مونووی ایک فرد پر مشتمل امریکا کا منفرد گاؤں

1930ء کے عشرے میں مونووی کی آبادی ڈیڑھ سو تک پہنچ گئی تھی۔


ع۔ر November 15, 2016
1930ء کے عشرے میں مونووی کی آبادی ڈیڑھ سو تک پہنچ گئی تھی۔ فوٹو : فائل

مونووی امریکی ریاست نیبراسکا کی بائڈ کاؤنٹی کی حدود میں واقع ایک چھوٹا سا گاؤں ہے۔ مونووی مقامی زبان میں پھول کو کہتے ہیں۔ کسی زمانے میں یہاں جنگلی پھولوں کی بہتات رہتی تھی اسی لیے اس گاؤں کا نام مونووی پڑ گیا۔

نصف مربع کلومیٹر پر محیط یہ گاؤں دریائے نیوبرارا اور دریائے میسوری کے درمیان واقع ہے۔ یہاں کئی گھر، ایک کتب خانہ اور ایک شراب خانہ واقع ہے۔ مونووی کو جو بات دوسرے گاؤں دیہات سے جُدا کرتی ہے ،وہ یہ ہے کہ اس کی آبادی صرف ایک فرد پر مشتمل ہے! مونووی سرکاری سطح پر تسلیم شدہ واحد گاؤں ہے جہاں صرف ایک فرد کے لیے بجلی، پانی اور گیس جیسی بنیادی سہولتیں فراہم کی جاتی ہیں۔

تراسی سالہ ایلسی ایلر گاؤں کی واحد رہائشی ہے۔ بارہ برس پہلے تک وہ تنہا نہیں تھی۔ اسے اپنے شوہر کی رفاقت حاصل تھی۔ 2004ء میں جب روڈی نے داعی اجل کو لبیک کہا تو وہ اکیلی رہ گئی۔ روڈی کوکتب بینی کا شوق تھا۔

اس کے پاس لگ بھگ پانچ ہزار کتابیں تھیں۔ شوہر کے انتقال کے بعد ایلسی نے ان کتابوں پر مشتمل ایک لائبریری تشکیل دے دی جہاں کوئی بھی آکر ان سے استفادہ کرسکتا ہے۔ ایلسی زیادہ وقت شراب خانے میںگزارتی ہے، جہاں قرب و جوار کے گاؤں دیہات سے کوئی نہ کوئی آ ہی جاتا ہے۔ اس وقت ایلسی کی تنہائی عارضی طور پر ختم ہوجاتی ہے۔ لائبریرین اور بارٹینڈر ہونے کے علاوہ وہ گاؤں کی میئر بھی ہے۔ روڈی کے انتقال کے بعد سے ہر بار وہ بلامقابلہ منتخب ہوتی رہی ہے۔ وہ اپنے لیے شراب خانے کا لائسنس خود جاری کرتی ہے، اور ٹیکس بھی خود ہی کو ادا کرتی ہے۔

مونووی میں موجود کئی گھروں کے کھنڈرات سے اندازہ ہوتا ہے کہ اس بستی میںکبھی خوب چہل پہل رہتی تھی۔ اس گاؤں کی بنیاد 1902ء میں اس وقت پڑی جب فریمنٹ، الکورن اور میسوری کو ملانے کے لیے ریلوے لائن بچھائی گئی۔ ریلوے لائن کا اختتام یہاں آکر ہوتا تھا۔ اسی لیے یہاں کچھ لوگ آکر آباد ہوگئے تھے۔ 1930ء کے عشرے میں مونووی کی آبادی ڈیڑھ سو تک پہنچ گئی تھی۔

پھر وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ مکینوں کی تعداد کم ہوتی چلی گئی۔ اس کی وجہ بہتر مستقبل کی تلاش میں شہروں کی جانب نقل مکانی تھی۔ ایلسی اور روڈی نے اسی گاؤں میں آنکھ کھولی تھی اور وہ یہیں پلے بڑھے تھے۔ یہیں وہ ایک دوسرے کے جیون ساتھی بنے ۔ انھیں اس گاؤں سے بے حد پیار تھا۔ یہی وجہ ہے کہ اپنے بچوں کے پیہم اصرار کے باوجود انھوں نے گاؤں چھوڑ کر ان کے ساتھ شہر جانا گوارا نہ کیا۔ رفتہ رفتہ یہ دو ہی نفوس گاؤں میں باقی رہ گئے، اور اب پچھلے بارہ برسوں سے ایلسی ہی گاؤں کو آباد رکھے ہوئے ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں