مسلم دنیا میں سیاسی عدم استحکام

ایک مغربی مفکر کا قول ہے کہ کوئی شخص تمہاری پیٹھ پر سواری نہیں کر سکتا


جبار قریشی January 21, 2015
[email protected]

ایک مغربی مفکر کا قول ہے کہ کوئی شخص تمہاری پیٹھ پر سواری نہیں کر سکتا جب تک کہ وہ جھکی ہوئی نہ ہو۔ ہمارے اہل قلم اور اہل دانش ایک تسلسل کے ساتھ یہ لکھتے آ رہے ہیں کہ دنیا بھر میں مسلمانوں کے ساتھ کئی صدیوں سے ظلم و ستم کا سلوک روا رکھا جا رہا ہے اور عالمی دنیا اس پر خاموش ہے۔

مغربی مفکر کے قول کی روشنی میں ہمیں یہ دیکھنا چاہیے کہ مسلمانوں کی وہ کون سی کمزوری ہے جس کی وجہ سے مسلمان ظلم و ستم کا شکار ہیں۔ اس کے بعد اس سوال کا جواب بھی ضرور تلاش کرنا چاہیے کہ کئی صدیوں کے گزر جانے کے بعد بھی مسلمان اپنی حالت کیوں نہ بدل سکے۔ ان سوالات کے جوابات کے ضمن میں دو مختلف نقطہ نظر ہیں۔ ایک سیکولر قوتوں کا نقطہ نظر ہے اور دوسرا نقطہ نظر مذہبی و دینی قوتوں کا ہے۔

سیکولر قوتوں کے نزدیک مسلمان دنیا کے بدلتے ہوئے حالات اور حقائق سے بے خبر ہیں جس کی وجہ سے وہ موجودہ دور کے تقاضوں اور وقت کے فرق کو سمجھنے سے قاصر ہیں۔ مثلاً موجودہ دور میں علم ہی عروج کا ذریعہ ہے لیکن مسلمان ایک ناقابل فہم نادانی کی خطرناک حد تک سائنس کے اس علمی دور میں طاقت کے حصول اور اقتدار پر قبضے کو ہی کامیابی کا ذریعہ سمجھتے ہیں۔ اس طرز فکر نے مسلمانوں کے اندر بے معنی لڑائی کے مزاج کو فروغ دیا ہے۔ یہی مزاج دنیا بھر میں رہنے والے مسلمانوں کے مسائل کی بنیاد ہے۔ مسلمانوں میں طویل ترین آمریت اور ملوکیت کے باعث یہ مزاج فروغ پایا ہے۔

سیکولر قوتوں کے نزدیک ذہن جب کسی نئے چیلنج سے دوچار ہوتا ہے تو اسے وقت میں وہ خود اپنی فطرت کے زور پر نئے مسائل کا حل تلاش کرنے لگتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ناموافق صورتحال کا پیش آنا ہمیشہ قوموں کے عروج کا ایک زینہ ثابت ہوا ہے۔ موجودہ دور میں فرانس، جرمنی اور جاپان وغیرہ اس کی مثالیں ہیں۔ یہ قومیں دوسری عالمی جنگوں میں برباد ہو چکی تھیں مگر جنگ کے فوراً بعد ان کے اندر تلافی کا عمل جاری ہو گیا آج یہ قومیں پہلے سے زیادہ طاقتور اور ترقی یافتہ ہیں۔

مسلمانوں نے اس کے برعکس طرز عمل کا مظاہرہ کیا انھوں نے چیلنج اور مقابلے کے رجحان کے بجائے شکایت اور احتجاج اور ردعمل کی نفسیات کو اپنایا۔ ایسا ذہن قوموں کو ایسے راستے کی طرف لے جاتا ہے جہاں وہ اپنی بچی ہوئی قوت بھی بے فائدہ ہنگاموں میں ضایع کر دیتے ہیں۔ احتجاجی سیاست کے اس طرز عمل نے مسلم خطے کو سیاسی عدم استحکام سے دوچار کر دیا ہے۔ اس کی بڑی وجہ موجودہ مسلم رہنماؤں کا کردار ہے جنھوں نے قوم کو حقیقت پسندانہ فکر کو پروان چڑھانے کے بجائے خیالی تصورات کو پروان چڑھایا ہے۔

خاموش تدبیر کی جگہ خطابت، عملی منصوبہ بندی کے بجائے لفظی ہنگامہ آرائی، پرامن جدوجہد کے اصول کے بجائے عسکری سرگرمیوں کا فروغ، سائنسی فکر کو اپنانے کے بجائے روایتی فکر اپنانے، حقائق کی جگہ خوش خیالی کی بنیادوں پر وجود رکھنے والی سیاسی، دینی اور مذہبی جماعتوں کا وجود ایسی حقیقت ہے کہ اسے جھٹلایا نہیں جا سکتا۔

سیکولر قوتوں کے نزدیک یہ سیاسی جماعتیں بالخصوص دینی سیاسی جماعتیں سیاسی استحکام کے لیے کوئی واضح سیاسی نظام پیش کرنے میں ناکام رہی ہیں ایسا سیاسی نظام جس میں کسی مخصوص طبقے کی اجارہ داری نہ ہو، تمام طبقات کو یکساں حقوق حاصل ہوں۔ جس میں ہر طبقہ ریاست سے اپنی جذباتی وابستگی کا اظہار کر سکے، یہی وجہ ہے کہ مسلم خطے میں کئی صدیاں گزر گئیں مگر سیاسی استحکام میسر نہ آیا۔ موجودہ صورت حال سے نکلنے کی ایک ہی صورت ہے کہ مسلم خطے میں جمہوری روایات کو فروغ دیا جائے۔

مذہبی اور دینی قوتوں کے نزدیک سیکولر قوتوں کے یہ تمام دلائل جزوی طور پر درست ہو سکتے ہیں لیکن کلی طور پر درست نہیں ہیں۔ مذہبی اور دینی طبقے کے نزدیک مسلم خطے میں سیاسی عدم استحکام کی بڑی وجہ عالمی طاقتوں کا وہ کردار ہے جو وہ اپنے ذاتی مفادات کی تکمیل کے لیے مسلم دنیا میں انجام دے رہے ہیں۔ اس معاملے پر سیکولر طبقے کی خاموشی عالمی طاقتوں کے پس پردہ مقاصد پر پردہ ڈالنے کی کوشش ہے۔

مذہبی سیاسی جماعتیں مسلم خطے میں عالمی طاقتوں کے اس کردار کو ناکام بنانے میں مصروف عمل ہیں۔ اس سیاسی جدوجہد کو احتجاجی سیاست کا نام دینا درست نہیں۔ اگر کسی شخص کے گھر میں آگ لگ جائے تو ایسا شخص سب سے پہلے گھر میں لگی آگ کو بجھانے کی کوشش کرے گا۔ ایسا نہیں ہو سکتا کہ وہ پہلے گھر میں لگنے والی آگ کے لگنے کے اسباب تلاش کرتا پھرے۔ ایسے شخص کو اس بات کا درس دینا ایک غیر دانشمندانہ طرز عمل ہو گا۔ مغرب کا سیاسی نظام مغربی ذہن کی پیداوار ہے مغربی ذہن ایک مادہ پرست معاشرہ ہے اس کا نصب العین ہمارے معاشرے سے مختلف ہے ہم روح کو نظرانداز کر کے مادیت پر اپنی فکر کو استوار نہیں کر سکتے۔

کون سی چیزیں ہمارے معاشرے کے لیے مفید ہیں اور کون سی نقصان دہ ہم یہ دیکھے بغیر چاہے وہ مغرب کا سیاسی نظام ہی کیوں نہ ہو قبول نہیں کرسکتے۔ ہم مسلمان ایسی جمہوریت کو ہی قبول کر سکتے ہیں جو خدائی حکم کے تابع ہو۔ مسلمان دین کے بغیر کسی فلسفہ زندگی کو تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔

سیکولر قوتوں کا نقطہ نظر درست ہے یا دینی سیاسی قوتوں کا اس کا فیصلہ پڑھنے والے خود کر سکتے ہیں۔ میری ذاتی رائے میں موجودہ مسلمانوں کا اصل مسئلہ اقتدار کا کھونا نہیں ہے بلکہ انسانی اوصاف کا کھونا ہے۔ سب سے پہلے ضروری ہے کہ انسان کے اندر وہ اوصاف پیدا کیے جائیں جو اعلیٰ انسانیت کی تشکیل کرتے ہیں۔ اس ضمن میں ذاتی معاملہ میں آدمی یہ دیکھے کہ کیا درست ہے جو طریقہ درست ہے اسے اختیار کر لے ہمیں بحیثیت مسلمان چونکہ انفرادی حیثیت میں ہی اللہ تعالیٰ کو جواب دینا ہے اس لیے ذاتی معاملات میں حتی الامکان وہی رویہ اختیار کرنا چاہیے جو مذہب اور اخلاق کو مطلوب ہے۔ جہاں تک اجتماعی معاملات کا تعلق ہے وہ حالات کے تابع ہوتے ہیں۔

کیونکہ ذاتی معاملے میں سارا مسئلہ آپ کی ذات سے تعلق رکھتا ہے اور آپ کو اپنی ذات پر پورا اختیار حاصل ہوتا ہے۔ مگر اجتماعی معاملات میں آپ کی ذات کے ساتھ ساتھ دوسرے فریق بھی شامل ہو جاتے ہیں ان خارجی فریق پر آپ کو اختیار حاصل نہیں ہوتا۔ اس لیے دنیا میں اجتماعی معاملات کو حالات کے تناظر میں طے کیا جاتا ہے۔ اس لیے اجتماعی معاملات میں درست رویہ یہ ہے کہ اس میں صرف یہ دیکھا جائے کہ کیا چیز اجتماعی مفاد میں بہتر ہے اور جس کا حصول حالات کے تناظر میں ممکن بھی ہو اور اسے اختیار کر لیا جائے یہی وہ طرز عمل ہے جس سے مسلم خطے میں سیاسی استحکام حاصل ہو سکتا ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں