انسانوں کی طرح پسینہ خارج کرنے والا روبوٹ

یہ خود کار طریقے سے اپنی موٹروں کو ٹھنڈا رکھ سکتا ہے


ع۔ر October 20, 2016
انسان کے جسمانی نظام سے مشابہ یہ کولنگ سسٹم روایتی ایئرکولنگ سسٹم کے نسبت تین گنا زیادہ بہتر اور مؤثر ہے۔ فوٹو: فائل

ISLAMABAD: انسانوں اور مشینوں میں ایک قدر مشترک ہے؛ جب یہ کام کرتے ہیں تو ان کے اندر حرارت پیدا ہوتی ہے یعنی جسم کا درجۂ حرارت بڑھ جاتا ہے۔ اس حالت میں انسان کے جسم سے پسینہ خارج ہوتا ہے، اور اس کا جسم ٹھنڈا پڑنے لگتا ہے۔ یہ ایک قدرتی عمل ہے۔

مشینیں اگر مسلسل متحرک رہیں یعنی ان سے کام لیا جاتا رہے تو ان کے گرم ہوکر ناکارہ ہونے کا احتمال رہتا ہے۔ اس لیے انھیں ٹھنڈا رکھنے کا خصوصی انتظام کیا جاتا ہے، مگر اب جاپانی ماہرین نے ایک ایسی انسان نما خودکار مشین یعنی ہیومنائڈ روبوٹ بنالیا ہے جو انسانوں کی طرح جسم سے پسینہ خارج کرتا ہے۔ یعنی ٹوکیو یونیورسٹی کے انجنیئروں کے اس تیار کردہ روبوٹ میں ایک اور صلاحیت یہ ہے کہ یہ انسانوں ہی کی طرح پُش اپس لگاتا ہے۔ اس ورزش کے نتیجے میں چند منٹ کے بعد اس کے جسم سے باقاعدہ پسینہ خارج ہونے لگتا ہے۔ اس روبوٹ کو کین گورو کا نام دیا گیا ہے۔

دراصل کین گورو کے ' جسم ' پر مسام دار پرتوں کی تہ بچھائی گئی ہے۔ ان مسام دار تہوں سے پانی خارج ہوتا ہے اور کین گورو کے جسم کے اندر متحرک 180 برقیاتی موٹروں کو ٹھنڈا رکھتا ہے۔ اس سسٹم کی وجہ سے روبوٹ پُش اپس کرتے ہوئے ہر گیارہ منٹ کے بعد 'پسینہ' خارج کرتا ہے۔

مشینوں کو کارآمد رکھنے کے لیے انھیں حد سے زیادہ گرم ہونے سے بچانا ضروری ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ طویل وقت تک چلنے والی مشینوں کو ٹھنڈا رکھنے کے لیے مختلف تراکیب استعمال کی جاتی ہیں ۔

یونیورسٹی کے انجنیئرز کو بھی یہی مسئلہ درپیش تھا۔ وہ ایک ایسا ہیومنائڈ بنانے کے منصوبے پر کام کررہے تھے جو مسلسل کئی گھنٹوں تک فعال رہ سکے۔ روبوٹ کی نازک موٹروں کو بچانے کے لیے اس میں کولنگ سسٹم کی تنصیب ناگزیر تھی۔ تاہم پانچ فٹ سات انچ اونچے اور پچپن کلو وزنی انسان نما روبوٹ کے اندر چھوٹی چھوٹی مشنیں، تار، سرکٹ بورڈز، اور موٹریں اس انداز سے لگی ہوئی تھیں کہ کولنگ سسٹم کی تنصیب کے لیے جگہ باقی نہیں بچی تھی۔

کئی روز کی سوچ بچار کے بعد بالآخر ٹیم کے ایک رُکن نے خیال پیش کیا کہ کیوں نہ انسان نما روبوٹ کا کولنگ سسٹم بھی انسان کے کولنگ سسٹم کے طرز پر بنا دیا جائے۔ یہ ایک مشکل کام تھا۔ اس بارے میں انجنیئروں کی ٹیم کے سربراہ ٹویوٹاکا کوزوکی کہتے ہیں کہ عام طور پر روبوٹ کے فریم یا بیرونی ڈھانچے کا کام صرف مختلف طاقتوں کو سہارا دینا ہوتا ہے، مگر اس کے ساتھ ساتھ ہم اسے پانی کی منتقل اور اخراج حرارت کے لیے استعمال کرنا چاہ رہے تھے، جس میں بالآخر ہم کام یاب رہے۔

کین گورو کا بیرونی دھاتی ڈھانچا یا میٹل فریم المونیم کا بنا ہوا ہے۔ ڈھانچے کی ہر ' ہڈی' لیزر کا استعمال کرتے ہوئے پرنٹ کی گئی تھی۔ اس تیکنیک کے ذریعے دھاتی ڈھانچے میں نفوذ پذیری کی سطح کو کنٹرول کیا جاتا ہے۔ یعنی تیارکنندہ یہ فیصلہ کرسکتا ہے کہ دھاتی فریم کے کن حصوں کو بالکل ٹھوس اور کن کو اسفنج کے مانند نرم رکھنا ہے۔ کین گورو کی ' ہڈیاں' شہد کی مکھی کے چھتے جیسی مسام دار تہوں کی طرح ڈیزائن کی گئیں جن میں پانی جذب رہ سکتا ہے۔ یہ پانی اس وقت ازخود خارج ہونے لگتا ہے جب روبوٹ سخت ' مشقت' کی وجہ سے گرم ہونے لگے۔

' ہڈیوں' کی اندرونی مسام دار پرتوں میں موجود پمپ کے ذریعے خارج ہونے کے بعد پانی دھاتی ڈھانچے کے سطحی اور زیادہ مسام دار حصے میں پہنچ جاتا ہے۔ یہاں پہنچنے کے بعد پانی بجائے 'جسم ' سے خارج ہوکر فرش پر گرنے کے، بخارات بن کر ہوا میں تحلیل ہوجاتا ہے۔ ایک کپ پانی 'پینے' کے بعد کین گورو بنا رکے آدھے دن تک فعال رہ سکتا ہے۔

ٹویوٹا کا کوزوکی کے مطابق انسان کے جسمانی نظام سے مشابہ یہ کولنگ سسٹم روایتی ایئرکولنگ سسٹم کے نسبت تین گنا زیادہ بہتر اور مؤثر ہے، لیکن اسے روایتی ریڈی ایٹرز یا پنکھوں کا متبادل قرار نہیں دیا جاسکتا، جو عام مشینوں کو ٹھنڈا رکھنے میں استعمال ہوتے ہیں۔

 

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں