نورجہاں کے مدھر سُر خاموش ہوئے 13برس بیت گئے

نورجہاں نے کروڑوں لوگوں کے دل جیتے اوربھرپور زندگی گزار کر فانی دنیا سے کوچ کیاجو بہت کم انسانوں کو نصیب ہوتا ہے۔


Muhammad Javed Yousuf December 22, 2012
نور جہاں نے پلے بیک موسیقی کو وہ انداز بخشا جسے گزشتہ 60 سالوں سے نقل کیا جارہا ہے۔ فوٹو : فائل

ISLAMABAD: موسیقی کی دنیا کا ذکر سُروں کی ملکہ نورجہاں کے بغیر مکمل نہیں ہوتا، گیت ہو یا غزل میڈم کی آواز کانوں میں رَس گھولتی ہے۔

میڈم کی صلاحیتوں کا اعتراف صرف پاکستان میں ہی نہیں بلکہ دنیا بھر میں موسیقی کے قدردان کرتے ہیں۔ نورجہاں کو گزرے 13برس ہونے کو آئے مگر آج تک کوئی ان کی طرح فن کا جادو نہیں جگا سکا۔ کئی گلوکاروں نے ان کی نقل کی، کوئی ان کے نقش قدم پر چلنے کی کوشش کرتا رہا، کسی نے ان کے گلدستے سے چند پھول چننے کی کوشش کی مگر کوئی نورجہاں ثانی نہ بن سکا۔

بے شمار کامیاب فنکاروں کو پس پردہ آواز کے ذریعے کامیاب بنانے میں اہم کردار ادا کرنے والی عظیم گلوکارہ نے اپنا فلمی کیریئر 1930ء میں خاموش اداکاری والی فلم ''حنا کے ترسے'' سے شروع کیا جبکہ فلمی ہیروئن کے طور پر ان کے کیریئر کا آغاز 1942ء میں ''خاندان'' فلم سے شروع ہوا۔ اس فلم کیلئے غلام حیدر کے کمپوز کئے ہوئے تمام گانے سپرہٹ ہوئے اور اس دور کے مقبول ترین گانوں میں شمار ہوئے۔ اس طرح نور جہاں کیریئر کے آغاز میں ہی گلوکارہ اور اداکارہ کے طور پر مشہور و مقبول ہو گئیں۔

انہوں نے ممبئی میں کئی بھارتی فلموں نادان، نوکر، لال حویلی، دل، ہمجولی اور جگنو وغیرہ میں کام کیا۔ بعد ازاں قیام پاکستان کے بعد 1947ء میں وہ لاہور منتقل ہو گئیں جہاں پر انہوں نے اداکاری اور گلوکاری کا سلسلہ جاری رکھا۔ نورجہاں نے دوپٹہ، گلنار، انتظار، لخت جگر، کوئل اور انار کلی میں کام کیا۔ بعدازاں نورجہاں نے 1960ء سے 1970ء کے عشرے میں پنجابی فلموں کیلئے گانے گائے جو کہ سپرہٹ ہوئے۔ انہوں نے ایک ہزار فلموں کیلئے گیت گائے جن میں سے زیادہ تر مقبول عام ہوئے۔

ملکہ ترنم نور جہاں کے دل میں پاکستان کی محبت کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی اور انہوں نے 1965ء کی جنگ میں اپنی آواز میں رضاکارانہ طور پر کئی ترانے گائے جو کہ بڑے مقبول ہوئے اور ان ترانوں سے پاکستانی فوج اور عوام کا حوصلہ بلند ہوا۔ اللہ وسائی کے نام سے21ستمبر 1926ء کو پیدا ہونے والی نورجہاں نے 9سال کی عمر میں چائلڈ گلوکارہ کے طور پر گانا شروع کیا۔ ملکہ ترنم نور جہاں نے اپنا آخری نغمہ 1996ء میں ریکارڈ کرایا جس کے بعد خرابی صحت کی بنا پر انہوں نے نغمے گانے ترک کر دیئے۔ نورجہاں 23 دسمبر 2000ء کو انتقال کر گئیں۔

نصف صدی سے زائد عرصہ تک موسیقی کی سلطنت اور کروڑوں سامعین کے دل ودماغ پر حکمرانی کرنے والی ملکہ ترنم نورجہاں کے حوالے سے ایشیائی لیجنڈ دلیپ کمار نے بھی اپنے ایک انٹرویو میںخراج عقیدت پیش کرتے ہوئے کہا تھا کہ ''نورجہاں نے پلے بیک سنگنگ میں جو اُسلوب اور انداز وضع کیا وہ فلمی موسیقی کالازم جُز بن گیا۔ اصل میں نورجہاں کی آواز نے فلمی موسیقی کو وہ جمالیات بخش دئیے تھے اور اس کی وجہ سے یہ آج تک سجی ہوئی ہے۔ دلیپ کمار نے کہا کہ دنیا میں فلم اور میوزک ریکارڈنگ کی ایجادات کو متعارف ہوئے ابھی تھوڑا عرصہ ہوا تھا اس لئے اس تکنیک کو سیکھنے کے لئے نہ تو انسٹی ٹیوشنز تھے اور نہ ہی فنکاروں کی کوئی ٹریننگ تھی۔ حیرت انگیز امر ہے کہ نورجہاں اور ان کے دوسرے ساتھیوں نے جو کام کیا وہی ان انسٹی ٹیوشینز کی بنیاد اور سلیبس بنا۔''

لتا منگیشکر نے بھی اسی طرح ملکہ ترنم نورجہاں کو ٹریبوٹ پیش کرتے ہوئے کہا کہ ''سبھی لوگ جانتے ہیں کہ میں نے انہیں ہمیشہ ''نورجہاں دیدی'' کہاہے، وہ سچ مچ میری بڑی بہن تھیں، انہیں بڑی فنکارہ بھی تسلیم کرتی ہوں ۔ وہ اپنی تمام عمر سُر میں گائیں ان کا سب سے بڑا کریڈٹ یہ ہے کہ انہوں نے پلے بیک موسیقی کو وہ انداز بخشا جسے گزشتہ 60 سالوں سے نقل کیا جارہا ہے۔ لتا منگیشکر نے کہا کہ مُجھے یہ کہنے میں کوئی عار نہیں کہ جہاں برصغیر کی فلم اور سنیما نے بہت ترقی کی ہے وہاں موسیقی کے شعبے میں زوال اور عامیانہ پن کے علاوہ کچھ حاصل نہیں کیا گیا۔ لتا منگیشکر نے کہا کہ میں نے نورجہاں کے انداز کو بنیاد بنا کر اپنا ایک اسلوب وضع کیا جسے چاہنے والوں نے بہت سراہا ۔ لتا منگیشکر نے کہا کہ دنیامیں جو آتا ہے اسے ایک نہ ایک دن تو واپس جانا ہوتا ہے مگر نورجہاں جیسے دنیا میں آئیں انہوں نے کروڑوں لوگوں کے دل جیتے اور بھرپور زندگی گزار کر اوپر والے کے پاس گئیں یہ بہت کم انسانوں کو نصیب ہوتا ہے۔''

ملکہ ترنم نورجہاں کی 13 ویں برسی کے حوالے سے ان کی بیٹی ظل ہما نے کہا کہ ''جوں وقت گزرتا جا رہا ہے ماں کی جدائی کا دکھ اسی قدر بڑھتا چلا جا رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ میری ماں جتنی بڑی فنکارہ تھیں اتنی ہی عظیم ماں تھیں۔ ان جیسی شخصیت دنیا میں کبھی کبھار پیدا ہوتی ہے۔''

گلوکارہ شاہدہ منی نے کہا کہ نورجہاں کی جدائی ایک گہرا گھاؤ ہے جو کبھی نہیں بھر پائے گا۔رواں صدی میںان جیسی فنکارہ کا آنا ممکن نہیں۔ ان کی گنڈا بندھ شاگرد گلوکارہ ترنم ناز نے کہا کہ وہ اپنے نام اور کام کی طرح انسان بھی بہت بڑی تھیں جو ہمیشہ نئے آنے والوں سے شفقت کرنے کے ساتھ ان کی حوصلہ افزائی بھی کرتی تھیں۔ ان کی وفات سے فلمی موسیقی یتیم ہوگئی ہے اور آج تک کوئی دوسری سنگر ان کا خلا پر نہیں کرسکی۔

میوزک ڈائریکٹر ذوالفقار عطرے نے کہا کہ نورجہاں ایک لاجواب شخصیت تھی جو صدیوں بعد پیدا ہوتی ہیں' اگر کوئی گائیکی میں اپنا مقام بنانا چاہتا ہے تو وہ میڈم نورجہاں کی شخصیت کو سامنے رکھ کر چلے جس نے موسیقی کو باقاعدہ سیکھا ہے۔ گلوکارہ سائرہ نسیم نے کہا کہ وہ موسیقی کی ایک مکمل درسگاہ تھیں' جنہیں فلمی' غیر فلمی ' غزل سمیت ہر انداز کے گانے پر مکمل عبور حاصل تھا' مگر انہوں نے غزل گائیکی تو کمال کردیا 'اس کی وفات سے موسیقی ایک حقیقی ملکہ سے محروم ہوکر رہ گئی ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں