کراچی:
اعلی ثانوی تعلیمی بورڈ کراچی کے تحت انٹرمیڈیٹ سال دوم 2024ء کے پری انجینئرنگ اور پری میڈیکل کے جاری کردہ امتحانی نتائج نے گزشتہ برس اور اس سال نتائج کی تیاری کے عمل پر سوالیہ نشان پیدا کردیے، نتائج میں حیرت انگیز طور پر 12 تا 16 فیصد اضافہ ہوگیا، گزشتہ سال ان طلبہ کے نتائج 34اور36 فیصد تھے اب 47 اور 52 فیصد ہیں۔
ایکسپریس نیوز کے مطابق جو نتائج اس بار آئے ہیں ان ہی طلبہ کا پری انجینئرنگ اور پری میڈیکل فیکلٹی کا سال اول کے امتحانات منعقدہ 2023ء کا نتیجہ بالترتیب 34.7 فیصد اور 36.8 فیصد تھا یعنی فرسٹ ایئر پری انجینئرنگ میں تقریبا 66 فیصد اور فرسٹ ایئر پری میڈیکل میں تقریبا 64 فیصد طلبہ فیل تھے تاہم اب پری انجینئرنگ گروپ سال دوم کا انہی طلبہ کا نتیجہ ایک غیر معمولی اور غیر رسمی اضافے کے ساتھ 46.99 فیصد یعنی تقریبا 47 فیصد ہے اور پری میڈیکل کے ان ہی طلبہ کا سال دوم امتحانات 2024ء کا نتیجہ 52.57 فیصد ہے۔
یعنی دونوں مذکورہ فیکلٹیز کے وہ طلبہ جو گزشتہ برس سال اول 2023ء کے امتحانی نتائج میں ایک نہیں کئی کئی پرچوں میں فیل تھے اب مجموعی طور پر ان میں پری انجینئرنگ کا نتیجہ 12 فیصد اور پری میڈیکل میں 16 فیصد تک بڑھ گیا ہے۔
پری انجینئرنگ میں سال اول میں جو کل 8 ہزار 328 طلبہ ہی تمام چھ پرچے پاس کرسکے تھے اس برس سال دوم میں 11 ہزار 122 امیدوار کامیاب ہوگئے اور اسی طرح پری میڈیکل میں جو گزشتہ برس 11 ہزار 254 امیدوار چھ پرچے پاس کرسکے تھے اب اس برس سیکنڈ ایئر میں 14 ہزار 948 طلبہ نے امتحان پاس کرلیا ہے جس سے کئی طرح کے سوالات جنم لے رہے ہیں اور عمومی طور پر سوال کیا جارہا ہے کہ کہا ان طلبہ نے اپنے سال اول کے گزشتہ فیل کئی کئی پرچے بھی پاس کیے ہیں اور اس سال کے بھی تمام پرچے پاس کرلیے اور ایک عمومی تاثر ہے کہ بورڈ نے گزشتہ برس کی تنقید کا مزید سامنا کرنے سے بچنے کے لیے نتائج کی تیاری میں نرمی سے کام کیا ہے۔
ایک سینیئر کالج پروفیسر کا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر اس معاملے پر تبصرہ کرتے ہوئے کہنا تھا کہ اساتذہ بھی وہی ہیں جو گزشتہ برس تھے اور طلبہ بھی وہی تھے جبکہ امتحانی طریقہ کار میں بھی کوئی تبدیلی نہیں تھی پھر ایسا کیا ہوا کہ یہ نتائج اس قدر اوپر چلے گئے؟ سینیئر پروفیسر کا کہنا تھا کہ میں بورڈ پر نتائج کی تیاری میں کسی غیر شفافیت کا الزام نہیں لگا رہا لیکن گزشتہ برس انٹرمیڈیٹ بورڈ کراچی کے حکام دونوں فیکلٹیز کے سال اول کے نتائج کو بھی درست قرار دے رہے تھے جو غیر معمولی طور پر کم تھے اور اگر اس بار انٹر بورڈ سے پوچھا جائے تو وہ یقینی طور پر ان نتائج پر بھی کوئی نہ کوئی جواز پیش کردے گا جس میں ایک غیر روایتی اضافہ ہوا ہے۔
یاد رہے کہ گزشتہ سال 2023ء کے انٹر سال اول کے یہ نتائج 9 جنوری 2024ء کو جاری ہوئے تھے اس وقت سندھ میں نگراں وزیر اعلی جسٹس (ر) مقبول باقر نے اس وقت کے کمشنر کو انٹر بورڈ کراچی کا چارج دے دیا تھا جب نتائج سامنے آئے تو یہ طلبہ کو بھی سڑکوں پر لے آئے کبھی کراچی پریس کلب پر مظاہرہ کیا جاتا تو کبھی انٹر بورڈ کراچی میں طلبہ احتجاج کرتے اور نتائج پر دوبارہ غور کا مطالبہ کیا جاتا۔
احتجاج نے طول پکڑا تو اس وقت کے نگراں وزیر اعلی نے این ای ڈی کے وائس چانسلر کی سربراہی میں ایک سہ رکنی فیکٹ فائنڈنگ کمیٹی قائم کردی جس میں آئی بی اے کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر ڈاکٹر اکبر زیدی اور سیکریٹری سندھ ایچ ای سی معین الدین صدیقی کو بھی شامل کیا گیا۔
اس کمیٹی نے کئی روز کی تحقیقات کے بعد نگراں وزیر اعلی سندھ کو اپنی رپورٹ پیش کی جس کے بعد نگراں وزیر اعلی سندھ جسٹس(ر) مقبول باقر نے انٹر بورڈ کراچی کے تحت انٹر سال اول کے سالانہ امتحانات 2023ء کے متاثرہ طلبہ کو اضافی نمبر یا گریس مارکس دینے کی منظوری دی اور کمیٹی کی سفارش پر انٹر سال اول کے طلبہ کو ریاضی کے پرچے میں 15/15 مارکس ، فزکس/شماریات میں 12/12 مارکس اور کیمسٹری میں 12/12 مارکس اسی طرح بوٹنی اور زولوجی میں 6/6 مارکس دے دیے گئے تاہم پھر بھی طلبہ کی ایک بڑی تعداد بعض پرچوں میں اس لیے فیل رہی کہ ان کے نمبر گریس مارکس کے باوجود پاسنگ مارکس کو نہ چھو پائے۔
واضح رہے کہ اس وقت بورڈ میں ناظم امتحانات کا چارج زاہد رشید جبکہ فی الوقت زرینہ رشید کے پاس یے۔
"ایکسپریس " نے اس سلسلے میں جب موجودہ قائم مقام ناظم امتحانات زرینہ رشید سے رابطہ کیا تو ان کا کہنا تھا کہ "گزشتہ برس بھی بورڈ کی کسی نے نہیں سنی اس وقت بھی کوئی نہیں سن رہا، سیکنڈ ایئر کی کتابیں پہلے ہی تبدیل ہوچکی تھیں جبکہ گزشتہ برس کے نصاب میں نئی نئی تبدیلی ہوئی تھی امتحانی پرچوں میں ایم سی کیوز کا حصہ پہلی بار 20 فیصد کردیا گیا تھا جبکہ اس سال بچے اس کے عادی ہوچکے تھے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ گزشتہ برس سخت مارکنگ کی گئی تھی اس بار ہم نے مارکنگ کی مانیٹرنگ بھی کی ہے جس کے سبب مارکنگ میں بہتری آئی ہے اور نتائج بہت ہوئے ہیں۔ قائم مقام ناظم امتحانات کا یہ بھی کہنا تھا کہ سال دوم کے سالانہ امتحانات میں ایک مخصوص تعداد میں وہ طلبہ بھی شریک ہوتے ہیں جو امپروومنٹ آف ڈویژن کا امتحان دے رہے ہوتے ہیں جو پاس ہوکر نتائج کے تناسب کو بڑھا دیتے ہیں۔
یاد رہے کہ گزشتہ برس انٹرمیڈیٹ سال اول پری انجینئرنگ کے امتحانات 2023ء میں شریک 23 ہزار 994 امیدواروں میں سے صرف 8 ہزار 328 امیدوار ہی تمام چھ پرچوں میں کامیاب ہوسکے تھے اور نتیجہ 34 فیصد تھا جبکہ اسی طرح صرف 3815 امیدوار 5 پرچوں میں ، 3481 امیدوار 4 پرچوں میں، 3792 تین پرچوں میں، 2454 دو پرچوں میں جبکہ 1443 امیدوار ایک پرچے میں کامیاب ہوئے تھے۔
اگر پری میڈیکل سال اول کے گزشتہ برس کے نتائج کا جائزہ لیں تو اس امتحان میں شریک 30 ہزار 512 امیدواروں میں سے صرف 11 ہزار 254 امیدوار تمام چھ پرچوں میں کامیاب ہوئے تھے اور نتیجہ 36 فیصد تھا ان امتحانات میں پانچ پرچوں میں 4185 امیدوار، 4 پرچوں میں 3869 امیدوار، 3 پرچوں میں 4602 امیدوار، 2 پرچوں میں 3707 امیدوار اور 1 پرچے میں 1974 امیدوار کامیاب ہوسکے تھے۔
"ایکسپریس" نے اس سلسلے میں سابق نگراں وزیراعلی سندھ کی بنائی گئی فیکٹ فائنڈنگ کمیٹی کے ایک رکن سے سے رابطہ کیا جس پر رکن کا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر کہنا تھا کہ جن نقائص کی کمیٹی نے نشاندہی کی تھی اور اس سلسلے میں تجاویز ہم نے بورڈ کے امتحانی عمل کے حوالے سے دی تھیں اگر اس پر عمل درآمد ہو تب بھی فوری طور پر نتائج میں اتنا فرق ممکن نہیں ہے۔