اردو ادب کے استعارے اورہم

اردو ادب میں حشرات الارض،پرندوں اور حیوانات کے استعارے استعمال کرنا کوئی انوکھی بات نہیں ہے


خرم سہیل January 28, 2014
[email protected]

چوہے اور بلی کے کھیل میں سب سے اہم بات چالاکی کاہونا ہے۔یہ ایسا کھیل ہے،جس میں چوہا کمزوری کی علامت اور بلی طاقت کا سرچشمہ ہوتی ہے ، مگر چوہے کی دانش مندی کبھی کبھارکہانی میں بلی کے لیے مشکلات کھڑی کردیتی ہے۔ایسی کئی اورکہانیوںکی تخلیق کے دوران کھیل ہی کھیل میں سارے گُر آزمالیے جاتے ہیں،جیسے خرگوش نہیں جانتاتھاکہ وہ کچھوے کی مستقل مزاجی سے ہارجائے گا۔کہانی میں کچھوے کی جیت خرگوش کے امیدوں پر نہ صرف پانی پھیرتی ہے،بلکہ اس کے غرور کو بھی خاک میں ملادیتی ہے۔اس چومکھی لڑائی میں کامیابی وہی کردارحاصل کرتے ہیں،جنھیں بصارت سے زیادہ بصیرت پر دسترس ہوتی ہے۔

ہمارے معاشرے میں اب کوئی بھی شعبہ اس چومکھی لڑائی سے پاک نہیں رہا۔سیاست تو اس لڑائی کا اپنا گھر ہے،جہاں سے یہ روز جنم لیتی ہے،لیکن پریشانی کی بات یہ ہے، سیاست نے بھی اُس سانپ کی طرح کئی روپ دھار لیے ہیں،جس کے بارے میں کہا جاتاہے کہ سوسال گزرنے کے بعد یہ انسان کی صورت اختیار کرنے کی صلاحیت حاصل کرلیتاہے۔

سیاست کے روپ دھارے عیاری اورمکاری میں ماہر حضرت انسان بھی بہروپ بدلنے لگاہے۔کبھی یہ کہانی میں چوہا بن جاتاہے اورکبھی بلی،کہیں یہ خرگوش کاروپ دھارتاہے اورکسی وقت یہ کچھوے کی چال چلتاہے۔ آپ جیتنے کی خواہش رکھتے ہیں،تواس کھیل میں چال سے زیادہ چال باز ہونا ضروری ہے ۔اس کہانی میں آستین کے سانپ سے بھی بارہاسامنا ہوگا۔یہ سانپ کبھی علمی خزانے پر بیٹھا دکھائی دے گا،تو کبھی اسے آپ رویوں میں رینگتاہوا محسوس کریں گے۔

گزشتہ برس معروف افسانہ نگار اورنثری نظم کے شاعر احمد ہمیش کاانتقال ہوا۔ان کی افسانوں کی کتاب کاعنوان''کہانی مجھے لکھتی ہے'' تھا،جس کے کئی افسانے اردو ادب کی شان ہیں،لیکن اس افسانوی مجموعے میں انھوں نے حقیقتوںکویوں بیان کیا،ایسا لگتاہے کہ یہ کہانیاں اسی عہد کے لیے لکھی گئی ہیں،جہاں اب آدم زاد خودغرضی کے سوبرس پورے ہونے کے بعد آدمیت سے دستبردار ہوچلے ہیں۔اب یہ آستین کے سانپ بن گئے ہیںیا ریس کے گھوڑے اورکہیں کولہو کے بیل،جنھیں مادی مشقت سے فرصت نہیں۔جن کے اذہان اب تعصب سے اٹے ہوئے ہیں۔ان کے علم سے طالب علموں کے پر جلتے ہیں۔احمد ہمیش نے اپنی کہانیوں کے مجموعے میں گائے،کتا اورمکھی جیسے کرداروںکے استعاروں کواپناکرکہانیاں تحریر کیں۔ان کے افسانے ''کہانی مجھے لکھتی ہے''کی یہ چند سطور پڑھیے،کہانی کی اس سے عمدہ تعریف کیاہوسکتی ہے۔لکھتے ہیں۔

''کیامطلب؟''

''مطلب یہ کہ مصنف صرف بیان کرتا ہے اورمیں بیان کو جنم دیتی ہوں۔میں بیان کی ماں ہوں۔''

''اگر تم بیان کی ماں ہو تومیں کیاہوں؟''

''تم خود ایک بیان ہو۔یہ دھرتی بھی ایک بیان ہے اوراس پر جنم لینے والے بہت سے آدمی بھی بیان ہیں اوربہت سے آدمیوں کومستقل بیان کیاجاتاہے اورانھیں موت تک یہ معلوم نہیں ہوپاتا کہ انھیں کہاں ،کیسے اورکیوں بیان کیاگیا۔''

احمد ہمیش کی اس کہانی میں مکالمہ بہت کچھ بیان کرتاہے۔اسی طرح ان کی ایک اورکہانی''مکھی''بھی ایک عجیب، مگر حقیقی صورت حال کی وضاحت کرتی ہے۔ ایک شخص کسی محفل میں بیٹھا ہے ،جمائی لینے کے دوران اس کے منہ کے راستے جسم کے اندر مکھی چلی جاتی ہے، پھراسے یوںمحسوس ہوتاہے ، وہ مکھی اس کے اندر ہی بھنبھنارہی ہے۔اس کہانی کو پڑھ کر احساس ہوتاہے، کبھی انسانوں میں یہ مکھی ضمیر کی شکل میں ہواکرتی تھی،جسے خودغرضی اورجھوٹ کے کفن میں لپیٹ کر دفنادیا گیا۔

اردو ادب میں حشرات الارض،پرندوں اور حیوانات کے استعارے استعمال کرنا کوئی انوکھی بات نہیں ہے۔انتظار حسین کی ایک کہانیوں کے مجموعے کا نام ''کچھوے''ہے اوران کاافسانہ''زرد کتا''کسے بھول سکتا ہے۔ڈاکٹر انورسجاد کی کہانیوں میں گائے، کتا، بچھو کے استعارے ملتے ہیں،بلکہ ان کے افسانوں کے ایک مجموعے کانام ہی''استعارے'' ہے۔ منشا یاد کے افسانوں میں جگنو،فاختہ،سانپ، بچھوکے کردار جابجا بکھرے ہوئے ملتے ہیں۔زاہدہ حنا کی کہانیوں کامجموعہ ''تتلیاں ڈھونڈنے والی''میں بھی تتلی کے خوبصورت استعارے سے کہانی کے کردار دل میں اترتے محسوس ہوتے ہیں۔یہ اداس کہانیاں بے حد دلکش اداسی کا مجموعہ ہیں۔

اردو ادب میںاپنی کیفیات کوبیان کرنے کے لیے لکھاریوں نے کہیں''کہانی'' اورکسی مقام پر لفظ ''افسانے'' کاانتخاب کیا۔سعادت حسن منٹو اپنے لیے اکثر کہتے تھے ''میں افسانہ نہیںسوچتا، افسانہ خود مجھے سوچتا ہے۔'' ان کی کہانی''منگوکوچوان''میں بھی تانگے گھوڑے کے استعارے کو مرکزی حیثیت حاصل ہے۔کسی مصنف نے کہانیوں میں استعاروں سے کرداروں کو بیان کیااورکوئی ''لفظ''کہانی کو ہی استعارے کے طورپر استعمال کرتادکھائی دیا۔ڈاکٹر طاہر مسعود کی کہانیوں کے مجموعے''گمشدہ ستارے''میںکہیں ''کہانی کی تلاش''کی کیفیت ہے اورکہیں''ایک الجھی ہوئی کہانی ''ہے۔ زیب اذکار کے ہاں''کہانی کو الوداع کہتے ہوئے '' جیسی عمدہ کہانی پڑھنے کو ملتی ہے۔عرفان جاوید کے مجموعے ''کافی ہائوس''میں''جنگل کہانی''اور''ایک منی سی کہانی''بھی اسی روایت کی شاندار تمثیل ہیں۔

مظہرالاسلام کے ہاںتواستعاروں کا ایک طویل صحرا ہے،جس میں داخل ہوجائیں ،توواپسی کاراستہ نہیں ملتا۔ان کی کہانیوں میں تتلی، چڑیا، کبوتر، گھوڑے اورگدھے جیسے حیوانات اورپرندوں کی علامتیں جابجا استعمال ہوئی ہیں۔اسی طرح لفظ کہانی کو انھوں نے بے حساب لکھا ہے۔ ان کی چند ایک کہانیوں کے عنوانات کچھ یوں ہیں۔کہانی کیسے بنی؟کہانی سے باہر گراہوابابا،میری کہانی لکھو،کردار سے روٹھی ہوئی ایک کہانی،ایک کہانی بھلادینے کے لیے،کہانی کی مٹھی میں ڈراما اوردیگر کہانیاں شامل ہیں۔

اسی تکنیک کو اپناتے ہوئے حسن منظر کی کہانی ''لاٹ صاحب''میں بندر اوربندریا کاکردار بھی اسی تمثیل کاغمازی ہے۔اشفاق احمد کا افسانہ ''گڈریا'' بھی ایک ایسے چرواہے کی داستان ہے۔ بانو قدسیہ کا ناول ''راجاگدھ''اردو کے دس بہترین ناولو ں میں شمار ہوتا ہے۔اس ناول میں بانو قدسیہ نے چرند پرند کی ایک پوری دنیا سجائی ہے اوراستعارے کی بنیاد پر انسانی نفسیات کو بہترین طریقے سے بیان کیاہے۔اسی طرح برطانوی ادیب جارج آرویل کا ناول''اینیمل فارم '' بھی مختلف حیوانات کے استعاروں کے حوالے سے ایک بہترین تحریری فن پارہ ہے،جسے پڑھتے ہوئے قاری عش عش کراٹھتاہے۔

اردو ادب میں ایک زمانے تک یہ استعارے تخلیق کیے جاتے رہے،مگر نہ جانے پھر کیاہوا،لکھنے والوں کی اکثریت خودانہی استعاروں کاشکار ہوگئی۔کوئی لکھنے والا گیڈر بن گیااورکسی نے لومڑی کی روش اپنا لی۔کسی نے کچھوے کا راستہ روکنے کی کوشش کی اورکوئی خرگوش اس زعم میں منزل کے راستے میں پڑائو ڈالے سوگیا کہ منزل تک پہنچنے کی جیت اس سے کوئی چھین نہیں سکتا۔اب ہمیںادب کے منظر نامے پراکثراس نوعیت کے کردار دکھائی دیتے ہیں۔اس لیے زندگی اب ایک کہانی میں تبدیل ہوگئی ہے،جس میں کچھوے اورخرگوش کی دوڑ ہے اورروپ بدلے علمی سانپوں کے بانجھ رویے ہیں۔ادب وثقافت کے ادارے ہوں،یا پھر علمی اداروں کے سرکردہ لوگ،ادبی شعبے کی نامور اورماہر شخصیات ہوں،یاپھر نوآموز اورنوجوان مصنف،لکھنے کی ابتدا کرنے والا کہانی کار ہو یا اس کی کتاب کو چھاپنے والا ناشر،ادبی رسالے ہوں یا ادبی صفحات کے نام نہاد شاعروادیب نماصحافی،ان سب سے معاملات بناکر رکھنا ا ب لکھنے والے کی مجبوری بنتاجا رہا ہے،کیونکہ اب بزرگی کی جگہ صرف بڑھاپا رہ گیاہے۔زندگی کی کہانی میں کردار بوڑھے ہونے لگے ہیں۔

اس سارے ماحول میں کچھ جنونی اپنے دھن میں کام کر رہے ہیں،وہ ہی ادب وثقافت کی لاج ہیں ،ورنہ گروہ بندی اپنے رنگ ڈھنک سے عروج کا سفر طے کیے ہوئے ہے۔یہ بھی ادب اور ثقافت کی کہانیوں کے پس پردہ کردار ہیں،جن سے میں کبھی پردہ اٹھائوں گا۔اس راستے پر چلنے کے لیے نئے لکھنے والوں کو خاص طور پر اس کے نشیب وفراز سے واقف ہونا لازمی ہے،ورنہ ادبی دنیا کی سفاکی جھیلنا مشکل ہوجاتی ہے۔

ادب اور معاشرے کے کردار آپس میں گھل مل گئے ہیں،اسی لیے ادب پڑھیں، تو زندگی کا احساس ستاتا ہے اور زندگی کو محسوس کریں ،تو ادب کی یاد تنگ کرتی ہے۔ان دونوں کے بیچ میں عیاری اورفریب کی دیواریں کھڑی کردی گئی ہیں۔یہ دکھائی نہیں دیتیں،لیکن موجود ہیں۔چوہے اور بلی کے کھیل کو صرف ادبی تخلیق تک محدود رکھنا ہی بہتر ہوتا ہے،حقیقی زندگی میں صرف محبت کے کرداروں کی تحسین ہونی چاہیے،مگر کیا کریں ،کہانیاں لکھنے والوں کی اکثریت کرداروں کو تراشتے ہوئے انھیں میں قید ہوگئی ہے۔اب استعارے ان مقید تخلیق کاروں کے رویوں میں رہتے ہیں،چالاک لومڑی کی طرح،شاطر خرگوش کے جیسے،جن کو صرف اپنی منزل دکھائی دیتی ہے۔انھیں ادب کی پرواہ ہوتی ہے نہ نو وارد ادب زادوں کی۔یہ برہنہ حقیقت بھی زندگی کے کرداروں سے گندھی ہوئی ایک کہانی ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں