سوئٹزرلینڈ ’’خود کشی کرنے والے سیاحوں‘‘ کا پسندیدہ ملک

2008 سے 2012 کے درمیان611 غیرملکی اپنی زندگیوں کا خاتمہ کرنے کے لیے سوئٹزرلینڈ آئے


ع۔ر August 26, 2014
لوگ خود کشی کرنے کے لیے سوئٹزرلینڈ کا رُخ کرتے ہیں مگر یہ خودکشی ڈاکٹروں کی معاونت سے ہوتی ہے فوٹو : فائل

وسطی یورپ میں واقع سوئزرلینڈ کئی خصوصیات میں دیگر ممالک سے برتر ہے۔ یہ دنیا کا امیرترین ملک ہے۔ فی کس آمدنی کے ساتھ ساتھ یہاں کے باشندوں کا معیار زندگی بھی سب سے بلند ہے۔ علاوہ ازیں سوئزرلینڈ کو دنیا کا سب سے مہنگا ملک ہونے کا اعزاز بھی حاصل ہے۔

سوئزرلینڈ کی ایک اور وجۂ شہرت ملک کے طول وعرض میں بکھرے ہوئے حسین قدرتی مناظر ہیں جن کی وجہ سے یہ قطعۂ ارضی سیاحوں کی دل چسپی کا خصوصی مرکز ہے۔ دنیا بھر سے سیاحوں کی بڑی تعداد سوئزرلینڈ کے حسین نظاروں سے لطف اندوز ہونے کے لیے آتی ہے۔

سوئزرلینڈ سیاحوں کی ایک اور قسم کا بھی پسندیدہ ملک ہے۔ یہ قسم ' خود کش سیاح ' کہلاتی ہے۔ جی ہاں خود کش سیاح! مگر آپ یہ مت سمجھیے گا کہ خود کش سیاحوں سے مراد خود کش حملہ آور جیسی کوئی شے ہے۔ درحقیقت یہ وہ لوگ ہیں جو خود کشی کرنے کے لیے سوئزرلینڈ کا رُخ کرتے ہیں، مگر یہ خودکشی ڈاکٹروں کی معاونت سے ہوتی ہے!

محققین کے مطابق سوئزرلینڈ کا رُخ کرنے والے غیرملکی ' خود کش سیاحوں' کی تعداد میں اضافہ ہورہا ہے۔ سوئس محققین کی تحقیقی رپورٹ گذشتہ بدھ کو جاری کی گئی ہے جس میں بتایا گیا ہے کہ 2008 سے 2012ء کے درمیان611 غیرملکی اپنی زندگیوں کا خاتمہ ' کروانے' کے لیے سوئزرلینڈ آئے۔ ان لوگوں کا تعلق 31 ممالک سے تھا۔

ان میں 268 جرمن، 126 برطانوی، 66 فرانسیسی، 44 اطالوی، 21 امریکی، 14آسٹریائی، 12 کینیڈین اور 8 اسرائیلی اور 8 ہسپانوی باشندوں کے علاوہ کئی ممالک کا ایک ایک شہری شامل تھا۔ سوئزرلینڈ میں چار تنظیمیں کام کررہی ہیں جو مرجانے کی خواہش رکھنے والے غیرملکیوں کی اس خواہش کی تکمیل میں معاونت کرتی ہیں۔ یہ تنظیمیں ' رائٹ ٹو ڈائی آرگنائزیشنز ' کہلاتی ہیں۔ بیشتر ممالک میں ڈاکٹروں کی معاونت سے زندگی کا خاتمہ کرنے پر پابندی عائد ہے، مگر سوئزرلینڈ میں اس بارے میں قانون واضح نہیں ہے۔

تمام ' خود کش سیاح ' دراصل لاعلاج امراض میں مبتلا افراد ہوتے ہیں جو ہر طرف سے مایوس ہوجانے کے بعد ناقابل برداشت اذیت سے نجات پانے کے لیے بالآخر زندگی سے ہی چھٹکارا حاصل کرنے پر مجبور ہوجاتے ہیں۔ مگر ان میں اپنے ہاتھوں اپنی جان لینے کا حوصلہ نہیں ہوتا۔ اسی لیے وہ ایک بڑی رقم خرچ کرکے بے اذیت موت مرنے کی خواہش لیے سوئزرلینڈ پہنچتے ہیں۔ ان میں نوجوانوں سے لے کر پیرانہ سالی کے زمانے سے گزرنے والوں تک، ہر عمر کے لوگ شامل ہوتے ہیں۔

تحقیقی رپورٹ کے مطابق 611 افراد میں سے 58.5 فی صد خواتین تھیں۔ جب کہ ان لوگوں کی عمریں 23 سے 97سال کے درمیان تھیں۔ ان مریضوں کی نصف کے لگ بھگ تعداد لاعلاج اعصابی بیماریوں جیسے رعشہ میں مبتلا تھی جب کہ 37 فی صد کو سرطان کا مرض لاحق تھا۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں