ہلمندکا معرکہ‘ ایران‘ بلوچستان اور سی پیک

بلوچستان میں کس بھی قسم کی مزاحمتی مسلح جدوجہد کرنا آسان نہیں


Orya Maqbool Jan October 24, 2016
[email protected]

لشکرگاہ' افغانستان کے صوبہ ہلمند کا صدر مقام۔ دالبندین سے مغرب کی سمت افغان سرحد پر کھڑے ہوں تو آپ کو سنگلاخ پہاڑوں اور ریتیلے میدانوں کا ملاپ نظر آئے گا جن کے درمیان سے کئی راستے اس صدر مقام تک جاتے ہیں۔ یہ راستے کچے ہیں جنھیں علاقے کے لوگ مرمت بھی کرتے رہتے ہیں اور آمد و رفت کے لیے استعمال بھی کرتے ہیں۔

افغانستان میں طالبان حکومت کے قیام سے قبل یہ راستے دنیا بھر کو مارفین اور ہیروئن سپلائی کرنے کے لیے استعمال ہوتے تھے۔ افغانستان طالبان سے قبل دنیا بھر کی نوے فیصد پوست کا سپلائر تھا لیکن ملا محمد عمر کے ایک حکم نامے نے اس ساری پوست کی کاشت' اس سے ہیروئن یا مارفین بنانے کے سارے کاروبار کو یکسر ختم کر کے رکھ دیا۔ قندھار کے بعد ہلمند افغانستان طالبان کا اہم ترین مرکز رہا ہے اور گزشتہ دو ماہ سے امریکی اور افغان افواج کے خلاف سب سے زیادہ مزاحمت اسی صوبے میں جاری ہے۔ یہ صوبہ معدنیات کی دولت سے بھی مالا مال ہے۔

پاکستان میں جو ماربل اور گرینائٹ بلوچستان کے نام سے بیچا جا رہا ہے، اس میں اکثر افغانستان کے اسی صوبے ہلمند سے اسمگل ہو کر آتا ہے۔ چونکہ ماربل اور گرینائٹ پر کسی کارخانے کی مہر نہیں ہوتی' اس لیے ان کو پاکستانی ماربل کے ساتھ ملا کر اندرون ملک بھیجنا بہت آسان ہے۔ ہلمند سے متصل چاغی کا ضلع ہے جو افغان سرحد کے ساتھ ساتھ تقریباً چار سو میل تک پھیلا ہوا ہے۔ اس کا ایک سرا کوئٹہ اور دوسرا ایران کے صوبہ سیستان بلوچستان کے شہر زاہدان سے ملتا ہے۔ مغرب کی جانب ہلمند' جنوب میں ایران اور مشرق کی سمت خاران اور آواران کے اضلاع ہیں۔

یہ دونوں اضلاع گزشتہ کئی سالوں سے اس لیے اہمیت اختیار کیے ہوئے ہیں کہ یہاں بلوچستان کی علیحدگی پسند تنظیموں نے مسلح کارروائیوں کے لیے کیمپ بنائے ہوئے ہیں۔ یہاں کیمپ قائم کرنے کے خصوصی مقاصد ہیں۔ اس لیے کہ گوادر کے ساحلوں کو بقیہ پاکستان سے ملانے کے لیے نزدیک راستے یہیں سے ہو کر گزرتے ہیں۔ اس پورے جغرافیے کو ذہن میں محفوظ کرنے کے بعد آپ یہ بھی تصور کریں کہ یہ پورا علاقہ پہاڑوں اور ریگستانوں سے بھرا ہوا ہے۔ کہیں کہیں پانی میسر ہو تو وہاں سبزہ نظر آ جاتا ہے۔ اس پورے علاقے کے ساتھ ایران کی 909کلو میٹر طویل سرحد بھی ہے۔

ہلمند سے لے کر ایران کے سیستان بلوچستان اور پاکستان کے مکران اور اس کے ملحقہ اضلاع میں گزشتہ دس سالوں سے بھارت نے اپنے اثر و نفوذ کو بڑھانے کی مسلسل کوشش کی ہے۔ کلبوشن یادیو اسی علاقے سے گرفتار ہوا تھا۔ چاہ بہار کی بندرگاہ بھی اسی خطے میں ہے جس پر بھارت نے کئی ملین ڈالر لاگت سے ترقیاتی کام شروع کیے۔ چاہ بہار کو افغانستان سے ملانے والی سڑک جو زرنج سے دلآرام تک جاتی ہے اسے بھی بھارت نے تعمیر کیا ہے۔ بلوچ ہلمند کے صوبے میں بھی رہتے ہیں اور سیستان بلوچستان میں بھی۔ یہ سب کے سب اپنے اپنے قبیلے کے ناطے ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ہیں۔ ریکی ایران میں بھی ہیں اور پاکستان میں بھی۔ محمد حسنی افغانستان میں بھی ہیں اور پاکستان میں بھی۔

ان سب کے لیے سرحدوں کی کوئی ا ہمیت نہیں ہے۔ اہمیت ہو بھی کیسے سکتی ہے۔ کنواں ایک طرف ہے تو پانی پینے والے دوسری جانب' مریض ایک جانب تو اسپتال اور ڈاکٹر دوسری جانب۔ یہ خطہ جس پر پوری دنیا کی توجہ مرکوز ہے جس کے ساحل سے دنیا کے آیندہ اقتصادی بازاروں کا رخ متعین ہونا ہے اور جہاں سے اس پورے خطے کی آیندہ ا قتصادی اور فوجی بالادستی کے فیصلے ہونا ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ایک طویل عرصہ سے بھارت کی ساری منصوبہ بندی کا رخ یہی خطہ رہا ہے۔

افغانستان میں اس نے راستہ اس وقت بنایا جب اس نے طالبان حکومت کے خلاف شمالی اتحاد کو فوجی اور مالی مدد فراہم کرنا شروع کی۔ چونکہ ایران بھی طالبان مخالف شمالی اتحاد کی مدد کرتا تھا ۔ یوں اس خطے میں شمالی اتحاد' ایران اور بھارت کا مفاد یکساں ہوتا گیا' بھارت کے نزدیک ان دونوں ملکوں کی اہمیت صرف یہ تھی کہ وہ ان کے ذریعے پاکستان کے صوبہ بلوچستان میں بدامنی پھیلا کر خطے کو غیر مستحکم کرنا چاہتا تھا۔ اس کے ساتھ ساتھ اگر پاکستان کی مغربی سرحدیں بھی شعلہ اگلتی رہیں تو بھارت پاکستان کی سرحد پر وہ جیسا چاہے تماشا لگا سکتا ہے۔

بلوچستان کی صورت حال گزشتہ آٹھ سال سے کشیدہ رہی ہے۔ بلوچستان میں کس بھی قسم کی مزاحمتی مسلح جدوجہد کرنا آسان نہیں۔ شہروں میں مزاحمت آسان ہوتی ہے۔ وہاں چھپنے' آرام کرنے' ٹھکانے بنانے اور آبادیوں میں گم ہو جانے کے مواقع زیادہ ہوتے ہیں جب کہ بلوچستان میں شہری آبادی نہ ہونے کے برابر ہے' گاؤں میں چھپنا مشکل اور پہاڑوں پر کیمپ بنا کر رہنا اور مشکل۔ موجودہ سٹلائٹ دور میں تو کسی ایسے کیمپ کو ڈھونڈنا زیادہ مشکل بھی نہیں رہ گیا۔ ستر کی دھائی میں ہونے والی مسلح جدوجہد اسی لیے زیادہ دیر چلتی رہی کہ وہاں پہاڑوں میں کیمپ بنا کر رہنا آسان تھا کیونکہ چھپا جا سکتا تھا اور کمک بھی پہنچائی جا سکتی تھی۔

لیکن اب یہ اتنا آسان نہیں رہا۔ یہی وجہ ہے کہ بلوچستان میں بھارت کا یہ خواب اپنی تمام تر مالی اور تکنیکی امداد کے باوجود پورا نہ ہو سکا۔ ایسی جدوجہد کی ایک عمر ہوتی ہے ایک مدت گزرنے کے بعد ایک وقت آ جاتا ہے جب تھکاوٹ اور اکتاہٹ مزاحمتی تحریک کو ختم کر دیتی ہے ۔بلوچستان میں مزاحمتی تحریک پر اب وہی وقت ہے۔ دم توڑتی بلوچستانی مزاحمت کے بعد بھارت کو بہت زیادہ امید الطاف حسین پر تھی۔ بھارت کو غلط فہمی تھی کہ ان کی ایک للکار کراچی کو جلا کر بھسم کر دے گی۔ کلبھوشن یادیو کی گرفتاری کے بعد وہ گرجے لیکن یہ کیا ہوا۔ کراچی میں ایک کھوکھا بھی بند نہ ہو سکا۔ براہمداغ بگٹی سے کہا گیا تم بھارت کی شہریت کے لیے درخواست جمع کراؤ۔

ایسا صرف بوکھلاہٹ میں کیا گیا۔ بلوچستان میں اسقدر محنت و کوشش کے باوجود نتائج کیوں حاصل نہیں ہو رہے۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ بلوچستان میں کسی بھی قسم کی آزادی کی تحریک کا عالمی سطح پر سب سے بڑا مخالف ایران ہے۔ کیونکہ ایران بلوچ تحریک آبادی کو اپنے لیے خطرہ سمجھتا ہے۔ بھارت کی بدقسمتی کہ اس کے میڈیا کے ہاتھ ایک ہی خاتون نائلہ قادری آئی۔ خطے کے حالات بدلے تو ایران نے چاہ بہار کو سی پیک کا حصہ بنانے کے لیے کہا تو نائلہ قادری نے بیان دیا کہ بھارت چاہ بہار پر سرمایہ کاری بند کرے کیونکہ یہ بلوچ علاقہ ہے جس پر ایران نے غاصبانہ قبضہ کر رکھا ہے۔ دوسری جانب ایران نے بھارت پر واضح کیا ہے کہ براہمداغ بگٹی کو شہریت دینے اور بلوچ تحریک کی مزید مدد کرنے سے اس کے ساتھ تعلقات خراب ہو سکتے ہیں۔یہ ہیں وہ حالات اور تلخی جو بھارت اور ایران کے درمیان پیدا ہوئی ہے۔

اس بدلتی ہوئی صورت حال میں اس خطہ میں گزشتہ دو ماہ ے ایک اہم معرکہ چل رہا ہے۔ یوں تو پورے جنوبی افغانستان پر عملی طور پر طالبان کا کنٹرول ہے لیکن ہلمند کے صدر مقام لشکر گاہ میں جب اکتوبر کے دوسرے ہفتے میں افغان فوجیں ایک محفوظ راستے سے واپس جا رہی تھیں تو بری طرح حملے کی زد میں آئیں اور پہلے ہلے میں سو فوجی مارے گئے۔ طالبان نے افغانستان میں کئی محاذ کھول دیے ہیں ۔وہ بڑے بڑے شہروں کو علامتی طور پر اپنے کنٹرول میں لیتے ہیں اور افغان فوج کو سراسیمہ کرتے ہیں۔ تین اکتوبر کو انھوں نے پھر قندوز پر د س دن تک قبضہ کیے رکھا۔

نیویارک ٹائمز نے اپنی 12 اکتوبر کی اشاعت میں لکھا ہے کہ مارچ سے اگست تک 4500 افغان فوجی مارے گئے اور 8,000 سے زیادہ زخمی ہوئے۔ مرنے والوں میں سب سے زیادہ اگست میں مارے گئے جو 2800 تھے۔ چاغی کی اس شاہراہ پر جہاں ملا اختر منصور پر امریکی ڈرون حملہ ہوا تھا۔ وہاں سے چند کلو میٹر کے فاصلے پر افغان سرحد کے پار ہلمند معرکہ اسقدر گرم ہے کہ گزشتہ دس دن سے امریکا اور افغان حکومت طالبان سے قطر دفتر کے ذریعے مذاکرات کر کے امن اور جنگ بندی کی بھیک مانگ رہے ہیں۔

وہ پورا جنوبی افغانستان جہاں بھارت نے دس سال محنت کی' یہ سب بے معنی ہو گئے' لگتا ہے سب کسی فیصلہ کن معرکے کی جانب بڑھ رہے ہیں۔ یہ فیصلہ کن معرکہ ایسا ہو گا جس کے اثرات پاکستان میں سی پیک پر بھی پڑیں گے اور عالمی صورتحال پر بھی۔ پاکستان کی مغربی سرحد سے خوفزدہ امریکا اور بھاگتی افغان فوج بھارت کے لیے موت کا پیغام ہو گی۔

نوٹ:وہاڑی کے ایک مفلوک الحال خاندان کو اپنا قرض اتارنے کے لیے مدد یا قرض حسنہ کی ضرورت ہے۔ اس نمبر پر تحقیق کر کے کوئی صاحب ان کی مدد کر سکتے ہیں۔0333-6852911

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں