سالگرہ یا برسی جو گزر گئی

اقوام متحدہ نے اپنے قیام کے بعد جو سب سے بڑی خیانت کی وہ ارض مقدس فلسطین کو ایک نہ حل ہونے والا مسئلہ بنانا ہے۔


Irfan Ali October 29, 2014

اقوام متحدہ یا یونائیٹڈ نیشنز نامی عالمی تنظیم کا قیام 24 اکتوبر 1945ء کو اس وقت عمل میں آیا، جب اس کے 5 مستقل اراکین یعنی امریکا، برطانیہ، سوویت یونین (روس)، فرانس اور چین نے اس کے چارٹر پر دستخط کیے۔ 1947ء میں اس کی جنرل اسمبلی نے فیصلہ کیا کہ ہر سال 24 اکتوبر کو یو این ڈے (یوم اقوام متحدہ) کے طور پر منایا جائے گا۔ تب سے ہر سال یہ دن منایا جا رہا ہے۔ جس طرح پہلی جنگ عظیم کے بعد لیگ آف نیشنز قائم کی گئی، اسی طرح دوسری جنگ عظیم کے بعد اقوام متحدہ تشکیل دی گئی۔ اقوام متحدہ نے اپنے قیام کے بعد جو سب سے بڑی خیانت کی وہ ارض مقدس فلسطین کو ایک نہ حل ہونے والا مسئلہ بنانا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ کشمیر کے عوام کو حق خود ارادیت سے تا حال محروم رکھنا بھی اقوام متحدہ کا ایک اور سنگین جرم ہے۔ اور یہ دونوں ہی عالم اسلام کے دو اہم ترین مسائل ہیں۔

فلسطین پر ناجائز قبضہ کر کے تسلط جمانے والے دنیا بھر سے جمع ہونے والے صہیونی دہشت گردوں نے 14 مئی 1948ء کو نسل پرستی کی بنیاد پر نہ کہ مذہبی بنیادوں پر یہودی ریاست اسرائیل کے قیام کا اعلان کیا تو اس اعلامیہ میں ایک حوالہ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کی اس قرارداد کو بھی قیام اسرائیل کے لیے دلیل کے طور پر استعمال کیا کہ جو قرارداد 29 نومبر 1947ء کو منظور کی گئی تھی۔ اس دن کی قرارداد نمبر 181 تھی جس میں تقسیم فلسطین کے منصوبے پر عمل کرنے کا کہا گیا تھا۔ کیا اقوام متحدہ کے 5 بڑوں سمیت دیگر رکن ممالک یہ بتانا پسند کریں گے کہ اس قراردار کو دلیل بنا کر نسل پرستانہ بنیادوں پر یہودی ریاست کے قیام کا اعلان کیا جا سکتا تھا؟ کیا اسی قراردار کے تحت تقسیم فلسطین کا منصوبہ پایہ تکمیل کو پہنچانے میں وہ کامیاب رہے ہیں؟ امر واقعہ یہ ہے کہ اس قرارداد پر تو آج تک عمل ہی نہیں ہو سکا ہے، ثبوت کے لیے مجوزہ تقسیم کے منصوبے کے مطابق فلسطین کا نقشہ دیکھ لیں۔

پھر جب اسرائیل کو اقوام متحدہ کی رکنیت دی گئی تب بھی اقوام متحدہ نے اپنے ہی چارٹر میں درج رکنیت کی بیان کردہ 5 شرائط پر عمل نہیں کیا، بلکہ آج تک اسرائیل کے معاملے میں اس پر عمل نہیں کیا گیا۔ اقوام متحدہ میں رکنیت کی 5 شرائط میں سے پہلی شرط یہ تھی کہ وہ اسٹیٹ یعنی ''ریاست'' ہو، دوسری شرط تھی کہ امن دوست ہو، تیسری شرط یہ کہ اقوام متحدہ کے چارٹر میں بیان کیے گئے فرائض کو قبول کرے، چوتھی شرط یہ کہ مذکورہ فرائض پر عمل کرنے کی قابلیت رکھتی ہو اور پانچویں شرط یہ تھی کہ ان فرائض پر عمل کرنے کے لیے رضامند اور تیار ہو۔ بنیادی طور پر فلسطین جہاں صہیونی دہشت گردوں نے نسل پرستانہ بنیادوں پر دنیا بھر سے یہودیوں کو جمع کر کے، فلسطینیوں کو دہشت گردی کے ذریعے مار کر اور نقل مکانی پر مجبور کر کے یکطرفہ طور پر نسل پرست ریاست کا اعلان کیا جب کہ فلسطین میں ایسی کوئی ریاست وجود رکھتی ہی نہیں تھی۔

کیا دنیا بھر سے کسی بھی ملک میں کسی نسل کے افراد جمع ہو کر وہاں دہشت گردی، دھونس و دھاندلی سے دہشت گردی کے ذریعے مقامی افراد کو نقل مکانی پر مجبور کر کے اس ملک میں اپنی ریاست قائم کرنے کا اعلان کر سکتے ہیں؟ ایسا اقوام متحدہ کی تاریخ میں دنیا میں کسی جگہ نہیں ہوا، یہ صرف اسرائیل ہی ہے جو اس طریقے سے نہ صرف ریاست بن گیا بلکہ اس جعلی ریاست کو اقوام متحدہ نے تسلیم بھی کر لیا۔ پھر یہ بھی دیکھیں کہ صرف ریاست کا ہونا ہی کافی نہیں تھا بلکہ اس کا امن دوست ہونا بھی ایک لازمی شرط تھی۔ کیا ہگانہ، ارگن، زیوی اور اسٹرن گینگ یا گروپ جیسے صہیونی دہشت گرد گروہوں کے ان دہشت گرد قائدین کو جنھوں نے اسرائیل کے قیام کا اعلان کیا، انھیں امن دوست تسلیم کیا جا سکتا تھا؟

تیسری، چوتھی اور پانچویں شرط ایک جیسی ہیں اور لازم و ملزوم نظر آتی ہیں، یعنی اقوام متحدہ کے چارٹر کو تسلیم کرنا، اس پر عمل کرنا، اور ایسا کرنے کے قابل ہونا وغیرہ۔ کیا اسرائیل نے کبھی بھی اقوام متحدہ کے چارٹر پر عمل کیا ہے؟ اقوام متحدہ کے سرکردہ ممالک اس ادارے کی اپنی مرتب کردہ تاریخ اور دستاویزات کا مطالعہ کر لیں، کب اسرائیل نے فلسطینی حقوق کی خلاف ورزی نہیں کی؟ اقوام متحدہ کے اپنے حکام اسرائیل کی جارحیت سے بچ نہیں سکے۔ کیا کنگ ڈیوڈ ہوٹل کو بم دھماکے سے اڑانے والے دہشت گردوں میں سے ایک موشے شیرٹ نہیں تھا، جو گرفتار بھی ہوا تھا۔ لیکن اسی بدنام زمانہ دہشت گرد نے اقوام متحدہ کو اسرائیل کی رکنیت پر آمادہ کرنے کے لیے تقریر بھی کی تھی۔

اسحاق شامیر، صہیونی دہشت گرد گروہ لیہی کا لیڈر تھا اور اس کے فیصلے پر اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی جانب سے ''عرب، اسرائیل تنازعہ'' (یعنی عرب صہیونی تنازعہ) میں ثالث مقرر کیے جانے والے سوئس سفارتکار فوک برناڈوٹ کو یروشلم میں ستمبر 1948ء قتل کیا گیا تھا۔ حالانکہ یہ سفارتکار بے چارہ جرمنی کی قید سے 31 ہزار یہودی قیدیوں کی آزادی کے لیے بھی مذاکرات کار تھا، یعنی نسل پرست یہودیوں نے اس کا یہ احسان بھی فراموش کر دیا تھا۔ ان دہشت گردوں کو اقوام متحدہ نے امن دوست اور اپنے چارٹر پر عمل کرنے والا سمجھ لیا تھا۔ یوکرین کا موشے شاریٹ، بیلاروس کا اسحاق شامیر اور ان جیسے دنیا بھر سے جمع کیے گئے صہیونی دہشت گردوں نے فلسطین میں اسرائیل کے قیام کا اعلان کیا۔ حتیٰ کہ ان کو فلسطین کے یہودیوں میں سے ایسا کوئی نہیں ملا جسے نمائشی طور پر ہی بابائے قوم بنا لیتے، انھوں نے بابائے قوم بھی پولینڈ سے درآمد شدہ ڈیوڈ بن گوریان کو بنایا۔ اقوام متحدہ کی اس بدترین ناانصافی نے فلسطین کو غلام سے بدتر حیثیت گزارنے پر مجبور کیا۔

اس کے ساتھ ساتھ کشمیر کے مسئلے کو طول دینا بھی اقوام متحدہ کی نااہلی و ناکامی ہی ہے۔ اقوام متحدہ کو فلسطین و کشمیر کے مستقبل کا تعین کرنے کے لیے اس کے حقیقی باشندوں کو ریفرنڈم میں ووٹ ڈالنے کا حق دینا چاہیے تھا۔ آج تک یہ رائے شماری ممکن ہی نہیں ہو سکی کیونکہ اقوام متحدہ اسلام و مسلمین کے دشمنوں کے ہاتھوں یرغمال ادارہ ہے۔

پھر یہ دیکھیں کہ مشرقی تیمور اور جنوبی سوڈان میں غیر مسلموں کی علیحدگی پسند تحریکوں کو تسلیم کر کے انھیں مسلمان ممالک میں غیر مسلم ممالک قائم کرنے کی اجازت دی گئی۔ اقوام متحدہ نے انھیں تسلیم بھی کر لیا۔ اسی لیے ان حقائق کی روشنی میں ہر سال 24 اکتوبر 2014ء کو فلسطین و کشمیر کے دوستوں کو اس ادارے کی 69 ویں سالگرہ کے بجائے برسی منانا چاہیے تھی۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں