بنگلہ دیش میں جماعت اسلامی رہنمائوں کو سزائیں

پاکستان اور بنگلہ دیش کے درمیان کسی قسم کا معاشی، سیاسی، عسکری مفادات کا ٹکراؤ بھی نہیں ہے


Adnan Ashraf Advocate January 12, 2016
[email protected]

دو قومی نظریہ کے تحت معرض وجود میں آنے والا مشرقی پاکستان، سازشوں، سیاسی ریشہ دوانیوں، لسانیت اور عصبیت کی بھینٹ چڑھ کر1971 میں بنگلہ دیش بن گیا، جو ایک عظیم قومی و تاریخی سانحہ ہے۔ بنگلہ دیش ایک خون آشام تحریک کے ذریعے وجود میں آیا جس میں لاکھوں جانیں ضایع ہوئیں اس لحاظ سے دونوں ملکوں کے مابین تلخ یادیں موجود ہونا فطری ہیں۔

جن میں عوامی سطح پر تو کافی کمی واقع ہوئی ہے دونوں ملکوں کے عوام ایک دوسرے کے لیے خلوص و محبت اور خیر سگالی کے جذبات رکھتے ہیں جس کا مظاہرہ وقتاً فوقتاً دیکھنے میں آتا رہتا ہے۔ بنگلہ دیش کو ٹیسٹ کیپ دلانے میں پاکستانیوں کا تعاون اور نیک خواہشات کو نظرانداز نہیں کیا جاسکتا ہے۔

بنگلہ دیش میں اپنے کھلاڑیوں کے بعد سب سے زیادہ پاکستانی کھلاڑیوں کی ٹی شرٹس فروخت ہوتی ہیں، دونوں ممالک کے شہری اپنی ٹیم کے بعد ایک دوسرے کی ٹیم کو فتح یاب دیکھنے کے خواہش مند نظر آتے ہیں، ان کے اسٹیڈیم میں پاکستانی پرچموں کی بہار نظر آتی ہے، چاہے حسینہ واجد پاکستان کی ممکنہ فتح دیکھ کر اسٹیڈیم سے اٹھ کر چلی جائیں یا پاکستانی پرچموں اور ٹی شرٹس وغیرہ پر پابندی عائد کردیں۔ پاکستان حال ہی میں پی پی ایل کھیل کر آیا ہے اس سے بنگلہ دیشی کھلاڑیوں میں بھی پی پی ایل میں شرکت کی امنگ اور حوصلہ بڑھا ہے۔

پاکستان اور بنگلہ دیش کے درمیان کسی قسم کا معاشی، سیاسی، عسکری مفادات کا ٹکراؤ بھی نہیں ہے بلکہ بہت سے مفادات مشترک ہیں۔ لاکھوں بنگالی آج بھی پاکستان کو بنگلہ دیش پر ترجیح دیتے ہیں، یہاں رہنا اور کاروبار کرنا پسند کرتے ہیں، یہاں کی شہریت کے لیے بے تاب نظر آتے ہیں۔ بنگلہ دیش کی اکثر سیاسی جماعتیں اور سیاسی و فوجی حکومتیں بھی اگر پاکستان سے والہانہ محبت نہیں تو مخاصمت بھی نہیں رکھتی تھیں۔ لیکن بانی مشرق پاکستان کی جماعت عوامی مسلم لیگ اور اس کی سربراہ حسینہ واجد جب بھی برسر اقتدار آئیں انھوں نے پاکستان سے نفرت اور دشمنی کے اظہار کا کوئی موقع ہاتھ سے نہ جانے دیا۔

وہ لاکھوں بنگالیوں کے قتل کا الزام پاکستان پر لگاتی ہیں حتیٰ کہ اپنے والد اور خاندان کے قتل کا ذمے دار بھی پاکستان کو ٹھہراتی ہیں۔ حسینہ واجد ہندوستان کو اپنا نجات دہندہ مربی و دوست اور اس کے برعکس سوچ رکھنے والوں کو اپنا دشمن گردانتی ہیں۔ ہندوستانی مفادات و سوچ کو مقدم رکھتی ہیں ان کی یہی سوچ اور عمل پاکستان اور بنگلہ دیش کے تعلقات میں کشیدگی کا باعث بنتا جا رہا ہے۔ آج کل تو سفارتی سطح پر یہ کشیدگی انتہا کو پہنچ چکی ہے۔

دسمبر میں بنگلہ دیش نے پاکستانی سفارتکار فارینہ ارشد کو ناپسندیدہ شخصیت قرار دے کر ملک بدر کیا۔ پھر چند روز قبل بنگلہ دیش کی طرف سے ایک اور پاکستانی سفارتکار فریحہ پر بنگلہ دیش کی جانب سے بنا کسی ثبوت مقامی عسکریت پسند گروپ کے رہنما کو مالی امداد دینے میں ملوث ہونے کا الزام لگایا گیا جس پر پاکستان نے اس خاتون سفارتکار کو واپس بلالیا۔ دوسری جانب پاکستان نے بھی بنگلہ دیشی سفارتکار موشی رحمان کو ناپسندیدہ شخصیت قرار دیتے ہوئے 48 گھنٹے میں پاکستان چھوڑنے کا حکم دے دیا ہے۔

بھارت کے زیر اثر شیخ حسینہ واجد ذاتی انتقام اور عناد اور سیاسی عزائم کی وجہ سے پاکستان اور اس سے وابستہ ہر چیز و نسبت سے نفرت و بیزاری کا اظہار کرتی اور اسے ختم کرنا چاہتی ہیں، ان کے انتقامی ردعمل میں نسلی عصبیت سے زیادہ ان کا ذاتی عناد و انتقام کا جذبہ اور ہندوستانی پالیسی کی کرشمہ سازی نظر آتی ہے ان کا پورا خاندان ایک فوجی بغاوت کے نتیجے میں قتل کردیا گیا تھا، قتل کرنے والے فوجی وہ تھے جنھوں نے شیخ مجیب کے ساتھ مل کر پاکستان توڑا تھا جنھیں وہ پھانسی پر بھی چڑھا چکی ہیں، مگر پھر بھی پاکستان کو باپ کے قتل کا ذمے دار ٹھہراتی ہیں۔

اسی جذبہ انتقام کے تحت وہ ان بنگالیوں کی جان کی بھی دشمن بنی ہوئی ہیں، جنھوں نے 1971 میں پاکستان توڑنے کی مخالفت کی تھی ان کے خلاف جنگی جرائم کی نام نہاد عدالتیں بنا کر ان کے خون سے ہولی کھیلی جا رہی ہے، اس کھلے عدالتی قتل میں تمام تر اخلاق، اصول، قوانین اور معاہدات کی دھجیاں اڑائی جا رہی ہیں۔ جن پر انسانی حقوق کی بین الاقوامی تنظیمیں بھی تحفظات اور اعتراضات کا اظہار کر رہی ہیں۔

لیکن بلا شرکت غیر اور اسمبلیوں میں کلی اختیار اور سیاہ و سفید کی مالک عوامی لیگ کا موقف ہے کہ ملک کے ماضی کو دفن کرنے کے لیے جنگی جرائم کی تفتیش ضروری ہے اس مفروضے کے تحت بنگلہ دیش میں مسلم لیگ اور خصوصی طور پر جماعت اسلامی کے رہنماؤں اور کارکنوں کو پاکستان سے محبت کی سزا دی جا رہی ہے۔ بنگلہ دیش میں ایک طرف غیر بنگالی محصورین اور ان کی نسلیں پاکستان سے محبت کی لامتناہی سزا بھگت رہی ہیں، دوسری جانب لیگی حکومت پاکستان توڑنے کی مخالفت اور اس سے یکجہتی و محبت کا اظہار کرنے والے اپنے ہی بنگالی شہریوں پر ظلم و جبر کے پہاڑ توڑ رہی ہے۔

بھارتی شہ اور حسینہ واجد کے ذاتی و سیاسی عزائم کے تحت ہونے والے ان انسانیت سوز غیر قانونی اقدامات پر حکومت پاکستان، اسلامی ملکوں اور انسانی حقوق کی عالمی تنظیموں کی عدم حکمت عملی اور احتجاج بڑا مایوس کن ہے، ان کی جانب سے کسی عملی اقدام کے بجائے صرف یہ کہہ دینا کہ عدالت کا طریقہ کار بین الاقوامی معیار کے مطابق نہیں ہے یا پاکستان کے وزیر داخلہ کی جانب سے محض ذاتی حیثیت میں پھانسیوں کی مذمت کردینا یا ہر چھوٹی بڑی بات پر تحاریک پیش کرنے اور آسمان سر پر اٹھانے والی پارلیمنٹ کی لب مہری مایوس کن ہی نہیں مجرمانہ قسم کی ہے جبکہ مشرقی پاکستان کی علیحدگی کے بعد پاکستان، بنگلہ دیش اور ہندوستان کے درمیان طے پانے والا معاہدہ بھی موجود ہے.

جس میں یہ طے ہوا تھا کہ 1971 کی جنگ میں پیش آنے والے واقعات کے حوالے سے پاکستان اور بنگلہ دیش میں کسی بھی شہری کے خلاف کارروائی نہیں کی جائے گی لیکن 45 سال گزر جانے کے بعد ذاتی انتقام اور سیاسی عزائم کے تحت ان ضعیف العمر شہریوں جن کی دو نسلیں جوان ہوچکی ہیں جو بنگلہ دیش کے آئین و قانون کی پاسداری کر رہے ہیں کئی بار انتخابات میں منتخب ہوئے ہیں جن کی عمریں 80 اور 90 سال سے تجاوز کر چکی ہیں، سزائیں دے کر معاہدے کی صریح خلاف ورزی کی جا رہی ہے جس کے خلاف ملک کے گلی کوچوں میں احتجاج اور ہڑتالیں ہورہی ہیں۔

اس معاہدے پر دستخط کرنے والے اور ضامن پاکستان، بنگلہ دیش اور بھارت پر اس معاہدے پر عمل درآمد کرنے اور کرانے کی براہ راست ذمے داری عائد ہوتی ہے۔ یہ معاملہ پاکستانی پارلیمنٹ اور بین الاقوامی فورم پر لے جانا اور سفارتی کوششیں کرنا حکومت پاکستان اور ارکان اسمبلی کا قومی و منصبی فرض بنتا ہے۔

بنگلہ دیش کے قیام میں پاکستانی سیاستدانوں اور حکمرانوں کی روش عاقبت نااندیش پالیسیوں کے علاوہ کلیدی کردار بھارتی حکومت اور اس کی خفیہ ایجنسی را کا ہے۔ مودی نے بنگلہ دیش کے دورے میں خود بڑے فخریہ انداز میں پاکستان توڑنے میں اپنے کردار کا اعتراف کیا ہے۔ سقوط ڈھاکہ پر اندرا گاندھی نے کہا تھا کہ آج دو قومی نظریہ دریا جمنا میں ڈبو دیا ہے۔ موہن سنگھ نے بنگلہ دیش سے اچھے تعلقات کا دعویٰ کرنے کے ساتھ ساتھ اس بات پر اپنے تحفظات کا اظہار کیا تھا کہ بنگلہ دیش کی غالب اکثریت نظریاتی طور پر جماعت اسلامی سے وابستہ ہے جو بھارت مخالف ہے، اس لیے یہاں کا سیاسی منظرنامہ کسی وقت بھی تبدیل ہوسکتا ہے.

اس تناظر میں جماعت اسلامی کے رہنماؤں اور کارکنوں کو سزا دینے میں حسینہ واجد کے ذاتی مفادات اور عزائم سے زیادہ بھارتی عزائم اور مفادات کارفرما نظر آتے ہیں، بھارت اپنے ہمسایہ ممالک میں نوآبادیاتی تسلط اور معاشی سیاسی اور عسکری بالادستی مسلط کرنا چاہتا ہے۔ سری لنکا کے خلاف تامل گوریلوں کی پشت پناہی بھی بھارت نے کی تھی اور اس دہشتگردی کی بنا پر بھارتی فوج کی تعیناتی بھی اس کی خطے میں عسکری بالادستی اور چھوٹے ممالک کو زیر نگوں رکھنے کی پالیسی کا حصہ ہے، اسی پالیسی کے تحت مشرقی پاکستان میں مکتی باہنی کے ذریعے دہشت گردی کا جال بچھایا گیا، نسلی و لسانی تعصبات کو ہوا دی گئی.

پاکستان کی کمزوریوں اور سیاستدانوں و حکمرانوں کی عاقبت نااندیشی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے فوجی مداخلت کے ذریعے بنگلہ دیش بنوادیا، اب اس کی معیشت و معاشرت پر بالادستی حاصل کرنے کی کوششیں کی جا رہی ہیں۔ پاکستان اور بنگلہ دیش کو ان بھارتی سازشوں کو مدنظر رکھتے ہوئے ماضی کی تلخیوں اور نفرتوں کو بڑھانے کے بجائے ختم کرنے پر توجہ دینی چاہیے۔

بنگلہ دیش پاکستان سے تعلقات استوار کرکے اپنے دفاع کو مضبوط بناسکتا ہے اور دونوں ممالک باہمی تعاون و اشتراک سے اپنی معیشت کو بھی بہتر بناسکتے ہیں۔ بھارت کے برعکس پاکستان اور بنگلہ دیش کے درمیان کس قسم کے معاشی، سیاسی یا عسکری مفادات کا ٹکراؤ نہیں ہے، دونوں ملک ایک دوسرے پر اعتماد کرسکتے ہیں، یہی دونوں ملکوں اور ان کے عوام کے مفاد میں ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں