امریکی ہتھکنڈوں کے شکار ممالک حصہ اول

’’عوامی غلام داری‘‘ سماج کی ابتدا زرعی کلچر کے فروغ کے ساتھ واضح طور پر ابھرتی گئی


خالد گورایا February 13, 2017
[email protected]

لاہور: ''عوامی غلام داری'' سماج کی ابتدا زرعی کلچر کے فروغ کے ساتھ واضح طور پر ابھرتی گئی۔ شہنشاہوں، بادشاہوں، نوابوں، جاگیرداروں کا مطمع نظر تھا کہ زیادہ سے زیادہ علاقے اور غلام حاصل کرکے زیادہ سے زیادہ غلاموں کی محنت سے زیادہ پیداواریں حاصل کرکے اپنے سرمائے یا آمدنی میں اضافہ کیا جائے۔ جنگ ایسا منافع بخش کاروبار آج تک موجود ہے کہ حکمرانوں کے لیے ''غلام عوام'' کا قتل عام کوئی اہمیت نہیں رکھتا۔

اٹھارہویں صدی کا صنعتی انقلاب جو تھامس نیو کومن (1663سے 1729) کے ایجاد کردہ بھاپ انجن سے شروع ہوا، پھر جیمز واٹ (1736 سے 1819) نے نیو کومن سے بہتر انجن بنالیا۔ ہارگریوز نے کپڑا بننے کی مشین ایجاد کرلی۔ آرک لائٹ نے مزید بہتر مشین بنالی۔ رچرڈ ٹریوی تھک (1771 سے 1833) نے ناقص ریل گاڑی کی پٹڑی بنائی۔ جارج اسٹیفن سن (1781 سے 1848) نے 1824 میں کامیاب ریل گاڑی بناکر چلائی۔

1858 تک پورے یورپ میں ریل گاڑیوں کا جال بچھ چکا تھا۔ زرعی کلچر کے ساتھ یورپی ملکوں میں صنعتی کلچر تیزی سے پھیلتا گیا۔ صنعتکار کم سے کم سرمائے سے زیادہ سے زیادہ خام مال، زیادہ سے زیادہ وقت میں صنعتی مزدوروں سے زیادہ پیداواریں حاصل کرکے اپنی آمدنی یا سرمائے میں اضافہ کرنے لگے۔ دیہاتوں سے تنگ آئے ہوئے زرعی مزدوروں نے شہروں کی طرف ہجرت کرنی شروع کردی۔ صنعتکاروں کو مزید سستی لیبر ملنے لگی۔ قانون فطرت ہے کہ جب کسی عمل میں توازن قائم نہیں رہتا تو متوازن کرنے والی قوتیں متحرک ہوجاتی ہیں۔

جرمنی کارل مارکس (1818سے 1883) اور فریڈرک اینگلز (1820سے 1895) نے صنعتی مزدوروں کی بے چینی کو محسوس کرکے کتابچہ ''کمیونسٹ مینی فسٹو'' 1848 میں شایع کیا۔ کارل مارکس کی کتاب ''داس کیپیٹل'' 1867 میں اینگلز نے شایع کی۔ اس کے بعد پورے یورپ میں مزدوروں میں انقلابی بیداری بڑھتی گئی۔ کارل مارکس کی تھیوری ''سرپلس سرمایہ'' یا ''قدر زائد'' نے اس مزدور بیداری میں بنیادی کردار ادا کیا۔

کارل مارکس نے کہا کہ صنعتکار جو سرمایہ سرپلس کی شکل میں حاصل کرتے ہیں، یہ سرمایہ دراصل مزدوروں کی محنت ہوتا ہے، اس سرمائے کی وجہ سے صنعتکار لکھ پتی سے کروڑ پتی، کروڑ پتی سے ارب پتی اور ارب پتی سے کھرب پتی بنتا جاتا ہے۔ اس کے برعکس صنعتی مزدور روزبروز مفلوک الحال ہوتے جاتے ہیں۔ اس معاشی بے انصافی کے نتیجے میں مزدوروں میں بے چینی، معاشی بدحالی اور احساس محرومی کے خاتمے کے لیے بغاوت جنم لیتی ہے۔ مزدور کارخانوں، فیکٹریوں اور حکومتی اداروں پر پرولتاری (مزدور) انقلاب کے ذریعے قابض ہوکر اپنی سوشلسٹ حکومت کرلیتے ہیں۔ زمینیں جاگیرداروں سے چھین کر کسانوں میں مفت تقسیم کردیتے ہیں۔

جرمنی میں صنعتی مزدوروں میں مارکسی تھیوری کا اثر نمایاں ہوتا گیا۔ 1875 میں جرمنی میں ''سوشل ڈیموکریٹک پارٹی'' سوشلسٹ فرڈی ننڈیسیل نے قائم کرلی تھی۔ جس نے 1877 کے الیکشنوں میں 12 سیٹیں حاصل کرلی تھیں۔ جرمنی کے شاہی چانسلر اوٹوون ''بسمارک'' نے کارل مارکس کو 1871 میں جلاوطن کردیا تھا۔ کسی یورپی ملک نے کارل مارکس کو قبول نہیں کیا۔ آخرکار برطانیہ میں پناہ گزیں ہوگیا تھا۔ ولیم اول شہنشاہ جرمنی 1871 سے 1888 کے دور 1878 میں شہنشاہ ولیم اول کو قتل کرنے کی سازش کے الزام میں سوشلسٹ انقلابیوں پر سخت پابندیاں لگا کر ان کی کتابیں اور سرمایہ ضبط کرلیا گیا۔ مزدور لیڈر گرفتار کرلیے گئے۔ اسے دیکھ کر کئی سو انقلابی زیر زمین چلے گئے۔

شاہی چانسلر بسمارک نے 1882 میں ''جرمنی کالونیل یونین'' قائم کی تھی اور 1884 میں ٹوگولینڈ، کیمرون، جنوبی، مغربی، مشرقی افریقہ، جزائر مارشل، نیوگنی اور جزائر بسمارک میں جرمنی تجارتی کمپنیاں قائم کرکے 1890 میں تمام علاقوں کو شاہی نو آبادیات میں شامل کرلیا تھا۔ جرمنی میں سوشلسٹ انقلاب کو روکنے کے لیے 1881 سے 1890 تک جرمنی کے مزدوروں کے لیے حادثات، بیماری کے خلاف بیمہ اسکیم نافذ کی گئی۔ کارخانوں کے مالکوں کو پابند کیا گیا کہ عورتوں، بچوں کے اوقات کار کا تعین کیا جائے۔ اتوار کو چھٹی دی جائے۔ بڑھاپے اور معذوری کے لیے بیمہ قانون بنایا گیا۔

پریمیم حکومت، مل مالکان اور مزدور ادا کرتے تھے۔ مزدوروں کو یونین سازی کی اجازت دی گئی۔ یاد رہے کہ اس سے قبل 1872 میں تین شہنشاہوں نے مل کر ''مقدس اتحاد'' یا تین شہنشاہوں کی لیگ قائم کی تھی جرمنی کا شہنشاہ شاہ ولیم اول، روس کا شہنشاہ زار الیگزینڈر دوم، آسٹریا کے شہنشاہ فرانس جوزف نے مل کر ملکوں میں سوشلسٹ انقلاب کو روکنے کے لیے مل کر اقدامات کرنے کے لیے اور آپس میں جنگ نہ کرنے کا معاہدہ کیا تھا۔ اسی طرح فرانس کے نپولین سوم نے 1852 سے 1870 کے دوران لبرل اصلاحات کیں۔

1860 میں مزدوروں کو کم قیمت پر روٹی مہیا کی گئی۔ کارخانوں میں کام کرنے والے مزدوروں کو چھٹیاں دی گئیں۔ انشورنس کی سہولتیں دی گئیں۔ یونین سازی اور جماعت بنانے کا حق دیا گیا۔ پریس پر سے پابندیاں اٹھا لی گئیں۔ امریکی شہر شکاگو میں 1886 میں تمام مزدور تنظیموں نے مل کر اوقات کار آٹھ گھنٹے کرنے کے لیے اجتماعی مظاہرہ کیا۔ پولیس کی بھاری نفری موجود تھی کسی حکومتی ایجنٹ نے مظاہرے کے دوران پولیس پر بم پھینک دیا، جس سے 7پولیس اہلکار ہلاک ہوگئے اور 12 دوسرے لوگ بھی ہلاک ہوگئے۔ حکومت نے چن چن کر 18 مزدور لیڈروں کو سخت سزائیں دیں اور 11 نومبر 1887 کو 4 مزدور دانشوروں کو پھانسی پر لٹکا دیا تھا۔

یاد رہے کہ 1920 سے قبل پوری دنیا میں ویزا سسٹم رائج نہیں تھا۔ 1920 میں لیگ آف نیشنز نے پاسپورٹ سسٹم اور ویزا ریگولیشن جاری کیے تھے، اس سے قبل ہر کوئی ہر ملک میں بغیر ویزے کے جاسکتا تھا۔ روسی (ولادی میر ایلیچ اولیانوف) لینن (10 اپریل 1870 سے 22 جنوری 1924) کے بھائی الیکساندر اولیانوف کو روسی شہنشاہ زار الیگزینڈر سوم کے قتل کی سازش کے الزام میں مئی 1887 کو قلعہ شلیلبرگ میں پھانسی دے دی گئی تھی۔ بھائی کی ''پھانسی موت'' کے بعد لینن کو باغیانہ خیالات کی وجہ سے یونیورسٹی سے نکال دیا گیا۔

روسی شہنشاہ الیگزینڈر سوم کی حکومت کے دور میں 1881 سے 1894 تک روس صنعتی ترقی کرچکا تھا۔ لینن نظریہ ''سرپلس سرمایہ'' سے متاثر ہوچکا تھا۔ روس میں ''عزم عوام'' کے نام سے 1879 میں خفیہ پارٹی بن چکی تھی۔ 1883 پلیخانوف کی قیادت میں ''محنت کی نجات'' کے نام سے جنیوا میں پارٹی بن گئی تھی۔ اس گروپ میں مارکس کی تھیوری کا ترجمہ روسی زبان میں کرکے کتابیں روس بھیجیں۔

1895 میں لینن نے پیٹرزبرگ میں ''مزدوروں کی جدوجہد کی انجمن'' قائم کی۔ 1896 میں اس تنظیم نے پورے شہر پیٹرزبرگ میں صنعتی مزدوروں کی مکمل ہڑتال کرائی۔ لینن کو انقلابی خیالات کی وجہ سے دسمبر 1895 سے 1896 تک قید تنہائی کی سزا دی گئی۔ اور پھر 13 فروری 1897 کو لینن کو 3 سال کے مشرقی سائبیریا میں جلاوطن کردیا گیا۔1900 میں واپسی پر پھر گرفتار کرلیا گیا آزاد ہونے کے بعد 16 جولائی 1900 کو لینن جرمنی چلا گیا۔ جرمنی میں ''چنگاری'' نام سے اخبار نکالنا شروع کیا۔

جرمنی میں حکومتی سخت نگرانی کی وجہ سے لینن 1902 میں لندن چلا گیا۔ یہاں بھی انقلابیوں پر سختیاں دیکھ کر جنیوا آکر اخبار ''اسکرا'' نکالنا شروع کیا۔ اس سے قبل 1897میں روس میں ''سوشل ڈیموکریٹک پارٹی'' وجود میں آئی تھی۔ جولائی 1903 برسلز میں پارٹی کی دوسری کانگریس کے موقع پر پارٹی دو حصوں میں تقسیم ہوگئی ایک بالشویک پارٹی دوسری وینشوک پارٹی بن گئی۔ انقلابی جدوجہد کے نتیجے میں 9 جنوری 1905 کو پیٹرزبرگ میں زار شہنشاہ روس کے ''سرما محل'' کے سامنے ہزاروں مزدور اپنی بیویوں اور بچوں سمیت زار سے اپنے مطالبات منوانے کے لیے اکٹھے ہوئے۔

زار کے حکم پر ان سب پر گولیاں برسائی گئیں۔ ایک ہزار سے زیادہ مزدور بچے اور عورتیں ہلاک کردی گئیں۔ اس کے جواب میں انقلابیوں نے 1905 میں ظالم روسی وزیر خارجہ کو قتل کردیا۔ شہنشاہ زار کے چچا گورنر جنرل گرانڈ ڈیوک کو بم پھینک کر قتل کردیا۔ اور عوامی قتل عام پر پورے روس میں احتجاج اور ہڑتالوں اور ہنگاموں کے نتیجے میں زار نے حکم نامہ جاری کیا جس میں تقریر تحریر دوسری شہری آزادیوں کا وعدہ کیا گیا تھا۔ 1905 کو لینن نے پیٹرزبرگ نے واضح طور پر انقلابی منشور کا اعلان کیا۔ (جاری ہے)

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں