جن کو عوام اپنا حاکم بناتے ہیں آخری حصہ
حکومت نے سال 2013ء کو ملکی بینکوں سے 18 کھرب 84 ارب روپے لیے۔
KARACHI:
حکومت نے سال 2013ء کو ملکی بینکوں سے 18 کھرب 84 ارب روپے لیے۔ 2013ء میں عوام پر ٹوٹل ملکی بینکوں کا قرضہ 95 کھرب 22 ارب روپے چڑھا دیا گیا۔ (IV) اسی کتاب کے صفحے 146 پر حکومت کے پاس 2013ء میں فارن ایکسچینج ریزرو 11 ارب 2 کروڑ ڈالر تھے جن کی پاکستانی روپے میں مالیت 11 کھرب 33 ارب 50 کروڑ 72 لاکھ 82 ہزار روپے بنتی ہے۔
ان چار مدوں میں (1) ورکرز زرمبادلہ (2) غیر ملکی نقد قرض وصولی (3) ملکی بینکوں سے قرض وصولی (4) ڈالر فارن ایکسچینج ریزرو کا ٹوٹل 47 کھرب 44 ارب 27 کروڑ 60 لاکھ 24 ہزار بنتا ہے اور ڈالرز میں 46 ارب 12 کروڑ 40 لاکھ 28 ہزار ڈالر بنتے ہیں، اگر حکمران عوام اور ملک سے مخلص ہوتے تو اتنی بڑی رقم سے ملکی آبادی 19 کروڑ 54 لاکھ افراد کے معیار زندگی کو کئی گنا بڑھا سکتے تھے، ہر شہر میں کارخانوں کا جال پھیلا سکتے تھے، ہوم انڈسٹری کو فروغ دے سکتے تھے، عوام کے لیے کئی سو اسپتال، کئی تعلیمی ادارے اور ویران بنجر زمینوں کو قابل کاشت بنا کر زراعت بڑھا سکتے تھے۔ لیکن یہ کیوں کریں گے؟
یہ عوام کو ''جمہوری قیدی'' بنا کر عوام کے خون پسینے کی کمائی کو لوٹ کر اپنے آقاؤں کے ملکوں میں جنت خرید سکتے تھے۔ اسی کتاب کے صفحے پر 144 پر سال 2014ء کو پاکستان میں سامراجی Foreign Investment (FD)، 2847.4 ملین ڈالر کی ہوئی تھی۔ اس پر نفع 1148.8 ملین ڈالر باہر منتقل ہوا تھا۔ حکمران ہر وقت غیر ملکی سرمایہ کاری کے لیے ملکی سہولتیں دینے کے لیے بے چین رہتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ ان کی ''شیطانی جنت کاغذی ڈالر کی بھوک'' شیطانی آنت کی طرح ہے۔
انھیں ملکی معاشی غلامی کی ذلت کا احساس نہیں ہے۔ بے ضمیری کے وزن میں ان کی غیرت دفن ہو چکی ہے۔ یہ عوام کے دکھوں سے لاپروا اور بے حس ہو چکے ہیں۔ انھوں نے سامراجی آقاؤں کی پیروی میں جمہوریت کا تخت ''جمہوری قیدی'' عوام کے کندھوں پر لاد کر اس پر سوار ہو کر خطرناک وحشیانہ طرز پر عوام کو غربت کی چابکیں مار مار کر ہانک رہے ہیں۔ انھیں دیکھ دیکھ کر عہد روما بھی آج شرم سے پسینے پسینے ہو رہا ہے۔ کاش ہم سب ''غلام عوام'' خواب غفلت سے بیدار ہو جائیں۔
مالی سال 1948-49ء کو ملکی امپورٹ 1459.1 ملین روپے تھی۔ مالی سال 2013-14ء کو امپورٹ 4630521.0 ملین روپے ہو گئی تھی۔ امپورٹ میں اضافہ 317255 فیصد بڑھ گیا اور مالی سال 1948.49ء میں ایکسپورٹ 1870.4 ملین روپے تھی۔ 2013-14ء میں ایکسپورٹ 2583463.0 ملین روپے تھی۔ ایکسپورٹ میں اضافہ 138024 فیصد ہوا ۔ کم ایکسپورٹ سے زیادہ امپورٹ کا فرق 179231 فیصد زیادہ ہو گیا تھا۔ کیا تمام سابقہ اور موجودہ حکومتیں یہ نہیں جانتیں کہ جس ملک کی ایکسپورٹ بڑھتی ہے وہ ملک ترقی کرتا ہے اور جس ملک کی امپورٹ بڑھتی ہے وہ ملک غربت زدہ ہوتا چلا جاتا ہے۔ متذکرہ کتاب کے صفحے 148 کے مطابق ملکی اور غیر ملکی قرضوں کے اعداد و شمار کے مطابق 2008ء سے 2012-13ء تک پیپلز پارٹی کی حکومت تھی۔ 2007ء میں عوام پر ملکی اور غیر ملکی قرضہ مجموعی 48 کھرب 2 ارب روپے تھا اور 2012-13ء میں مجموعی قرضہ 126 کھرب 95 ارب روپے کر دیا گیا تھا۔ پیپلز پارٹی نے اس مدت کے دوران 78 کھرب 93 ارب روپے قرض حاصل کیا۔
اس قرضے کا کیا کیا گیا ؟ پھر (ن) لیگ نے جون 2013ء کو اقتدار حاصل کیا۔ (ن) لیگ کے دور میں سال مارچ 2016ء تک مجموعی قرضہ 191 کھرب 68 ارب روپے ہو چکا تھا۔ (ن) لیگ نے 2 سال نو ماہ کے دوران 64 کھرب 73 ارب روپے ملکی بینکوں سامراجی اداروں سے قرض لیا۔ ملکی مجموعی معیشت کو جسے ان بے ضمیر حکمرانوں نے خسارے میں سامراجیوں کے ساتھ مل کر ڈال دیا ہے نہ پیپلز پارٹی اور نہ ہی مسلم لیگ (ن) اور اسی طرح دیگر پارٹیاں عوام سے مخلص نہیں ہیں۔ کھربوں روپے کہاں گئے؟ اتنی بھاری رقوم لیڈر کھا جاتے ہیں ۔
ادائیگی عوام پر ڈال دیتے ہیں عوام اتنے سادہ اور دانشور اتنے بے بس اور لاعلم ہیں کہ حزب اختلاف لیڈران اور بااقتدار لیڈران پانامہ لیکس پر ٹی او آرز کا آنکھ مچولی کھیل رہے ہیں ۔ تمام لیڈران عوام کے غم میں دن بہ دن سرمائے سے موٹے ہوتے جا رہے ہیں۔ عوام جن کو معلوم ہی نہیں کہ ان کو جو لوٹ رہے ہیں کیسے شریف بن کر بنگلوں، لمبی لمبی گاڑیوں میں گھوم رہے ہیں؟ ہر طرف پروٹوکول اور ان کی حفاظت کرنے والے ہی غربت زدہ عوام ہیں۔ آج عوام اور ملک دو دشمنوں کی زد میں ہیں۔ ایک طرف دونوں ملکی وسائل کو ہر طریقے سے لوٹ رہے ہیں دوسری طرف عوام کو دہشت گردی سے ڈس رہے ہیں۔ آخرکار عوام کو ہی دونوں دشمنوں سے لڑ کر اور فوج کے ساتھ مل کر خود کو اور ملک کو بچانا ہے۔
مورخہ 22 جون 2016ء کو کراچی ایکسپریس میں خبر شایع ہوئی کہ حکومت نے 11 ماہ میں 4 ارب 90 کروڑ ڈالر کی خوراکی اشیا خریدیں۔ پھر دوسری خبر بزنس کے صفحے پر 11 جولائی 2016ء کو شایع ہوئی پاکستان کو غذائی اشیا کی تجارت میں ایک ارب 16 کروڑ ڈالر کا خسارہ ہوا۔ یاد رہے کہ ہمارا خطہ کسی دور میں غذائی خوراک (اجناس) کے حوالے سے سونے کی چڑیا کہلاتا تھا۔ پنجاب پورے خطے کو خوراک مہیا کرتا تھا۔ غذائی اشیا کی تجارت میں بڑھتا خسارہ اس بات کا ثبوت ہے کہ حکمرانوں نے سامراجی پلاننگ کے تحت صنعتی کلچر کو Currency Devaluation Minus Economic Development کے ذریعے تباہ کیا۔ یعنی ملکی لاگتیں بڑھتی گئیں اور بیرونی درآمدات جگہ بناتی گئیں۔ اس طرح جو ڈالر 1947-48ء میں 3 روپے تھا آج وہی کاغذی ڈالر 105.10 روپے کا کر دیا گیا ہے۔ روپے کی قیمت میں کمی 3068 فیصد کر دی گئی ہے۔
اسی نسبت سے ملکی صنعتی کلچر کی لاگتیں بڑھنے سے صنعتی کلچر ختم ہو گیا ہے۔ اسی نسبت سے بیرونی منڈی کے لیے پاکستان سستا کر دیا گیا ہے۔ CDMED سے پٹرولیم مہنگا کر دیا گیا۔ جس سے کئی ادارے بند یا خسارے میں چلے گئے۔ 4 جولائی 2016ء کو خبر شایع ہوئی کہ بجلی کے بحران کی وجہ سے غیر ملکی پاور جنریٹرز کی درآمدات 173 ارب روپے تک جا پہنچی پورے ملک میں سامراج کی پیداکردہ معاشی ابتری، انتظامی ابتری اور دہشت گردی بڑھ رہی ہے۔ ملکی مالیاتی سسٹم میں گھپلے کر کے لانچیں بھر بھر کر کرنسی باہر بھجوائی گئی۔ پانامہ پیپرز کے انکشافات کے بعد پورے ملک کی اشرافیہ آنکھ مچولی کا کھیل کھیل رہی ہے۔
سابق سیکریٹری خزانہ مشتاق رئیسانی کے پاس نوٹوں کے بھرے سوٹ کیس پکڑے گئے۔ حقیقت یہ ہے کہ اشرافیہ نے اپنے طور اندازہ کرلیا کہ اس نے ملک کو مکمل تباہ کر دیا ہے۔ اشرافیہ نے بیرونی سامراجی ملکوں میں پناہ گاہیں بنا لی ہیں، ڈوبتی کشتی سے چھلانگیں مار کر باہر نکلنے کے لیے ہی تو اربوں کھربوں ڈالروں کے گھپلے کیے گئے ہیں۔