اسرائیل اپنا وجود کھو دے گا

اسرائیل معاشی اعتبار سے حماس اور حزب اللہ کے ساتھ طویل مدتی جنگ کی پوزیشن میں نہیں


حسیب اصغر October 23, 2023
طویل جنگ اسرائیل کی معیشت کو بڑے نقصان سے دوچار کرسکتی ہے۔ (فوٹو: فائل)

اسرائیلی ماہرین معاشیات کا کہنا ہے کہ اسرائیل اپنے قیام سے ہی جنگیں لڑتا ہوا آرہا ہے لیکن غزہ میں حماس کے ساتھ حالیہ طویل جنگ لڑنے سے اسرائیل تباہی کی جانب تیزی سے بڑھے گا۔ اسرائیل معاشی طور پر اور نہ ہی سیاسی طور پر کسی بھی طرح ایسی جنگ لڑنے کے قابل نہیں ہے کہ جس میں ریزور فوج، جو کہ اسرائیلی فوج کا 65 فیصد ہے، کو طویل عرصے تک استعمال کیا جاسکے۔ اس عمل سے اس کی معیشت کو وہ نقصان ہوگا جس کا فی الحال اندازہ لگانا مشکل ہے۔


صہیونی ریاست کے اخبارات اور آزاد ذرائع نے اسرائیل کے ساتھ حماس کی جنگ کے حوالے سے صہیونی ریاست کو ممکنہ خطرات کی نشاندہی کی ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ حماس کے ساتھ جنگ صرف سرحدوں تک محدود نہیں رہ سکے گے بلکہ یہ اسرائیل کی تباہی کا پیش خیمہ بن سکتی ہے۔


یہ بلاگ بھی پڑھیے: غاصب اسرائیل، فلسطینی جذبے کو شکست نہیں دے سکتا


اسرائیلی میڈیا ذرائع کے مطابق حالیہ ایک سال کے دوران اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو اور ان کے شدت پسند اتحادی اسرائیل میں ایک ایسی حکومت قائم کرنے کے شدید خواہش مند ہیں جو کسی کو جوابدہ نہیں ہو۔ اس سلسلے میں نیتن یاہو اور ان کے بعض اتحادیوں نے اسرائیلی سپریم کورٹ کے اختیارات کو محدود کرنے یا یوں کہا جائے کہ سپریم کورٹ سے اختیارات لے کر کنیسٹ (اسرائیلی پارلیمنٹ) کو دینے کی بھرپور کوششیں کیں اور اس کےلیے پارلیمنٹ میں ایک بل پیش کیا۔ اس کے حوالے سے بل کا ایک حصہ اسرائیلی پارلیمنٹ سے منظور بھی کیا جاچکا ہے تاہم اس بل کو مکمل طور پر منظور ہونے سے پہلے ہی اسرائیلی شہریوں کی بڑی تعداد نے اسرائیلی وزیراعظم اور اس بل کو تیار کرنے والوں کے خلاف شدید احتجاج شروع کیا اور یہ احتجاج گزشتہ 10 ماہ سے جاری تھا، جس میں اسرائیلی حزب اختلاف کی جماعتیں بھی شامل تھیں۔ یہاں اہم بات یہ ہے کہ اس بل کے خلاف جہاں اسرائیلی شہری سراپا احتجاج تھے، وہیں اسرائیلی فوج کی بڑی تعداد بھی اس احتجاج میں شامل ہوچکی تھی۔


19 جولائی 2023 کو رائٹرز کی خبر کے مطابق سیکڑوں اسرائیلی ریزرو فوجیوں نے تل ابیب میں مارچ کیا اور حکومت سپریم کورٹ کے اختیارات کو روکنے کے متنازع منصوبے کے خلاف اسرائیلی فوج میں رضاکارانہ خدمات سے انکار کردیا۔ اس انکار کے بعد اسرائیل کے سربراہ ہرزی ہلیوی نے بغاوت کرنے والے ریزرو فوجیوں کو ڈیوٹی پر وپس آنے کی اپیل کرتے ہوئے کہا ہے کہ اختلاف کا حق ہے تاہم فوج اور ملک کو نقصان نہیں پہنچایا جانا چاہیے۔


16 اگست 2023 کو اسرائیل کے معروف اخبار اسرائیل ٹائمز نے ذرائع سے ایک خبر شائع کی، جس کے مطابق اسرائیلی بحریہ کے سربراہ وائس ایڈمرل ڈیوڈ سار سلامہ نے ایک سینئر ریزروسٹ ریئر ایڈمرل ''اوفر ڈورون'' کو ملازمت سے معطل اور رئیر ایڈمرل (ریئر) ایال سیگیو کے خلاف محکمہ جاتی کارروائی کا آغاز کیا۔ دونوں اعلیٰ افسران نے ماہ اگست کی ابتدا میں اعلان کیا تھا کہ وہ اسرائیلی شہریوں کے ساتھ نیتن یاہو اور ان کی حکومت کے اسرائیلی عدالتی نظام کو تبدیل کرنے کے متنازع منصوبوں کے خلاف احتجاج میں عام شہریوں کے ساتھ شامل رہیں گے، اور اسرائیلی فوج کےلیے مزید خدمات دینے کےلیے تیار نہیں۔ دونوں افسران نے موجودہ اسرائیلی حکومت کو اسرائیل کےلیے کینسر قرار دیتے ہوئے کہا تھا کہ وہ ان کے ساتھ کام نہیں کرسکتے۔


اسرائیل کے معروف عبرانی اخبار 'یدیعوت احرونوت' نے اپنی رپورٹ میں بتایا کہ عدالتی اصلاحات کے نام پر اختیارات کو محدود کرنے کی مخالفت کرنے والوں میں نہ صرف اسرائیلی فوج کے اعلیٰ افسران شامل ہیں بلکہ ملک کا سب سے طاقت ور انٹیلی جنس ادارہ 'موساد' بھی حکومتی اقدامات کے خلاف نظر آرہا ہے۔ اسرائیلی فوج، خفیہ ایجنسی اور شہریوں کی جانب سے اس کے خلاف سخت ردعمل دیکھنے میں آرہا ہے اور گزشتہ تقریباً ایک سال سے اسرائیل میں اس قانون کے خلاف بڑے پیمانے پر احتجاج جاری ہے۔


اسرائیلی ذرائع ابلاغ سے حاصل اطلاعات واضح طور پر بتاتی ہیں کہ اسرائیلی فوج میں حکومتی پالیسیوں کے باعث مایوسی پائی جارہی ہے اور وہ فوج کی خدمات کےلیے تیار نہیں، جبکہ دوسری جانب اسرائیلی اپنی حکومت کے فیصلوں سے دل برداشتہ ہوکر ملک سے منتقل ہورہے ہیں۔


یہاں میں اسرائیلی فوج میں ریزور فوجیوں کی تعداد، ان کا تناسب اور ان کی اہمیت سمیت ان کی خدمات کے حوالے سے کچھ حقائق پیش کرنا چاہوں گا، جس کے باعث قارئین کو اندازہ ہوجائے گا کہ اسرائیل اپنی تاریخ کے نازک ترین موڑ پر کھڑا ہے اور حماس سمیت دیگر فلسطینی مزاحمتی تحریکیں اس کو کچلنے کے کتنے قریب ہیں۔


جیسا میں نے پہلے عرض کیا کہ اسرائیلی فوج میں ریزرو فوج کا تناسب 65 فیصد ہے۔ اسرائیلی فوج تین حصوں پر مشتمل ہے، پہلی ہے فعال افواج، جس کی تعداد 173,000 ہے جبکہ ریزرو فورسز کی تعداد 465,000 ہے، یعنی یہ اسرائیل کی فوج میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہے۔


اسرائیل کے قانون کے مطابق اس کے ہر 18 سے 21 سال کے درمیان ہر شہری کو اسرائیلی فوج میں سروس کرنا لازمی ہے، جبکہ ریزرو فورسز (ریزرو فوج میں لازمی سروس 51 سال کی عمر تک ختم نہیں ہوتی)۔ ریزرو فوجیوں کی اتنی بڑی تعداد شاید کسی دوسری فوج میں موجود نہیں۔ ایسا اس لیے بھی ہے کیونکہ اسرائیلی قومی سلامتی کا نظریہ ہے کہ ''شہری فوج کی ضرورت'' یا جسے ''اسلحہ، قوم کا محافظ'' کہا جاتا ہے۔ تمام اسرائیلی شہری جو ہتھیار اٹھانے کے قابل ہیں، وہ مرد ہو یا عورت، ان پر لازم ہے کہ وہ فوج میں اپنی خدمات دیں اور جنگ ہونے کی صورت میں حصہ لیں۔


یروشلم سینٹر فار پولیٹیکل اسٹڈیز کے سربراہ جیری وکائک کا کہنا ہے کہ حماس کی جانب سے اسرائیل پر تاریخی حملے کے بعد اسرائیلی کی تاریخ میں پہلی مرتبہ جنگ کا اعلان کیا اور کہا کہ ہم اس جنگ کو طویل ہونے کے باوجود جیتنے سے پہلے ختم نہیں کریں گے۔ اس اعلان کے ساتھ اس نے تقریباً 360,000 ریزرو فوجیوں کو طلب کیا ہے اور دنیا میں جہاں کہیں بھی یہودی مقیم ہیں، انھوں نے اسرائیل کا رخ کرنا شروع کردیا۔


جیری وکائک کا کہنا ہے کہ اسرائیلی فوج کے ریزرو سپاہی وہ شہری ہوتے ہیں جو مختلف صنعتی، زرعی اور زندگی کے دیگر شعبہ جات میں خدمات انجام دے رہے ہوتے ہیں۔ آسان الفاظ میں کہا جائے تو یہ وہ لوگ ہوتے ہیں جن کے باعث ملکی معیشت چل رہی ہوتی ہے۔ اسرائیل جب ان کو اپنے کاموں سے ہٹاکر جنگ کےلیے بلائے گا تو اس کی معیشت اور خدمات رک جائیں گی اور ترقی کا پہیہ رک جائے گا۔ اسرائیل کے اس اقدام پر معیشت کو بڑے نقصان سے دوچار کیے بغیر طویل جنگ لڑنے کی صلاحیت پر سنجیدہ سوالات اٹھتے ہیں۔


اسرائیلی یونیورسٹی آف حیفا میں نیشنل سیکیورٹی اسٹڈیز پروگرام کے ڈائریکٹر گیبریل بین ڈور کا کہنا ہے کہ اس مرتبہ نیتن یاہو کچھ غیر معمولی کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ انھوں نے بتایا ہے کہ تمام اہل مردوں کو سال میں ایک مرتبہ فوج میں خدمات دینے کےلیے حاضر ہونا ضروری ہے جو اوسطاً 26 دن اور افسران کےلیے 24 دن ہے۔ لیکن نیتن یاہو نے اس مرتبہ تقریباً تمام ہی رضاکار فوجیوں کو ڈیوٹی جوائن کرنے کےلیے بلایا اور ان کی ڈیوٹی کے حوالے سے کوئی تفصیلات فراہم نہیں کی گئیں، جس سے محسوس ہورہا ہے کہ وہ ایک طویل جنگ کےلیے اتنی بڑی فوج کو متحرک کررہے ہیں۔


غیر قانونی صہیونی ریاست اسرائیل کی آبادی تقریباً 8.9 ملین افراد پر مشمتل ہے جبکہ پڑوسی ملک مصر کی آبادی 105 ملین سے زیادہ افراد پر مشتمل ہے، اس لیے شائد نیتن یاہو نے اسرائیل میں ہتھیار اٹھانے کی صلاحیت رکھنے والے ہر مرد اور عورت سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ آبادی اور انسانی صلاحیتوں کی کمی کو پورا کرے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اسرائیل ایک بہت بڑی جنگ کی تیاری کررہا ہے۔


امریکی ''گلوبل فائر پاور'' ویب سائٹ کے مطابق فعال اسرائیلی افواج کی تعداد 173,000 ہے جب کہ رضا کار فورسز کی تعداد 465,000 ہے۔ یعنی تل ابیب نے تقریباً تین چوتھائی ریزرو فورسز کو حماس کے خلاف جنگ کےلیے طلب کیا ہے۔ لیکن دیکھا جائے تو غزہ کی آبادی 22 لاکھ سے زیادہ نہیں اور یقینی طورپر غزہ میں خواتین اور بچوں کی تعداد 50 فیصد سے زیادہ ہے، یعنی اسرائیل کی آبادی کے ایک چوتھائی سے بھی کم، تاہم مجموعی طور پر 530,000 سے زائد اسرائیلی فوجیوں کو متحرک کیا جارہا ہے۔ تو کیا یہ تیاریاں حماس کے عسکری ونگ القسام بریگیڈ سے تعلق رکھنے والے چند ہزار عسکریت پسندوں سے لڑنے کےلیے کی جارہی ہیں؟


القسام بریگیڈ کے ارکان کی تعداد کے حوالے سے اندازوں کے مطابق ان کی تعداد 20,000 مسلح افراد سے زیادہ ہے، اور جب متحرک ہوجائیں گے تو ان کی تعداد 50,000 تک پہنچ سکتی ہے۔ یہ تعداد اسرائیلی فوج اور القسام بریگیڈ کے درمیان طاقت کے عدم توازن کو ظاہر کرتی ہے۔ اس حوالے سے اسرائیلی فوج کے پاس موجود ہتھیاروں کے بارے میں بات کیے بغیر صرف عددی برتری میں اسرائیل واضح طور پر سبقت رکھتا ہے۔


یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ تعداد اور سازوسامان میں ایک چھوٹی طاقت کے مقابلے میں اسرائیل کیوں اتنے فوجیوں کو متحرک کررہا ہے اور جو اسرائیل کے توازن کو عدم توازن اور اس کی معیشت کو بڑے نقصان سے دوچار کرسکتی ہے؟


اس سوال کے جواب کےلیے ضروری ہے کہ اس جنگ کے اہداف کو تلاش کیا جائے کیونکہ 7 اکتوبر کو غزہ سے اسرائیل پر تاریخی حملوں کے باعث عالمی سطح پر اسرائیلی فوج کا وقار اور اس کی انٹیلی جنس صلاحیتوں کو ایسا دھچکا لگا ہے جو شاید عشروں تک دوبارہ سنبھلنے کے قابل نہیں ہوگا۔ اسرائیل کا رعب و دبدبہ، اس کی جوہری طاقت، اس کی خفیہ ایجنسی موساد کی صلاحیت اور اس کی ڈیٹرنس کی صلاحیت ختم ہوچکی ہے۔ لہٰذا، ذرائع کی بنیاد پر، اس بات کا امکان نہیں کہ بینجمن نیتن یاہو کی حکومت علاقائی عدم استحکام کو بحال کرنے کےلیے اتنی بڑی فوج کو جمع کررہی ہے جو ہفتوں یا مہینوں تک جنگ کرنے کی صلاحیت رکھتی ہو۔


حماس کے حملوں کے بعد اسرائیلی وزیر دفاع، وزیر خارجہ اور خود وزیراعظم نے اعلان کیا کہ وہ حماس کو ختم کرنے کے بعد اس جنگ کو ختم کرنے کا اعلان کریں گے۔ اسرائیلی حکام ایک ایسی جنگ کے بارے میں بات کررہے ہیں جو ہفتوں تک جاری رہے گی۔ جس سے اس بات کی تصدیق ہوتی ہے کہ وہ القسام بریگیڈ کے جنگجوؤں سے غزہ کے اردگرد بستیوں کو صاف کرنے سے مطمئن نہیں ہوں گے، بلکہ وہ غزہ پر زمینی حملہ کرنے کی کوشش کریں گے۔ لیکن اگر زمینی حقائق کا جائزہ لیا جائے تو یہ اسرائیل کےلیے ممکن نہیں۔


اسرائیلی فوج کے دعوؤں اور 2014 میں غزہ کی جنگ کو مدنظر رکھا جائے تو اسرائیل نے غزہ میں 8 جولائی سے 26 اگست تک 50 دنوں تک جنگ جاری رکھی۔ 2006 کی لبنان جنگ 12 جولائی سے 14 اگست تک تقریباً 34 دن تک جاری رہی۔ اگر بات کی جائے 1967 کی جنگ کی، تو وہ بھی صرف چھ دن تک جاری رہی۔ یہاں تک کہ اگر اکتوبر 1973 کی جنگ کی بات کی جائے، جس کے دوران مصری فوج خط بارليف کو عبور کرنے میں کامیاب رہی تھی اور یہ جنگ بھی 6 سے 25 اکتوبر تک صرف 20 دن تک جاری رہی تھی۔ اس جنگ کے حوالے سے یہ بات بہت اہم ہے کہ اس وقت کی مصری حکومت اسرائیل کی اس کمزوری سے آگاہ تھی کہ اگر جنگ طویل ہوتی ہے تو اسرائیلی فوج طویل مہینوں تک اپنے ذخائر کو محفوظ رکھنے کے قابل نہیں ہے، جس کے پیچھے بڑی وجہ اس کی رضا کار فوج تھی جو زندگی کے دیگر شعبہ جات کو چھوڑ کر فوج کی خدمات کےلیے طلب کیے گئے تھے اور یہ سب افراد اس کی معیشت میں افرادی قوت کی نمائندگی کرتے تھے جس پر ملک کی معیشت کی بنیاد ہے۔ اسی لیے اسرائیلی حکومت نے اس کو ''جنگ کی جنگ'' قرار دیا تھا۔


1967سے 1970 تک جاری رہنے والی یہ جنگ کوئی روایتی جنگ نہیں تھی، اس جنگ میں دونوں طرف سے توپ خانے کے گولوں کا تبادلہ، الگ الگ اور وقفے وقفے سے خصوصی آپریشنز کا نفاذ، شہریوں پر اسرائیلی فوج کے چھاپے، مصر، شام کے محاذوں پر محدود لڑائیاں اور اردن، اور کئی اسرائیلی جنگی جہازوں پر بمباری، لیکن ان میں کوئی حوصلہ افزا خبر نہیں تھی۔ یہ واحد جنگ تھی جس میں دنوں اور ہفتوں کے بجائے برسوں لگے لیکن روایتی معنوں میں یہ جنگ نہیں تھی اور تل ابیب کو اس عرصے میں اپنے تمام ریزرو فوجیوں کو بلانے کی بھی ضرورت نہیں تھی۔


لیکن 7 اکتوبر کو حماس کے تباہ کن حملوں کے ساتھ شروع ہونے والی یہ غزہ کی جنگ اس سے پہلے ہونے والی تمام جنگوں سے مختلف ہے، کیونکہ نصف صدی میں یہ پہلی بار ہے کہ اسرائیل نے ''سرکاری طور پر'' جنگ کا اعلان کیا ہے۔ نیز، اسرائیلی فوج کے ترجمان کی طرف سے غزہ کے باشندوں کو سینائی کی طرف نقل مکانی کرتے ہوئے غزہ سے نکل جانے مشورہ دیا گیا، جو غزہ پر اسرائیل کے دوبارہ قبضہ کرنے اور حماس سمیت تمام مزاحمتی تحریکوں کو ختم کرنے کی اسرائیلی خواہش کی عکاسی کرتا ہے۔


اس منظرنامے کےلیے زمینی حملے اور شہری جنگ لڑنے کی ضرورت ہے کیونکہ اسرائیل اس بات کو سمجھ چکا ہے کہ حماس کو مکمل طور پر ختم کرنے کےلیے صرف فضائیہ کارروائیاں کارگر نہیں۔ فضائیہ کارروائیاں 1999 میں سربیا کے خلاف انتہائی کارآمد رہی تھیں، تاہم یہ کارروائیاں غزہ میں مزاحمتی تنظیموں کو ختم کرنے میں سودمند ثابت نہیں ہوسکتیں کیونکہ حماس نے زیر زمین سرنگوں کا ایک ایسا جال بنایا ہوا ہے جو اسرائیل کےلیے دردسر ہے اور اسرائیل کئی مرتبہ کوشش کے باوجود ان سرنگوں کے جال کو تباہ کرنے میں مکمل طورپر ناکام رہا ہے۔


تصویر کا دوسرا رخ دیکھا جائے تو فلسطینی تحریکیں باقاعدہ فوجوں کے مقابلے میں زیادہ گوریلا لڑائیوں کےلیے غیر معمولی صلاحیتوں کی حامل ہیں، جس نے تل ابیب کو میدان جنگ میں اپنے غلبہ کے باوجود غزہ میں زمینی جنگ چھیڑنے پر مجبور کیا، جس کا اختتام 2008 اور 2014 کی جنگ پر تھا جب اسرائیل کو اپنے فوجیوں کو چھڑوانے کےلیے حماس کے ساتھ مذاکرات کرنا پڑے تھے اور ایک اسرائیلی فوجی کی رہائی کے بدلے میں ایک ہزار چالیس فلسطینی قیدیوں کو رہا کرنا پڑا تھا۔


ماہرین کا کہنا ہے کہ اسرائیلی فوج کو بخوبی اندازہ ہے کہ حماس کے ساتھ زمینی لڑائی میں اس کی فوج کا بھاری جانی اور مالی نقصان ہوگا۔ غزہ میں گھسنے کی کوشش جنگ کی انسانی جانوں کے ضیاع کو بڑھا دے گی۔ اس لیے اسرائیل نے اتنی بڑی فوج، بکتربند گاڑیاں، ٹینک اور نجانے کیا کیا جنگ کے لیے تیار کرلیا ہے۔ لیکن یہ بات بھی اپنی جگہ درست ہے کہ اگر اسرائیلی فوج پوری غزہ کی پٹی پر قبضہ کرنے میں کامیاب ہوجاتی ہے، تب بھی اس کی طویل مدت تک پٹی میں رہنے کی صلاحیت پر سوالیہ نشان ہے۔


جنگ کا دورانیہ فلسطینی دھڑوں کی ثابت قدمی اور ان کی حکمت عملی پر منحصر ہے: کیا وہ شہری جنگ میں حصہ لیں گے، یا وہ گوریلا جنگ کو ترجیح دیں گے، جس کےلیے زمینی محاذ پر موجود رہنے کی ضرورت نہیں، بلکہ حملہ کرنا اور فرار ہوجانا ہے۔


اس جنگ کو طویل کرنے کی خواہش اسرائیل کی ہے کہ وہ حماس کو مکمل طور پر ختم کرنا چاہتا ہے لیکن یہ جنگ تل ابیب کی خواہش سے زیادہ مزاحمت کاروں کی استقامت کے ساتھ ساتھ ان کی گوریلا کارروائیوں پر منحصر ہے کہ وہ اس جنگ کو کتنا طویل کرتے ہیں۔


اسرائیل اس جنگ سے اپنی کھوئی ہوئی ڈیٹرنس کی صلاحیت کے ساتھ اپنے عالمی وقار کو بحال کرنا چاہتا ہے، جس نے اس کو خطے میں پولیس کا کردار ادا کرنے کے قابل کردیا تھا۔


تاریخ گواہ ہے کہ اسرائیل نے فلسطینی مزاحمت کاروں سے زمینی جنگ میں کبھی سبقت حاصل نہیں کی، اس لیے اگر اسرائیلی فوج غزہ میں داخل ہوتی ہے تو حماس کے جانبازوں کے ہاتھوں اپنے قتل عام کو روکے گی یا جنگ کو لبنان تک لے جانے کی کوشش کرے گی، جو اس کے گریٹر اسرائیل کے منصوبے کا حصہ ہے۔ لیکن یہاں ایک بات اور انتہائی اہم ہے کہ غزہ میں حماس کے زیادہ سے زیادہ 50 ہزار جنگجو ہیں لیکں اگر اسرائیل اس جنگ کو لبنان تک لے جانے کی غلطی کرتا ہے تو حزب اللہ کے ایک لاکھ سے زیادہ جنگجو اس کا استقبال کرنے کےلیے بے چین ہیں۔ اس کے علاوہ شامی سرحد بھی اسرائیل کےلیے مقتل بنی ہوئی ہے۔ اسرائیلی فوج شام کی سرحدوں پر بھی زمینی لڑائی کے بجائے بمباری سے اپنے اہداف حاصل کرتا ہے، ایسی صورتحال میں اسرائیل کو تین محاذوں سے غیر معمولی حملوں کا سامنا ہوگا جبکہ مغربی کنارے میں عرین الاسود، جس نے اسرائیلی فوج کی نیندیں اڑائی ہوئی ہیں، عرین الاسود کے جانباز ایک دن میں 20 سے 25 حملے اسرائیلی فوج پر کرتے ہیں، جس میں اسرائیلی فوج کا جانی اور مالی نقصان روزانہ کی بنیاد پر ہوتا ہے۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ اسرائیلی فوج جدید ترین اسلحہ اور ٹیکنالوجی کے باوجود عرین الاسود کے جانبازوں کی کارروائیوں کو روکنے میں بری طرح ناکام ہے۔ ایسی صورتحال میں جب ایک فوج جو اپنا حوصلہ کھو چکی ہو وہ اتنے محاذوں پر کیسے کامیاب ہوسکتی ہے؟


اسرائیلی فوج میں رضاکار فوجیوں کے حوالے سے اسرائیل ڈیموکریسی انسٹی ٹیوٹ میں سینٹر فار سیکیورٹی اینڈ ڈیموکریسی اور ویٹربی فیملی سینٹر فار پبلک اوپینین اینڈ پالیسی ریسرچ نے ایک خصوصی سروے کیا جس کے مطابق اگر اسرائیلیوں کو انتخاب کرنے کی سہولت دی جائے تو زیادہ تر ریزرو فوجی فوج میں اپنی خدمات کےلیے حاضر نہیں ہوں گے۔ 1974 میں کیے گئے سروے میں یہ تعداد صرف 20 فیصد تھی، 1990 کی دہائی کے آخر میں کی گئی ایک تحقیق سے پتہ چلتا ہے کہ ہر 11 میں سے صرف دو ریزرو فوجی اسرائیلی فوج میں خدمات انجام دینے کےلیے اپنی مرضی سے دستیاب ہیں۔


یہاں یہ بات بھی قبل ذکر ہے کہ اسرائیلی فوج رضاکار فوجیوں کا حوصلہ بڑھانے اور ان کی دلچسپی بڑھانے کےلیے اعزازات اور انعامات سے نوازتی ہے، اس کے باوجود اسرائیلی عوام کی بڑی تعداد یعنی 47 فیصد کی رائے ہے کہ اسرائیلی فوج کو اپنی 'عوامی فوج' کے ماڈل کو ترک کرکے ایک پیشہ ورانہ فوج میں تبدیل ہونا چاہیے۔


یہاں اسرائیل میں موجود ایک اور خطرناک پہلو کا مختصر ذکر کرنا ضروری سمجھوں گا جس کو ہم فلاشا یہودی اور اشکنازی یہودیوں کے نام سے جانتے ہیں۔ اشکنازی وہ یہودی ہیں جو جرمنی، فرانس اور مشرقی یورپ سے تعلق رکھتے ہیں اور بعض امریکا سے، جبکہ فلاشا وہ یہودی ہیں جو ایتھوپیا سے تعلق رکھتے ہیں اور جن کو 1984-85 اور 1991 میں اسرائیل لاکر بسایا گیا تھا جس کا بنیادی مقصد یہودیوں کی فلسطین میں آبادی کو بڑھانا تھا۔ ان یہودیوں کا عقیدہ اور مذہب تو ایک ہے لیکن ان میں ثقافتی دوریاں ہیں جبکہ ہم سب ہی جانتے ہیں کہ یہودی ایک نسل پرست قوم ہے، اتنی نسل پرست کہ انھوں نے آج تک فلاشا یہودیوں کو ان کی سیاہ رنگت کے باعث تسلیم نہیں کیا۔ یہی وجہ ہے کہ 2016 میں اسرائیل میں فلاشا یہودیوں اور اشکنازیوں کے درمیان جھڑپیں اس وقت شروع ہوئیں جب ایک اشکنازی یہودی پولیس افسر نے ایک فلاشا یہودی نوجوان کو گولیاں مار کر ہلاک کردیا۔ اس کے بعد سے اسرائیل میں ایک خانہ جنگی کا ماحول دیکھا گیا، کئی گاڑیاں اور متعدد پٹرول پمپس اور دکانیں جلادیے گئے۔ ان فسادات میں کم سے کم 16یہودی ہلاک اور درجنوں زخمی ہوئے اور آخرکار نوبت یہاں تک پہنچ گئی کہ اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو کو سرکاری ٹی وی پر خطاب کرتے ہوئے فلاشا یہودیوں کو یقین دلانا پڑا کہ ان کے ساتھ انصاف کیا جائے گا۔


ان ساری تفصیلات کو بتانے کا مقصد یہ ہے کہ غیر قانونی صہیونی ریاست اسرائیل سرحدوں ہی سے نہیں بلکہ اندرونی طور پر بھی انتہائی ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے۔ اسرائیل معاشی اعتبار سے حماس اور حزب اللہ کے ساتھ طویل مدتی جنگ کی کسی صورت بھی پوزیشن میں نہیں۔ اس صورتحال میں تو بالکل بھی نہیں کہ جب غزہ پر وحشیانہ قتل عام کے باعث پوری دنیا سے اس پر لعنت ملامت کی جارہی ہے اور دنیا بھر سے جنگجو اسرائیل کے ساتھ جنگ کرنے کےلیے فلسطین، لبنان، شام اور اردن پہنچنے کے خواہش مند ہیں۔ دوسری جانب روس اور چین یہ بات بہت اچھی طرح جانتے ہیں کہ اسرائیل کی ہر ممکن مدد امریکا کی مجبوری ہے اور یہ دونوں امریکا کے کھلے دشمن ہیں، جو امریکا کو نقصان پہنچانے کےلیے اسرائیل کو نقصان پہنچانے میں دیر نہیں لگائیں گے۔


نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔



اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔