مضبوط بن جاتا۔
اس دوران اتحادی فوجیں روس کے دفاع کے لیے بھرپور ساتھ دیتی ہیں اور امریکا نے روس کو 10 ارب 80 کروڑ 10 لاکھ ڈالر کا قرضہ دیا۔ اس میں سے روس نے اشیائے خورونوش، کپڑے، ادویات و دیگر 9 ارب 47 کروڑ 80 لاکھ ڈالر کی وصول کیں اور جنگ کے دباؤ سے نکل آیا بلکہ ستمبر 1942ء کو جرمن فوجوں کو شدید نقصان پہنچاکر باہر دھکیل دیا۔
قابل غور پہلو ہے کہ اگر امریکا روس کی مدد نہ کرتا اور روس جرمنی کے قبضے تلے آجاتا تو جرمنی مضبوط بن جاتا۔ کیونکہ برطانیہ، فرانس، جرمنی سے شدید زخمی ہوچکے تھے۔ جرمنی بہت سے یورپی ملکوں پر قابض ہوچکا تھا۔ لینڈ لیز کی ایڈ امریکا نے روس کو دے کر اپنے آپ سمیت دوسرے بڑے سامراجی ملکوں کو جرمنی کے قبضے اور غلامی تلے آنے سے بچالیا تھا۔ امریکی دو رخی یا سہ رخی ''شیطانی مالیاتی پالیسیاں'' ہر دور میں نظر آتی ہیں۔ 1910ء میں تمام کوریا پر جاپان قابض ہوگیا۔
1945ء میں اتحادی فوجوں نے کوریا سے جاپان کو نکال دیا۔ 1946ء میں امریکا نے جنوبی کوریا پر قبضہ کرلیا اور روس نے شمالی کوریا پر قبضہ کرلیا۔ 1948ء میں جنوبی کوریا نے سرمایہ دارانہ جمہوری کوریا ہونے کا اعلان کیا اور 1950ء میں آزاد ہونے کا اعلان کردیا۔ شمالی کوریا نے اسے متحدہ رکھنے کے لیے اس پر حملہ کردیا۔ ان دونوں میں لیکن بغیر کسی نتیجے کے 1953ء میں جنگ بندی کا معاہدہ ہوگیا تھا۔ اس کے بعد امریکی خارجہ پالیسیاں تبدیل ہوتی گئیں۔ کتاب ''انٹرنیشنل اکنامی'' کے صفحہ 573 پر لکھا ہے:
In 1951 congress passed the so-called battle act which prohibited United States Government financial assistance to countries sending militry goods to Soviet block countries. while no official interpretation has been made. This act in effect prevented United States Government credits to Soviet block countries."
یاد رہے کہ کوریا کے واقع سے قبل امریکی صدر روز ویلٹ اور برطانوی وزیر اعظم ونسٹن چرچل نے 4 اپریل 1949ء کو سوشلسٹ ممالک کے خلاف ''نارتھ اٹلانٹک ٹریٹی'' 14 نکات پر مشتمل معاہدے کا واشنگٹن میں اعلان کیا۔ اس کے مطابق ممبر ممالک پر حملہ سب ممالک پر حملہ تصور کیا جائے گا اور سب مل کر اس ملک پر حملہ کریں گے۔
ایک دوسرے کی مدد و تعاون ہر شعبے میں کریں گے۔روسی سوشلزم اور چینی ماؤزے تنگ کا انقلاب سامراجی بلاک کے لیے اتنا خطرناک تو نہیں تھا۔ لیکن امریکی سامراج نے عملاً 1947ء میں ٹرومین ڈاکٹرائن کے تحت سوشلزم کو روکنے کے لیے ترکی اور یونان کو دس، دس کروڑ ڈالر کا قرضہ دیا۔ اسی طرح مارشل پلان کے نام سے یورپی ملکوں کو اپریل 1948ء سے جون 1952ء تک 13 ارب ڈالر کا قرضہ سوشلزم کو روکنے کے لیے دیا۔ 1950ء میں Point Four Program امریکی منڈی کو پھیلانے کے لیے اسی طرح The Food for Peace Program بھی اسی طرح امریکی مفادات کے لیے شروع کیا گیا۔
امریکی مداخلت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ 1972-73ء میں بنگلہ دیش کی حکومت نے امریکی ادارے آئی ایم ایف سے قرضہ مانگا تو اس سے کہا گیا کہ بنگلہ دیش ''کیوبا سوشلسٹ'' ملک سے تجارت بند کر دے تو قرضہ ملے گا۔ دسمبر 1962ء میں عالمی میڈیا میں امریکی صدر جان ایف کینیڈی کا بیان شایع ہوا تھا۔ اس نے اکنامک کلب نیویارک دسمبر 1962ء میں تقریر کرتے ہوئے کہا:
"The aim of military aid, as of a economic aid foreign aid is a method by which the United States maintains a position of influence and control around the world, and sustains a good many countries that would definitely collapse or pass into the communist block. The "aid" keeps the under developed nations within the sphere of American power or bring them into it, and attempts to ensure a stable government that will support such treaties."
امریکا نے 14 اگست 1941ء اٹلاٹنک چارٹر کا معاہدہ ''جرمنی نازی ازم'' کو ختم کرنے کے لیے کیا تھا۔ امریکا نے جرمنی اور روس دونوں کی لڑائی سے دو مقاصد حاصل کر لیے ایک روس کوبین الاقوامی سطح پر سوشلزم کی تحریک کو روکنے کے لیے اسٹالن سے تھرڈ کمیونسٹ انٹرنیشنل کے خاتمے کا اعلان کروایا روس کی جرمن جنگ میں مدد دے کر پورے یورپ کو جرمنی سے بچایا۔ 1950ء کی دہائی میں امریکا نے اس خطے جنوبی ایشیا اور مڈل ایسٹ میں مداخلت کرکے کہا کہ ان ملکوں کو سوشلزم سے بچایا جانا چاہیے۔ پاکستان کے سامراج پرست حکمرانوں نے امریکا سے
(1)۔Mutual Security Act of 1951
(2)۔ گندم قرض معاہدہ 19 ستمبر 1952ء کو کیا۔
(3)۔ Agreement for Technical Cooperation and Economic Assistance کا معاہدہ 28 دسمبر 1953ء کو کیا گیا اور 19 مارچ 1954ء کو معاہدہ Mutual Defence Assistance کیا گیا۔
پاکستان نے 24 فروری 1955ء کو معاہدہ بغداد کیا۔ اس کے ممبر ممالک پاکستان، امریکا، ایران، ترکی تھے۔ اور معاہدہ بغداد کی تجدید 5 مارچ 1959ء میں دوبارہ کی گئی۔ اس کا نام Bilateral Agreement of Mutual Defence رکھا گیا۔ یاد رہے کہ جب جنرل ایوب خان نے اکتوبر 1958ء میں اقتدار پر قبضہ کر لیا۔ ایوب خان نے 1959ء میں معاہدے کے مطابق پشاور کے قریب ''بڈابیر'' کے مقام پر امریکا کو جاسوسی فوجی اڈہ بنانے میں مکمل تعاون کیا۔ اس فوجی جاسوسی اڈے سے اڑ کر امریکی یوٹو فوجی طیارہ روس کے اندر گھس کر جاسوسی کرتے ہوئے پکڑا گیا۔ پائلٹ پاور گیری کو زندہ گرفتار کرلیا گیا۔
روسی وزیراعظم نیکتا خروشیف نے پاکتان کو 10 مئی 1960ء کو دھمکی دی کہ اس کے جواب میں پشاور کو نشانہ بنایا جائے گا۔ اس کے بعد یہ ہوائی اڈہ بند کردیا گیا تھا۔ 1956ء میں جنوبی ویتنام کی سرپرستی کرتے ہوئے امریکا نے شمالی ویتنام پر بمباری شروع کردی تھی، جو مسلسل 19 سال (1975) تک جاری رہی۔ تھائی لینڈ کے ہوائی اڈے کرائے پر لے کر امریکا استعمال کرتا رہا۔ امریکا نے اسی دوران لاؤس، کمبوڈیا پر بھی بمباری شروع کردی تھی۔ صرف کمبوڈیا پر 1965ء سے 1970ء تک 45 لاکھ ٹن Dynamite (بارود) امریکا نے عوام کے قتل عام کے لیے برسادیا تھا۔
امریکا نے کوریا جنگ میں جنوبی کوریا کی حکومت کو اس کا علاقہ استعمال کرنے پر 200 ملین ڈالر سالانہ ادا کیے تھے اور شمالی ویت نام پر حملوں کے دوران ہوائی اڈوں کا استعمال کرنے پر تھائی لینڈ کو امریکا نے سالانہ 50 ملین ڈالر دیے تھے۔ امریکا نے ویتنام کی جنگ میں لاکھوں عوام کو گولیوں اور بارود سے بھون دیا تھا۔ اسی طرح انڈونیشیا کو 1922ء میں نیدرلینڈز (ہالینڈ) کا حصہ قرار دے کر ''ڈچ ایسٹ انڈیا کمپنی'' میں شامل کر لیا تھا۔
(جاری ہے)