اسرائیل فلسطینی مجاہدین کے ہاتھوں بے بس

تمام تر جدید ٹیکنالوجی کے باوجود غاصب ریاست اسرائیل فلسطینیوں کے جذبہ حریت کو شکست دینے میں ناکام ہے


حسیب اصغر October 29, 2022
درجنوں مزاحمتی تحریکیں ارض مقدس کو صہیونی پنجوں سے چھڑانے کےلیے برسرپیکار ہیں۔ (فوٹو: فائل)

اسرائیل جو بحیرہ روم کے مشرقی کنارے پر واقع تقریباً 23 ہزار کلومیٹر پر محیط ایک چھوٹا سا ملک ہے۔ اپنے نسبتاً چھوٹے سائز کے باوجود یہ ملک دنیا کے طاقتور ترین ممالک کی فہرست میں آٹھویں نمبر پر ہے۔ عالمی معاملات میں بھی اسرائیل کا کردار بہت اہم ہے۔ اس ملک کی معیشت مضبوط ہے، خوشحالی کی فہرست میں یہ ملک 32 ویں نمبر پر ہے، اس ساری جدید ٹیکنالوجی عالمی اثر و رسوخ اور بے تحاشا طاقت کے باوجود ایک ایسی قوم کے ہاتھوں تباہی کی جانب تیزی سے جارہا ہے جس کے پاس کھانے کےلیے دو وقت کی روٹی نہیں ہے۔

جی ہاں میں بات کررہا ہوں مظلوم فلسطینیوں کی، جن کے ہاتھوں اسرائیل انتہائی شرمناک ذلت کا شکار ہے۔ مقبوضہ فلسطین میں صہیونی ریاستی دہشتگردی کے خلاف حماس، اسلامی جہاد اور پاپولر فرنٹ سمیت دیگر درجنوں مزاحمتی تحریکیں ارض مقدس کو صہیونی پنجوں سے چھڑانے کےلیے برسرپیکار ہیں اور یہ گزشتہ ستر سال سے اسرائیلی مظالم کے خلاف ڈٹ کر کھڑی ہیں، تاہم گزشتہ چھ ماہ سے اسرائیل میں فلسطینی مزاحمت کاروں کے طرز کارروائی میں غیر معمولی تبدیلی اور تیزی دیکھنے میں آئی ہے۔

گزشتہ ہفتوں کے دوران مغربی کنارے کے شہر نابلس میں ''عرين الأسود'' (شیر کی کچھار) نامی مزاحمتی گروپ کا نام عرب اور بین الاقوامی میڈیا میں سرخیوں میں آیا۔ اس گروپ نے صہیونی سیکیورٹی ایجنسیز کو پریشان کردیا ہے۔ ان کے حملوں کے بعد اسرائیل کے فیصلہ ساز عسکری اور سیاسی حلقوں کو انتہائی سنگین صورتحال سے دوچار کردیا ہے۔

صہیونی ریاست کے اخبار اسرائیل ٹوڈے نے اس حقیقت کی تصدیق کی جس کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا، وہ یہ ہے کہ اسرائیل کو ''عرين الأسود'' کے جس قسم کے حملوں کا سامنا ہے اسرائیل کو اس سے قبل اس قسم کے حملوں کا کبھی سامنا نہیں ہوا۔

''عرين الأسود'' گروپ کا تعارف


اسودالاسود گروپ 2022 میں مقبوضہ بیت المقدس کے شہر نابلس میں نمودار ہوا اور اس میں کئی فلسطینی دھڑوں سے تعلق رکھنے والے مجاہدین، جن میں فلسطینی نیشنل لبریشن موومنٹ (فتح) کی الاقصیٰ شہدا بریگیڈز، القدس، اسلامی جہاد تحریک کے عسکری ونگ، اسلامی مزاحمتی تحریک حماس کے عسکری ونگ، القسام بریگیڈ، پاپولر فرنٹ فار دی لبریشن آف فلسطین سمیت فلسطینی سیکیوررٹی سروسز کے سابق ارکان شامل ہیں، لیکن وہ خود کو کسی خاص گروہ سے منسوب کرنے سے انکار کرتے ہیں۔

اس گروپ کی پہلی کارروائی فروری 2022 میں ریکارڈ کی گئی، جب نابلس کے قصبے میں اس گروپ نے صہیونی فوجی اہداف پر فائرنگ کی جس میں چار اسرائیلی فوجی بری طرح زخمی ہوئے۔ ابتدا میں اسرائیلی فوجی حکام نے اس کو ایک معمولی مزاحمتی کارروائی قرار دیا اور اس کا ذمے دار ایک غیر معروف چھوٹے مسلح گروپ کو قرار دیا، جو ''جینین بریگیڈ'' جو خود کو ''نابلس بریگیڈ'' کہتا ہے۔

اسرائیلی اخبار HA'ARETZ نے اس کارروائی کو صفحہ اول پر جگہ دی اور اسرائیلی عسکری حکام سے جواب طلب کیا اور یوں یہ کارروائی میڈیا پر زور پکڑ گئی، جس کے بعد انٹیلی جنس معلومات کی بنیاد پر، اسرائیلی داخلہ سلامتی کی خفیہ ایجنسی (شاباک) نے اس گروپ کے خلاف کارروائی کا فیصلہ کیا۔ فروری 2022 میں ''شاباک'' کی مسلح بٹالین کے 4 ارکان کے اسرائیلی فوجیوں کو نشانہ بنانے والے گروپ ''عرين الأسود'' کے اہم کمانڈر کو نشانہ بنانے کا فیصلہ کیا گیا۔ اسرائیلی الیمام ڈویژن منگل 8 فروری کو دوپہر کے وقت نابلس شہر میں فلسطینی نمبر پلیٹ کی گاڑیوں میں داخل ہوئے لیکن ''عرين الأسود'' کے مجاہدین اسرائیلی خفیہ آپریشن سے پہلے سے ہی واقف تھے۔ جیسے ہی وہ مجاہدین کی رینج میں آئے فلسطینی مزاحمت کاروں نے ان پر گولیوں کی بوچھاڑ کردی اور یوں اسرائیلی خفیہ ایجنسی کے اہلکار موقع پر ہلاک ہوئے، جس کی تفصیلات اسرائیلی فوج کی جانب سے جاری نہیں کی گئی، تاہم اس حملے میں چار فلسطینی ادھم مبروکہ، محمد الدخیل، اشرف مبسلات اوراس آپریشن کے سربراہ ابراہیم النبلسی بھی شہید ہوئے۔

ابراہیم النبلسی کی شہادت کے ایک ماہ بعد نابلس کے جنوب میں واقع گاؤں حوارہ کے قریب ایک صہیونی آبادکار کو گولیاں مار کر ہلاک کیا گیا۔ یہ پہلا موقع تھا کہ ''عرين الأسود'' گروپ نے اس واقعے کی باضابطہ ذمے داری قبول کرتے ہوئے اسرائیل کو خبردار کیا تھا کہ اگر نہتے فلسطینیوں کو بے رحمی سے قتل کیا جائے گا تو اس کے جواب میں ہم اسرائیلی شہریوں کو قتل کریں گے اور یوں اس گروپ نے مقبوضہ مغربی کنارے اور یروشلم میں اسرائیلی فوجیوں اور غیر قانونی آبادکاروں کو نشانہ بنانا شروع کیا اور اس کی ذمے داری قبول کی۔

تین ستمبر کو درجنوں بندوق برداروں کے ایک منظم گروپ نے اپنی ویڈیو جاری کی جس میں انھوں نے بتایا کہ اس گروپ کے بانی شہید محمد العزیز تھے، اور جسے انہوں نے ''شیر'' قرار دیا۔ درجنوں مسلح افراد کی قیادت میں ایک نقاب پوش شخص نے گروپ کا ایک بیان پڑھا اور کہا ''ہماری بندوقیں ایک گولی بھی ضائع نہیں کریں گی، ہمارا نشانہ کبھی خطا نہیں ہوگا۔ صہیونی دشمن ہمارے سامنے ایسے بے بس ہیں جیسے بپھرے ہوئے شیر کے سامنے بھیڑ۔ ہماری منزل ارض مقدس کی آزادی ہے۔ صہیونی دشمن سے اپنے ملک کو آزاد کرا کر دم لیں گے۔''

اس بیان اور غیر معمولی حملوں کے بعد ''عرين الأسود'' اسرائیلی فوجیوں کےلیے خوف کی علامت بن گئی۔ اکتوبر کے مہینے میں ''عرين الأسود'' کے مجاہدین نے 6 اسرائیلی فوجیوں سمیت 25 اسرائیلی آبادکاروں کو قتل کیا۔ اسرائیل کے معروف اخبار ''یدیعوت احرونوت'' نے اپنی رپورٹ میں فلسطینی مزاحمت کاروں کے حملوں کو گزشتہ دو دہائیوں میں سب سے خطرناک قرار دیتے ہوئے اعتراف کیا کہ فلسطینی مزاحمت کاروں کی بڑھتی ہوئی کارروائیاں اسرائیلی سیکیورٹی حکام کےلیے درد سر بن چکی ہیں۔

اسرائیلی ٹی وی چینل 13 نے اپنی رپورٹ میں انکشاف کیا ہے کہ 24 اور 25 اکتوبر کے درمیان محض چوبیس گھنٹوں میں صہیونی فوج پر بیت المقدس اور مغربی کنارے کے مختلف شہروں میں پچاس سے زائد حملے کیے گئے۔ ان حملوں میں ایک آبادکار اور 6 اسرائیلی فوجی زخمی ہوئے۔

اسرائیلی فوج نے گیارہ اکتوبر کو ''عرين الأسود'' کو جڑ سے ختم کرنے کےلیے مقبوضہ بیت المقدس کے شہر نابلس کا محاصرہ شروع کیا اور یہاں بھی اسرائیلی جدید ترین ٹیکنالوجی اور خطرناک جاسوسی کے آلات اور ذرائع کو فلسطینی مجاہدین نے شکست دی۔ اسرائیلی حکام کا خیال تھا کہ چند روز کے محاصرے سے ''عرين الأسود'' جو کہ ایک چھوٹا سا گروپ ہے، اس کو ختم کردیا جائے گا۔ تاہم یہ ان کی غلط فہمی ثابت ہوئی اور 17 روز گزر جانے کے باوجود اسرائیلی فوج اور شہریوں پر فلسطینی مزاحمت کاروں کے حملوں میں کمی آنے کے بجائے تیزی دیکھنےمیں آتی رہی۔

بالآخر 22 اکتوبر کی رات صہیونی فوج خفیہ ایجنسی کی مدد سے ''عرين الأسود'' کے سربراہ 33 سالہ تامر کیلانی کو نابلس کے مضافاتی علاقے جبل جرزیم میں ان کی موٹر سائیکل میں دھماکا خیز مواد نصب کرکے شہید کرنے میں کامیاب ہوئی لیکن اس کے باوجود اسرائیلی فوج اور اسرائیلی شہریوں پر مزاحمت کاروں کے حملوں میں ذرا بھی کمی نہیں آئی بلکہ اس میں مزید شدت دیکھنے میں آرہی ہے۔

اسرائیل کی سیکیورٹی کی صورتحال اس قدر خراب ہوچکی ہے کہ 26 اکتوبر کے اسرائیلی اخبار 'یدیعوت احرونوت' میں اسرائیلی فوج کے سابق افسر اور'یوسیھوشع' نے اس کو اسرائیل کی تاریخ کا سنگین دور قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ نابلس میں صورتحال انتہائی تشویشناک ہے، اسرائیلی فوج تمام تر کوششوں کے باوجود حالات قابو کرنے میں ناکام ہے۔ اسرائیلی فوج کے ہاتھوں پانچ فلسطینیوں کی شہادت کے بعد خاص طور پر 'عرین الاسود' کے اہم کمانڈر کی شہادت کے بعد سے حالات قابو سے باہر ہیں۔

'یوسیھوشع' کے مطابق گزشتہ دو ہفتوں سے سخت محاصرے کا شکار شہر نابلس اور غرب اردن اور مغربی کنارے کے کئی علاقوں میں شدید کشیدگی ہے۔ حالات اس قدر تشویشناک ہیں کہ اسرائیلی فوج کے سربراہ اویو کوچاوی اور اسرائیلی اندرونی سلامتی کی ذمے دار خفیہ ایجنسی ''شاباک'' کے سربراہ مقبوضہ شہر نابلس کے پرانے شہر میں ایک آپریشن کی نگرانی کر رہے ہیں۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ صورتحال اس سے بہت گھمبیر ہے جو دکھائی جارہی ہے کیونکہ اس قسم کے آپریشنز کی نگرانی ایک ڈویژن کمانڈر کرتا ہے لیکن اسرائیلی فوج اور شاباک کے سربراہان کا براہ راست آپریشن کی نگرانی کرنا واجح کرتا ہے کہ کچھ بھی اچھا نہیں ہے۔

یہاں ایک جانب فلسطینی مزاحمت کاروں کے خطرناک حملے اسرائیلی سلامتی کےلیے سب سے بڑا خطرہ بن گئے ہیں تو دسری جانب اسرائیلی سیاسی صورتحال بھی تشویش کا شکار ہے۔ یہاں سیاسی عدم استحکام کے ساتھ فلاشا یہودی اور اشکنازیوں کے درمیان نسل پرستی نے بھی اسرائیل کو ایک سنگین صورتحال سے دوچار کردیا ہے۔

اسرائیل کی سلامتی کی صورتحال اس قدر گھمبیر ہوچکی ہے کہ 62 فیصد اسرائیلی شہریوں نے اسرائیلی براڈکاسٹنگ کارپوریشن (کینز 11) کی جانب سے کیے جانے والے سروے میں مزاحمت کاروں کے خطرناک حملوں کو صہیونی ریاست کی سلامتی کےلیے تباہ کن قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ اسرائیل اپنی تاریخ کے بدترین دور سے گزررہا ہے اور حالیہ سیکیورٹی کی صورتحال میں اسرائیلی شہری خود کو محفوظ نہیں سمجھ رہے۔

یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ فلسطینی مزاحمت کاروں کی جانب سے یہ حملے صرف مقبوضہ بیت المقدس اور مغربی کنارے کے مختلف شہروں میں ہی نہیں بلکہ اسرائیلی دارالحکومت تل ابیب تک میں کیے جاچکے ہیں۔ فلسطینی مجاہد نے پندرہ روز قبل بین گوریان ایئرپورٹ پر ایک سیکیورٹی اہلکار کو چاقو کے وار سے شدید زخمی کردیا تھا جبکہ ایک اسرائیلی فوجی بس کو بھی فائرنگ کا نشانہ بنایا گیا تھا۔ اس حملے کے حوالے سے بھی اسرائیلی فوج کی جانب سے تفصیلات فراہم نہیں کی گئیِں۔

یہاں فلسطینی مجاہدین کے بہادرانہ حملوں کی تفصیل بہت طویل ہے۔ المختصر یہاں یہ عرض کرنا چاہوں گا کہ مقبوضہ فلسطین کے محصور شہر غزہ کے علاوہ اب فلسطینی مجاہدین ان علاقوں میں بھی آزادانہ کارروائیاں کررہے ہیں جو براہ راست اسرائیلی عملداری میں آتے ہیں۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 800 سے 1,200 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں