’’انفرادیت کا قائل ہوں‘‘

شوبزنس کے ہر شعبے کا فرد پہلے کی نسبت زیادہ خوش حال نظر آتا ہے۔ یہ ایک نفع بخش انڈسٹری بن گئی ہے.


Ashraf Memon December 17, 2012
آنے والے وقت میں جیت صرف محنتی اور باصلاحیت آرٹسٹ کی ہو گی, رجن شاہی. فوٹو : فائل

وہ باکمال ہے، جانتا ہے کہ ناظرین کے دل کیسے جیتے جائیں!

رجن شاہی نے چھوٹے پردے کے لیے ریکارڈ ساز ڈرامے تیار کیے، جنھیں بے پناہ شہرت ملی اور متعدد ایوارڈز سے نوازا گیا۔ پروڈکشن ہاؤس ''ڈائریکٹرزکٹ'' کے بینر تلے کام کرنے والے رجن اپنے منفرد اندازِ پیش کاری کے باعث ایک 'آئی کون' کا درجہ حاصل کر چکے ہیں۔ ان کے کارناموں کی فہرست طویل ہے، کیوں کہ اُن کے کام کی رفتار بھی خوب ہے۔ ناظرین ایک ڈرامے کے سحر سے نکلتے نہیں کہ اُن کی دوسری کاوش سامنے آجاتی ہے۔ ہندوستان کے مایۂ ناز پروڈیوسر رجن شاہی سے ایک ملاقات کا احوال آپ کے لیے پیش ہے۔

٭ حال ہی میں ''یہ رشتہ کیا کہلاتا ہے'' نے ایک ہزار اقساط مکمل کی ہیں۔ کیسا محسوس کر رہے ہیں؟

یہ ''ڈائریکٹرزکٹ'' کی بڑی کام یابی ہے۔ بدائی کے بعد اس شو نے اپنی کہانی کے منفرد خیال کے باعث کروڑوں ناظرین کی توجہ حاصل کی ہے۔ یہ ایسی کہانی ہے، جس کی کام یابی کے لیے روایتی طریقے نہیں اپنائے گئے۔ میری مراد گلیمر اور دیگر 'مسالوں' سے ہے۔ ہم نے ان کا سہارا نہیں لیا بلکہ اسکرپٹ کو مضبوط بنانے پر توجہ دی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہزار اقساط کے بعد بھی اس کی اولین ویور شپ برقرار ہے جب کہ اس میں نئے ناظر بھی شامل ہو رہے ہیں۔

اس شو نے مجھے ایک نئی شناخت دی ہے۔ میں اپنی ٹیم کا شکرگزار ہوں، جن کا تعاون ہر مرحلے پر حاصل رہا اور انہی کی بدولت آج انڈسٹری میں اپنی پہچان بنانے میں کام یاب ہوں۔

٭ اس کہانی کے لیے کس طرح متحرک ہوئے؟

اسٹار پلس کے ہیڈ سے میری ملاقات ہوئی تو چند آئیڈیاز بات چیت کا موقع ملا۔ انھوں نے مجھے محبت کے جذبے پر ایک ایسی کہانی کا آئیڈیا دیا، جس کا مرکز نوجوان جوڑا تھا۔ میں نے اسے ذہن میں بٹھا لیا۔ ان کا اصرار اس بات پر تھا کہ اس شو میں کوئی منفی کردار نہ ہو۔ مطلب نہ تو کہانی کا کوئی ٹریک المیے پر مبنی ہو، اور نہ ہی ولین یا ویمپ جیسا کوئی کیریکٹر نظر آئے۔ یہ ایک ایسے جوڑے کی کہانی ہو، جس کی زندگی کا سفر سہانا اور خوشیوں کا خزانہ ثابت ہو۔ میں نے اسے کر دکھایا، اور توقع سے بڑھ کر اس کا رسپانس ملا ہے۔ ناظرین کی اس شو سے جذباتی وابستگی اور ان کا فیڈ بیک اس کی مقبولیت کا ثبوت ہے۔

٭ ''کچھ تو لوگ کہیں گے''بھی آپ کا کارنامہ ہے ۔ حال ہی میں اس ڈرامے نے ایک سال کا عرصہ مکمل کیا ہے۔ اس کے بارے میں اپنے خیالات کا اظہار کریں؟

یہ ایک نسبتاً مشکل پروجیکٹ ثابت ہوا۔ اس کی وجہ کہانی کی بُنت اور بنیادی خیال ہے۔ مجھے بے حد مسرت محسوس ہوتی ہے، جب لوگ میرے اس شو کی تعریف کرتے ہیں، کیوں اس کے ساتھ مجھے اور پوری ٹیم کو واقعی بہت محنت کرنا پڑی۔ اب یہ ڈراما ایک سال کا عرصہ پورا کر چکا ہے اور ناظرین میں مقبول ہونے کے ساتھ ساتھ ہمارے پروڈکشن ہاؤس کے لیے متعدد اعزازات سمیٹ چکا ہے۔

٭ ''امرت منتھان'' کے بارے میں کچھ کہیے؟

یہ شو ابھی لڑکھڑا رہا ہے، لیکن مختلف طرز کی کہانی کی وجہ سے اس کے ناظرین کی تعداد بڑھ رہی ہے۔ دراصل اس میں تجسس کا عنصر غالب ہے، ہر مرتبہ کچھ نیا ہوتا ہے، اچانک ڈرامائی انداز میں ناظرین کو بڑی تبدیلی دیکھنے کو ملتی ہے، جس نے انھیں شو سے جڑے رہنے پر مجبور کر دیا ہے۔ کہانی میں نت نئے موڑ ناظر کو اپنی طرف کھینچتے ہیں، یہی اس کی خوبی ہے، اور ہم نے اس زاویے سے خاصا کام کیا ہے۔ اسے میں ایک اہم پروجیکٹ خیال کرتا ہوں۔ اس کی وجہ تنقید اور بعض حلقوں میں اسے کم زور تصور کیا جانا ہے۔ دراصل یہ سب مجھے مزید بہتر کرنے پر اکساتا ہے اور اصلاح و بہتری کی غرض سے کی گئی تنقید میرے لیے مفید ثابت ہوئی ہے۔ میں اپنے ساتھیوں، ناقدین اور ناظرین کی آراء اور تجاویز کو اہمیت دیتا ہوں اور ان پر غور کرتا ہوں۔

٭ بہ حیثیت پروڈیوسر آپ کا تجربہ کئی سال پر محیط ہے۔ اس دوران آپ نے کئی ٹیلی ویژن ڈرامے پیش کیے۔ ان میں سے کِسے زبردست قرار دیں گے؟

میں اپنے کام میں انفرادیت کا قائل ہوں، میرا ہر شو اپنے پچھلے سے مختلف اور نئے ڈھب پر ہوتا ہے۔ ''ڈائریکٹرزکٹ'' کے بینر تلے بننے والا ہر ڈراما میری توجہ اور محنت کا نتیجہ ہے، یہ میری اولاد کی طرح ہیں، ان میں تفریق اور موازنہ میرے لیے آسان نہیں ہے، لیکن بدائی ایسا ڈراما ہے، جس نے مجھے حقیقی طور پر متأثر کیا اور مجھے مزید اچھا کرنے کی تحریک ملی۔ میں اسے اپنے تمام ڈراموں میں بہترین مانتا ہوں۔

٭ ایکتا کپور کے بعد شوبزنس انڈسٹری کو کئی نئے چہرے دینے والوں میں آپ کا نام بھی لیا جاتا ہے۔ اس بارے میں کچھ کہیے۔

جی ہاں، اپنے پروڈکشن ہاؤس کے ذریعے میں نے کئی باصلاحیت آرٹسٹوں کو متعارف کروایا ہے، ان میں سے چند تو اسٹار کا درجہ حاصل کر چکے ہیں۔ میں سب سے پہلے سارہ خان کا نام لوں گا، بدائی اس کا پہلا شو تھا، جس میں اس لڑکی نے نہایت عمدہ اداکاری کی اور گویا راتوں رات مقبولیت کا سفر طے کر لیا۔ دھیرج دھوپر، انگد ہسیجا، پارول چوہان، حنا خان، کرن مہرا، ابھیشک تیواری، اور نیہا سرگم بھی آج انڈسٹری کے نام ور اور باصلاحیت فن کار شمار کیے جاتے ہیں، انھیں پہلی مرتبہ میں نے اسکرین پر متعارف کروایا تھا۔

٭ پچھلے چند برسوں پر نظر ڈالیں تو آپ کے خیال میں انڈسٹری میں کیا تبدیلیاں آئی ہیں؟

اس کا دائرہ اثر اس قدر پھیل چکا ہے کہ اب بڑے پردے کے فن کار بھی اس طرف آرہے ہیں۔ شوبزنس کے ہر شعبے کا فرد پہلے کی نسبت زیادہ خوش حال نظر آتا ہے۔ یہ ایک نفع بخش انڈسٹری بن گئی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ چند برسوں کے دوران یہاں نئے آئیڈیاز پر کام کرنے کا حوصلہ پیدا ہوا ہے۔ آئے روز کوئی مثبت تبدیلی ضرور دیکھنے میں آتی ہے، جس کی سبھی تعریف کرتے ہیں۔ ایک اور بات یہ دیکھی ہے کہ اب صلاحیت نے سفارش کا توڑ کر دیا ہے۔ اس کے علاوہ پسند اور ناپسند کی بنیاد پر ٹیلی ویژن پر کام لینا آسان نہیں رہا، بلکہ پروڈیوسر سمیت دیگر اس سے اجتناب برت رہے ہیں۔ اس کا انڈسٹری پر یقیناً اچھا اثر پڑے گا۔ میں سمجھتا ہوں کہ آنے والے وقت میں جیت صرف محنتی اور باصلاحیت آرٹسٹ کی ہو گی، اور یہ سلسلہ شروع ہو چکا ہے۔

٭ بالاجی پروڈکشن ہاؤس کے ساتھ ساتھ بے شمار فن کار آپ کے بینر تلے بننے والے ڈراموں میںکام حاصل کرنے کی خواہش کرتے ہیں۔ کیسا محسوس ہوتا ہے؟

یقیناً یہ ایک اچھی علامت ہے، میرے لیے یہ بات خوش گوار حیرت کا باعث ہے کہ نام ور آرٹسٹ میرے جڑنا چاہتے ہیں، مجھے اس کی خوشی ہے، میں سب کو خوش آمدید کہتا ہوں۔ خاص طور پر نئے اور باصلاحیت ایکٹرز میری توجہ کا باعث بنتے ہیں۔ ہمارا پروڈکشن ہاؤس محض ایک ادارہ نہیں بلکہ یہ تمام فن کاروں کا گویا گھر ہے، یہاں انڈسٹری کے مختلف شعبوں کے افراد آسکتے ہیں اور اپنی صلاحیتوں کے مطابق کام حاصل کر سکتے ہیں۔

٭ ایکتا کپور کے بارے میں کچھ کہیے۔

وہ 'زبردست' ہے۔ میں اس سے بے حد متاثر ہوں اور اس کی ذہانت اور صلاحیت کا قائل ہوں، بالاجی کے ماضی میں پیش کیے گئے ڈراموںکا اثر آج بھی قائم ہے۔ انھوں نے بے شمار فن کاروں کو متعارف کروایا اور آج انڈسٹری ان کی صلاحیتوں سے فائدہ اٹھا رہی ہے۔ میرے نزدیک ایکتا فن کاروں کے لیے ایک درس گاہ کا درجہ رکھتی ہے۔ اس کا کام انڈسٹری کا سرمایہ ہے۔ میں اس کی بے حد عزت اور قدر کرتا ہوں۔

٭ آج کل کن آئیڈیاز پر کام کر رہے ہیں؟

فی الحال میرے ذہن میں دو کہانیاں ہیں، لیکن انھیں ''اوکے'' نہیں کیا ہے۔ ان کا موضوع سنجیدہ ہو گا، میں اپنے رائٹرز کے ساتھ ان پر بات چیت کروں گا۔ اس کے علاوہ آج کل ایک مزاحیہ ڈراما بنانے کے لیے بھاگ دوڑ کر رہا ہوں، لیکن تاحال کچھ فائنل نہیں ہے ۔ مجھے مضبوط کیریکٹرز کی تلاش ہے اور جب یہ کام ہوجائے گا تو معاملات آگے بڑھاؤں گا۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں