متاعِ نیاز

مجھ سے اُن کا پہلا تعارف اس وقت ہوا،جب میں ہائی اسکول کا طالب علم تھا۔یہ شعوری زندگی کا وہ حصہ تھا...


خرم سہیل February 17, 2014
[email protected]

مجھ سے اُن کا پہلا تعارف اس وقت ہوا،جب میں ہائی اسکول کا طالب علم تھا۔یہ شعوری زندگی کا وہ حصہ تھا،جب مجھے یک دم لفظوں سے محبت ہونے لگی۔کتابیں مجھے اپنی طرف بلانے لگیں ،میں کتابوں کی طرف دیوانگی کی حد تک متوجہ ہونے لگا۔کسی بھی نوعمر کے لیے یہ احساس انتہائی دلکش ہوتا ہے۔ وہ ان لفظوں کو پڑھ کر نئی دنیا سے آشنا ہوتاہے۔حروف سے دوستی اسے لطف دینے لگتی ہے۔اس لذت بھرے تجربات میں تلخی جب گھلتی ہے ،جب کتابوں تک رسائی مشکل ہو۔عام طورپر کتابوں تک رسائی نہ ہونے کی دو وجوہات ہوتی ہیں ۔پہلی وجہ کتاب کا دستیاب نہ ہونااور دوسری کتاب خریدنے کی سکت نہ ہو۔غریب قاری کے لیے سب سے سہل راستہ وہ ہے،جو لائبریری کی طرف جائے۔میں نے بھی زمانہ طالب علمی میں اسی راستے کواختیارکیا۔

ایک عرصے تک قاری اور کتاب کے مراسم کو نبھایااورکئی لائبریریوں کو کھنگال کر پڑھ ڈالا۔ان لائبریریوں میں کتابوں کی کثیر تعداد ایک ہی ناشر کی چھاپی ہوئی ہوتی تھی۔یہ وہ زمانہ تھا ،جب یہ ضرورت تھی کہ ہمیں کوئی بتائے کہ کیا پڑھنا چاہیے یا فلاں موضوع پر کون کون سے لکھنے والے معیاری نام ہیں۔اس صورت حال میں اسی ناشر کی چھاپی ہوئی کتابیں راستہ بتانے کے کام بھی آئیں۔جب کچھ مالی حالات بہتر ہونا شروع ہوئے، تو کتابیں خریدنا بھی شروع کردیں اور سرفہرست یہی ناشر رہا،جس سے میں زمانہ ٔ طالب علمی میں متعارف ہواتھا۔

اس ادارے کی چھاپی ہوئی کتابوں پر ایک نام ہمیشہ کنندہ دیکھااور کتابوں کے نام پڑھتے پڑھتے اس نام سے خوب جان پہچان ہوگئی۔گزرتے وقت کے ساتھ یہ اندازہ بھی ہوگیا،اس ناشر کے ہاں معیار پر سمجھوتہ نہیں ہے۔انتخاب بھی کڑا کرتاہے۔کتابوںکے رنگین سرورق کے پیچھے یہ چھپاتا کچھ نہیں بلکہ متن پر بھی جانفشانی سے کام کرتا ہے۔اسی بات نے اعتماد اور بڑھا دیا اور اب میں آنکھیں بند کیے اس ناشر کی چھاپی ہوئی کتابیں خریدنے لگا۔شعور بڑھا تو اندازہ ہوا کہ اس ناشر کی کتاب صرف کسی ایک شہر یا صوبے میں نہیں ،بلکہ پورے پاکستان اوربین الاقوامی سطح پر بھی دستیاب ہوتی ہے۔ملک کے تمام بڑے تعلیمی ادارے اورغیر ملکی جامعات بھی ان کی کتابوں سے استفادہ کرتی ہیں ۔سیراب کی اس کیفیت میں صرف اکیلا میں ہی غوطہ زن نہیں تھا۔

مجھ پر دریافت ہونے والی حروف کی دنیا کا اختتام یہی تک نہیں تھا،بلکہ پاکستان کے نامور قلم کاروں کو اس ادارے سے وابستہ ہوتے اور پھلتے پھولتے دیکھا۔ہر باذوق قاری کے گھر میں اس ناشر کی طباعت شدہ کتابوں کا ذخیرہ دکھائی دیا۔حیرت کا یہ سفر ختم ہونے کو نہیں آرہاتھا۔میں سوچتاتھا،یہ شخص گفتگو اورقدوقامت میں کیسا ہوگا؟

دھیرے دھیرے مجھے اپنے اردگرد سے اس کی شخصیت کے بارے میں خبر ہونے لگی۔کوئی انھیں منشی نول کشور کی تمثیل میں دیکھتاتھا،تو کسی کے لیے وہ کتابوں کارجحان ساز ناشر تھا۔پاکستان کے معروف قلم کار اس ناشر کی سجائی ہوئی محفلوں میں شریک ہوتے تھے۔ جو ایک مرتبہ ان کے پاس آجاتا ، وہ پھر انھی کا ہو جایا کرتا تھا۔ اس ناشر کے ادارے نے معاشرے میں ایسا ممتاز مقام حاصل کیا کہ اردو زبان میں لکھنے والا ہر شخص یہ تمنا کرنے لگا، ایک مرتبہ وہ اس ادارے سے ضرور شایع ہو۔یہی اس ناشر کی طلسماتی کشش تھی،جس نے قلم کاروں کو اپنے سحر میں جکڑ لیا،مگر یہ سحر یہی تک محدود رہتا،تو شاید اتنی دہائی نہ ہوتی ،مگر پڑھنے والے بھی اس اثر میں آتے چلے گئے۔کتاب اورقاری کا رشتہ مضبوط ہوتاچلاگیا۔

یہ پاکستان کا واحد ناشر تھا،جس کے ہاںاردو زبان کے بڑے لکھنے والوں کی تحریریں شایع ہوئیں۔اس نے کلاسیکی لکھنے والوں کو بازیافت کیا۔نئے لکھنے والوں کی عملی حوصلہ افزائی کی۔عصری منظر نامے پر کئی ایک نام گنوائے جاسکتے ہیں ،جن کے پیچھے یہ ناشر اوران کاادارہ نہ ہوتا،تو شاید ان کا بھی اتناشہرہ نہ ہوتا۔ہوسکتاہے ،کسی کو میرے دیکھنے کا یہ زاویہ پسند نہ آئے ، مگرمیں غیرجانبدار ہوکر ایک قاری کی حیثیت سے اپنے خیالات کا اظہار کررہاہوں ۔

ان ناموں کی فہرست لکھنے بیٹھوں ،تواس ترتیب میں انتظار حسین،انورسجاد،اشفاق احمد،رضاعلی عابدی،امجد اسلام امجد،بانوقدسیہ،عبداللہ حسین،رضیہ بٹ،شفیق الرحمن،قدرت اللہ شہاب،اے حمید،سلیم اختر،مستنصر حسین تارڑ،ڈاکٹر یونس بٹ ،کشور ناہید اور دیگر نام شامل ہیں۔کلاسیکی شاعری کے تمام بڑے ناموں کو اہتمام سے شایع کیا۔کلاسیکی نثر کی تمام اصناف کی طباعت کی۔طلسم ہوشربا اورالف لیلیٰ جیسی داستانیں اور کئی طرح کی لغات بھی شایع کیں۔ یہ ساراکام جو کسی سرکار کے کرنے کا تھا یا اُن سرکاری اداروں کا ،جنھیں ان کا محنتانہ ملتاہے،اس کام کو تن تنہا شخص نے سرانجام دیا۔فیروز سنز ایسے معتبر ادارے وقت کی دھول میں گم ہوگئے۔سرکار کے ادبی اداروں نے کتابیں کم اور ردّی زیادہ چھاپی۔ایسے ماحول میں جہاں اشیائے خورونوش کی بہتات ہو ،موبائل خریدنے والے صارفین کی ہجوم ہو،وہاںیہی ناشرتھا،جس نے رجحان ساز فضا قائم کی۔ملکی اوربین الاقوامی سطح پر پاکستانی اشاعتی اداروں میں سب سے قابل ذکر ادارہ یہی ہے،جسے میں اورآپ ''سنگ میل پبلی کیشنز''کے نام سے جانتے ہیں اور اس ناشر کا نام''نیاز احمد''ہے۔

پچاس برس سے یہ ادارہ کتاب سے جڑے ہوئے قارئین کی خدمت میں حروف سجا کر پیش کررہاہے۔اس کام کو کرتے ہوئے اسی خاندان کی تیسری نسل اس کام میں شامل ہوگئی ہے۔کچھ تو بات ہے کہ پوری دنیا سے پڑھنے اورلکھنے والے اس ادارے سے خود کو وابستہ رکھے ہوئے ہیں۔انگریزی یا اردو زبان میں چھپی ہوئی کتابیں ہوں،پرانے شہروں کے نئے تعارف ہوں یا نئی کتابوں کے پرانے ورق ہوں،سب پر کی گئی محنت کا رنگ غالب ہے۔لاہور شہر کی ادبی شہرت دنیا جانتی ہے ،مگر کتابی شہرت کی چمک دمک اسی ادارے کی قسمت کے ستارے میں ہے۔

ایک شکایت اکثر سننے کو ملتی ہے کہ اس ادارے کی چھپی ہوئی کتابوں کی قیمت بہت زیادہ ہے۔یہ شکایت مجھے بھی تھی ،لیکن جب میںبحیثیت قلم کار میں اس ادارے کا حصہ بنااورقریب سے سارے منظر نامے کابغور جائزہ لیاتو مجھے بات سمجھ میں آگئی۔یہ بات بہت سادہ سی ہے کہ یہ ادارہ لکھاریوں کا حق نہیں کھاتا۔پاکستان میں ناشرین کی اکثریت ،جن میں کئی بڑے نام شامل ہیں ،وہ کتاب کے کاغذ، طباعت، جلد بندی اورترسیل پر تورقم خرچ کرتے ہیں اورکتاب فروخت کرکے دوگنا کمابھی لیتے ہیں ،مگر لکھنے والا اس سارے کھیل میں خاموش تماشائی کی حیثیت رکھتاہے۔اس کو کچھ نہیں ملتا،میرے ابھی تک کے تجربات کے مطابق سنگ میل پبلی کیشنز واحد ادارہ ہے جو لکھنے والے کو رائلٹی دیتاہے۔کچھ ناشرین لکھنے والے کوصرف چند کتابوں پر ٹرخاکر اپنا فرض پورا کرلیتے ہیں، صرف یہی نہیں ،بلکہ ایک بہت بڑی ناشرین کی تعداد ایسی بھی ہے،جو کتاب چھاپنے کے پیسے دینے کی بجائے پیسے لیتی ہے۔

جب اس طرح کے ہتھکنڈوں کو استعمال میں لاکرکتابیں چھاپی جائیں ،تو وقتی طورپر قاری کواس کا فائدہ توہوتاہے کیونکہ ایسی کتابوں کی قیمت کم ہوتی ہے ،لیکن اس کم قیمت کے پیچھے کسی لکھنے والے کی محرومی بھی پوشیدہ ہوتی ہے ،جس کا محرک وہ ناشر ہوتاہے،جس نے لکھنے والے کاحق مارا ہوتاہے۔اگر کوئی ادارہ کتاب کے شعبے سے وابستہ ہر شخص کو معاوضہ دے گا،تو کتاب کی قیمت شاید تھوڑی زیادہ ہوگی،لیکن یہ یاد رہے ،اس قیمت میں کسی کے خون پسینے کی محنت کے معاوضے کی محرومی شامل نہیں ہوگی۔

یہ بہت باریک مگر بہت اہم بات تھی،جس کو نیاز احمد نے ساری زندگی اپنے کاروباری منشور میں شامل رکھا،یہی وجہ ہے، صرف ان کے کاروبار میں خاندان کی تیسری نسل ہی شامل نہیں ہوئی ،بلکہ شایع ہونے والوں کی فہرست میں بھی نسل در نسل اضافہ ہوا۔ہائی اسکول کی لائبریری میں سنگ میل پبلی کیشنز کی کتابیں پڑھنے والایہ راقم آج اس ادارے کا قلم کار ہے۔نیاز احمد چلے گئے،میرادل کرتاہے ،میں ہائی اسکول کی اس لائبریری کو دیکھنے جاؤں ،جس نے مجھ پر اس عظیم آدمی کی چھاپی ہوئی کتابوں کی دنیا کو متعارف کروایاتھا۔

میں جب بھی سنگ میل پبلی کیشنز کی کوئی کتاب کھولتا ہوں ،مجھے نیاز صاحب کی زندگی کے اوراق کھلتے ہوئے محسوس ہوتے ہیں ۔ کسی بھی جامعہ کا تحقیقی مقالہ اٹھا کر دیکھ لیں ،یا کسی دانش ور کے تحقیقی مضمون کے حوالہ جات کو جانچ لیں،اس میں اکثریت ایسی کتابوں کی ہوگی ،جنھیں اس ادارے نے چھاپا ہوگا۔ان کتابوں میں نیازاحمد کی مہک شامل ہے۔زندہ وجاوید لوگ کبھی نہیں بچھڑتے۔یہ لوگ رنگوں میں رہتے ہیں ،حروف میں بولتے ہیں ،لہجوں میں کھنکتے ہیں ،صرف یہی نہیں ،ان کی کتابیں لائبریروں،کتب فروشوں کی دکانوں اورباذوق قارئین کی الماریوں میں پڑھنے کی متلاشی آنکھوں کی منتظر ہوتی ہیں۔نیاز احمدکئی نسلوں کی متاع نیاز تھے۔بقول شاعر۔

وہ تیرگی بھی عجیب تھی،
چاندنی کی ٹھنڈی گداز چادرسے ساراجنگل
لپٹ رہاتھا...

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں