بستی بستی پھرا مسافر

مجھے ذاتی طور پر مصنف کا اپنے دیاروں کا ذکر بہت ہی بھلا لگا ہے اور اس کی وجہ بھی ہے،


Saeed Parvez August 29, 2016

UNITED STATES: رانا عبدالمجید خاں سفرنامہ نگار ہیں، ان کے دو سفرنامے ''اڑتے پتوں کے پیچھے'' اور دوسرا سفرنامہ ''پھر اڑتے پتوں کے پیچھے'' کے عنوانات سے آچکے ہیں اور وہ دونوں سفرنامے مصنف نے بڑے ہی دلچسپ پیرائے میں تحریر کیے تھے۔ اب رانا مجید صاحب کا تیسرا سفرنامہ ''بستی بستی پھرا مسافر'' میرے سامنے پڑا ہے۔ یہ سفرنامہ بھی رانا صاحب نے اپنے خاص رنگ ڈھنگ سے بڑی سلاست و روانی کے ساتھ لکھا ہے۔

''بستی بستی پھرا مسافر'' ہمیں انگلینڈ، اسکاٹ لینڈ اور کینیڈا کی سیر کرانا ہے مگر رانا مجید دیار غیر میں گھومتے پھرتے وہاں کے نظاروں سے لطف اندوز ہوتے ہوئے بھی اپنے وطن کے سروسمن نہیں بھولے۔ انھیں اپنا گاؤں، اپنا بچپنا، گاؤں کی دھول مٹی، میلے ٹھیلے ولایت کی سڑکوں سے گزرتے ہوئے یاد آجاتے ہیں۔

مجھے ذاتی طور پر مصنف کا اپنے دیاروں کا ذکر بہت ہی بھلا لگا ہے اور اس کی وجہ بھی ہے، وہ بھی میری ذاتی وجہ ہے۔ دیکھیں میں پاکستان میں رہتا ہوں، دوسرے ممالک میں جانا، انھیں دیکھنا میرے لیے محض خواب و خیال ہے، یہ بات اپنی جگہ کہ رانا مجید کے تیسرے سفرنامے نے مجھے مفت میں انگلینڈ، اسکاٹ لینڈ اور کینیڈا کی سیر کروادی، مگر یقین جانیے کہ جب وہ اپنے اوکاڑہ کے نزدیک واقع گاؤں کا ذکر چھیڑتے ہیں، تو میرا جی چاہتا ہے کہ اڑ کے اوکاڑہ پہنچ جاؤں، شاید کیا بلکہ یقیناً یہ اس لیے ہے کہ اوکاڑہ جانا میرے بس میں ہے۔

انگلینڈ، کینیڈا، ''میرا گزر وہاں کہاں''۔ رانا مجید صاحب نے اپنا گاؤں اور بچپنا جیسے بیان کیا ہے۔ اس کا تھوڑا سا ذکر یہاں نقل کرتا ہوں ''جب شعور نے آنکھ کھولی اور اپنے اردگرد کے ماحول کو دیکھنے اور سمجھنے کے قابل ہوا، تو خود کو پنجاب کے ایک روایتی گاؤں میں پایا۔ جہاں ہر طرف سادگی اور انکساری نے ڈیرے ڈالے ہوئے تھے۔ گاؤں کی کچی اور بے چراغ گلیوں میں روشن اور توانا لوگ رہتے تھے۔ گھروں میں روشنی کے لیے مٹی کے تیل اور مساجد میں سرسوں کے تیل والے دیے جلتے تھے۔ گرمیوں کی چاندنی راتیں بڑی بارونق ہوتی تھیں اور انھیں بھرپور منایا جاتا تھا۔

بچے، جوان، ادھیڑ عمر رات گئے تک چھپن چھپائی، کبڈی، پٹو گرم کھیلتے، گرمیوں کی حبس زدہ راتیں، لوگ مکانوں کی چھتوں پر گزارتے۔ ہر ایک کے ہاتھ پکھی (ہاتھ سے جھلنے والا پنکھا) ہوتی، جسے گھماتے گھماتے نیند آجاتی۔ سونے سے پہلے دو آوازیں ضرور آتی تھیں، ایک گاؤں کے چوکیدار کی ''جاگتے رہنا بھائیو'' اور دوسری رہٹ کی آواز جسے آنکھیں بندھے دو بیل مسلسل دائرے میں چلتے ہوئے چلاتے اور کنوئیں سے پانی کی بھری ''ٹینڈیں'' نکل کر ایک ''کھرلی'' میں پانی گراتی رہتیں اور یہ پانی کھیتوں کی پیلیوں کو سیراب کرتا۔ گاؤں کی ٹکی ہوئی رات میں رہٹ کی آواز بڑی ہی سریلی معلوم دیتی تھی۔ رانا مجید صاحب نے اپنے گاؤں کے ساتھ بہنے والے دریا کا ذکر کیا ہے جو کبھی بہا کرتا تھا۔ اب وہاں دریا کی نشانیاں رہ گئی ہیں، ڈھیروں ریت اور سرکنڈوں کے گھنے جنگل وہ دیکھتے ہیں کہ مقامی زبان میں اسے سوہاگ کہا جاتا ہے۔

یہ سوہاگ گاؤں سے کافی نیچے تھا، لہٰذا بارشوں کا سارا پانی یہاں جمع ہوجاتا۔ سوہاگ میں نمی بدستور قائم رہتی اور ماہر کاشت کار سوہاگ میں ''ہدوانے'' (رانا صاحب نے یہی لکھا ہے اور اس کا جو مزا میں نے لیا ہے بیان سے باہر ہے، اندر ایک لہر سی اٹھی، ایک مہک پھیلی اور تراوٹ ملی، یہ جو لفظ ہدوانا لکھا گیا ہے اس کا مطلب ہے تربوز) ہاں تو میں رانا مجید کا بیان دہرا رہا تھا ماہر کاشت کار سوہاگ کی نمی میں ہدوانے (تربوز) اور خربوزے کاشت کرتے تھے۔

گاؤں کے پیپل اور برگد کے دو بہت بڑے اور بزرگ درختوں کا ذکر بھی بہت اچھا منظر کھینچتا ہے ان گھنے درختوں کے پھیلاؤ والی چھتریوں تلے گاؤں کے تھکے ہارے دوپہر گزارتے تھے۔ پیڑوں میں پرندے اور ٹھنڈی چھاؤں میں بندے آگ برساتے سورج کی ساری تپش یہ گھنے درخت سہ جاتے، اور بندوں کو ٹھنڈی چھاؤں دیتے۔ گاؤں میں ہر سال بڑے پیر صاحب کا میلہ ہوتا تھا۔ رانا مجید کو ان کے تایا جی آٹھ آنے دیتے، آٹھ ہی آنے ان کو ابا جی دیتے۔ یہ کثیر رقم میلہ دیکھنے کے لیے بہت کافی ہوتی تھی۔ نور محمد عرف نورا کی قلفیاں کھائی جاتیں، برف کے رنگ برنگے میٹھے ملائی والے گنڈے گولے کھائے جاتے۔

''بستی بستی پھرا مسافر'' کا راوی انگلینڈ کے ہائی وے پر محو سفر ہے۔ کار نے تیزی سے ایک موڑ کاٹا، مسافر کو ایک جھٹکا لگا۔ برا ہو اس جھٹکے کا کہ جس نے ایک حسیں گاؤں سے نکال کر مسافر کو دیار غیر میں لا پھینکا، ورنہ گاؤں کے قصے کہانیاں، عشق محبت کے فسانے اور بہت کچھ بھی سننے کو مل جاتا۔ خیر سبزے سے بھرے نشیب و فراز سڑکوں پر ایک گھنٹہ سفر کے بعد مصنف ملٹن کینز نامی شہر میں اپنے داماد ناصر احمد خاں کے گھر پہنچ جاتے ہیں۔ مصنف لکھتے ہیں کہ ملٹن کینز سڑک اور ریل کے ذریعے لندن سے جڑا ہوا ہے۔ اس کی آبادی تین لاکھ ہے۔

''بستی بستی پھرا مسافر'' کے سفرنامہ نگار عبدالمجید خاں کا یہ بھی کمال ہے کہ وہ جہاں جہاں بھی جاتے ہیں اس جگہ کی تاریخ ضرور بیان کرتے ہیں۔ یہ تاریخ بیان کرنے والی خوبی ان کے گزشتہ دو سفر ناموں میں بھی موجود ہے۔ اس بیانیے سے سفر نامہ معلوماتی ہونے کے ساتھ مزید دلچسپ بھی ہوجاتا ہے۔ مثلاً انگریزوں کے بارے میں لکھتے ہیں ''انگریز دراصل ایک نسلی گروہ ہے، جو قرون وسطیٰ تک انجلیکن کہلاتے تھے۔ یہاں کے قدیم باشندے اصل میں وحشی تھے جو پتھر سے مچھلی کا شکار کرتے، یہی ان کا گزر اوقات تھا۔

ان کے بعد آئیرین قوم یہاں آباد ہوئی، ان کے پاس زیادہ بہتر پتھر کے اوزار تھے، اور یہ کاشتکاری بھی کرتے تھے۔ پھر گال اور کیلٹس قبائل یہاں آباد ہوئے۔ اسی نسل کا ایک اور قبیلہ جو بریٹون کہلاتا تھا جنوبی علاقے (انگلستان) میں آکر آباد ہوا۔ بریٹون قبیلہ آگے چل کر برٹش بن گیا۔ یہ انگلش زبان بولتے تھے، جو پھلتی پھولتی گئی۔

رانا عبدالمجید خاں کی بیان کردہ تاریخ میں جولیس سیزر (50 قبل مسیح) کا ذکر بھی ہے، روم، جرمن، ڈنمارک، ناروے، سویڈن اور نہ جانے کس کس کا تذکرہ ہے۔ بہرحال یہ سفر نامہ بھی یقین مانیں بڑی پڑھنے کی چیز ہے۔ موقع لگے تو پڑھ لینے میں کوئی ہرج نہیں ہے۔ باتیں تو بہت ہیں مگر مجبوری ہے سب بیان نہیں ہوسکتیں، پھر بھی ایک بات لکھے دیتا ہوں۔ ''ریلوے پلیٹ فارم کے اندر داخلہ بڑا دلچسپ ہے۔ یہاں پر ATM کی طرح دروازے لگے ہیں، آپ ٹکٹ مخصوص جگہ میں ڈالیں، تو دروازہ کھل جاتا ہے اور ٹکٹ بھی خودبخود باہر نکل آتا ہے۔ اس طرح کوئی بھی بغیر ٹکٹ پلیٹ فارم کے اندر داخل نہیں ہوسکتا۔'' وہ لکھتے ہیں ''کاش یہ طریقہ ہمارے ملک میں بھی رائج ہوجائے۔''

اے لو! اچھے بھلے انگلستان میں گھومتے پھرتے مصنف کو اپنے وطن کا شہر کالاباغ یاد آگیا ہے۔ میں بھی کالا باغ کی سحر انگیزیوں میں مکمل کھو گیا ہوں۔ دریائے سندھ کالا باغ اور ماڑی کے گھروں اور دیواروں سے ٹکراتا ہوا گزرتا ہے۔ یہ منظرنامہ سننے کے بعد کس کا دل نہیں چاہے گا کہ کالا باغ اور ماڑی کی سیر کو جائے۔

جہاں کے لیے نہ ویزہ لینے کا جھنجھٹ ہے اور نہ اتنے زیادہ پیسے کی ضرورت۔ وہ پنجابی زبان کا ایک مشہور محاورہ ہے ''جس پنڈ نہ جانا، اوہدا راہ کی پچھنا'' یعنی جس گاؤں نہیں جانا، اس کا راستہ کیا پوچھنا۔ مگر یہ بھی سچ ہے کہ میری اکلوتی بیٹی ہم ماں باپ کو کینیڈا بلا رہی ہے۔ جانا تو پڑے گا، نیاگرا فال کا ہی زیادہ خیال آتا ہے۔ مگر آخر یہی ہے کہ اپنا ملک اپنا ہے اور سورہ رحمن کی منہ بولتی تصویر ہے۔ اللہ ہمارے ملک پاکستان کو سدا آباد رکھے اور حقیقی جمہوریت بحال کرے، جہاں سب کو مساوی حقوق حاصل ہوں۔ رانا عبدالمجید خاں آپ خوش رہیں کہ آج آپ نے زندگی کے چند لمحات اچھے گزروا دیے۔ میں آپ کے گاؤں جاؤں گا، میں کالا باغ ماڑی بھی جاؤں گا۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں