جمہوریت کیوں ضروری ہے

جمہوریت کی بنیاد اکثریت کی حکمرانی کے اصولوں پر رکھی جاتی ہے۔


جبار قریشی August 13, 2021
[email protected]

نظام حکومت کے حوالے سے ہمارے یہاں آج بھی یہ بحث جاری ہے کہ پاکستان کا نظام سیاست کیا ہونا چاہیے۔

سب سے زیادہ پر زور آواز جس نظام حکومت کے حق کے نفاذ کے حق میں دی جاتی ہے وہ بلاشبہ اسلام کا نظام حکومت ہے لیکن اس ضمن میں یہ دیکھا گیا ہے کہ اس کا مطالبہ تو بڑے پرزور انداز میں کیا جاتا ہے لیکن یہ وضاحت کرنے کی کوئی کوشش نہیں کرتا کہ اسلامی طرز حکومت کی حقیقت کیا ہے۔

اس کے خد و خال کیا ہیں، اسے ترتیب کیسے دیا جاتا ہے، اس کا نفاذ کس طرح ممکن ہے۔بعض تجزیہ نگاروں کے مطابق ایسے حالات میں جمہوریت ہی وہ واحد سیاسی نظام ہے جس کے ذریعے کسی ملک میں نہ صرف مستحکم حکومت تشکیل دی جاسکتی ہے بلکہ اس کے ذریعے سیاسی استحکام حاصل کرکے ملک کو خوشحالی کے راستے پر ڈالا جاسکتا ہے۔

جمہوریت کی بنیاد اکثریت کی حکمرانی کے اصولوں پر رکھی جاتی ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ افراد اقلیتوں کے بنیادی حقوق کا بھی تحفظ کیا جاتا ہے۔ جمہوری نظام میں قانون سازی کے وقت نہ صرف عوام کی بھلائی اور فلاح کا خیال رکھا جاتا ہے بلکہ سماجی، ثقافتی، روایات، عوامی مزاج اور بین الاقوامی سطح کے قابل قبول رویوں کا خیال رکھتے ہوئے قانون سازی کی جاتی ہے۔

شخصی حکمرانی پر مبنی نظام حکومت کے سربراہ ایک عام آدمی کی ضروریات اور تقاضوں سے لاتعلق ہو سکتے ہیں لیکن جمہوری نظام میں فرد واحد یا ادارے کے تمام اختیارات اور اقتدار کا مرکز بننے کی اجازت نہیں دی جاتی بلکہ علاقائی اور مقامی سطح پر اقتدار کو تقسیم کرکے اس کی مرکزیت کو ختم کردیا جاتا ہے۔

جمہوری نظام میں حکمران کو بخوبی علم ہوتا ہے کہ جتنا عرصہ وہ اقتدار پر فائز ہے اسے اپنے عوام کو ہر ممکن سہولتیں فراہم کرنی ہوں گی اگر وہ ایسا نہیں کرے گا تو آیندہ انتخابات میں عوام اس کو مسترد کرکے دوسری نئی قیادت کو منتخب کرکے لے آئیں گے اور وہ اقتدار سے اتر کر عوامی احتساب کی زد میں آسکتا ہے ،اس کے لیے وعدے پورے کرنا ،اس کی ذمے داری ہی نہیں بلکہ مجبوری بن جاتا ہے۔ یعنی ذمے داری یا مجبوری کو ملک کو خوشحالی کے راستے پر گامزن کردیتا ہے۔ بدقسمتی سے ہمارے یہاں ایک بڑی تعداد ایسی بھی ہے جو جمہوری نظام کی مخالفت کرتی نظر آتی ہے۔

مخالفین کے نزدیک یہ مغرب کا نظام سیاست ہے جس کی نمایاں خامی یہ ہے کہ اس میں آرا کو تولنے کے بجائے ان کی گنتی کی جاتی ہے جمہوریت میں ہر ایک کو رائے دینے کا حق ہوتا ہے چاہے اس کی ذہنی سطح احمقوں میں ہی شمار کی جاتی ہو۔ میرے نزدیک دنیا میں اگر اس سے بہتر سیاسی نظام موجود ہو تو اس نظام کو مسترد کیا جاسکتا ہے اب تک کے سیاسی تجربات نے یہ ثابت کیا ہے کہ اپنی خامیوں کے باوجود جمہوریت ہی بہترین نظام سیاست ہے۔

سوال یہ ہے کہ ہمارے یہاں جمہوریت کے حوالے سے غیر جمہوری رویہ کیوں پایا جاتا ہے، اس کی بڑی وجہ ہمارے یہاں مارشل لا کا بار بار نفاذ رہا ہے جس کے نتیجے میں جمہوری روایات کو تسلسل کے ساتھ پنپنے اور قوت پکڑنے کا موقعہ نہیں مل سکا۔ ہمارے یہاں جمہوری دور بھی رہا ہے لیکن وقتاً فوقتاً اس کی نشوونما میں دخل اندازی کی جاتی رہی، جس کی وجہ سے جمہوریت کے وہ ثمرات سامنے نہ آسکے جو آنے چاہیے تھے جس کے نتیجے میں عام آدمی جمہوریت سے بدظن ہوا اور غیر جمہوری رویہ فروغ پایا۔

سوال یہ ہے کہ جمہوریت کے استحکام کے لیے کیا کیا جانا چاہیے۔ میرے نزدیک جمہوریت کے استحکام میں انتخابات ایک کلیدی کردار ادا کرتے ہیں، جمہوری حکومتوں کے تحت آزادانہ اور منصفانہ انتخابات باقاعدگی سے ہوتے رہتے ہیں ،جس میں رنگ، نسل کا امتیاز کے بغیر ملک کا ہر شہری پوری آزادی سے حصہ لیتا ہے اس لیے ضروری ہے کہ سب سے پہلے اس عمل کو صاف اور شفاف بنایا جائے اسی صورت میں ہی اہل اور مخلص قیادت میسر آسکتی ہے۔کسی حکومت کی کامیابی اور ناکامی کا انحصار اس کی معاشی پالیسیوں کی کامیابی یا ناکامی پر ہوتا ہے۔

عوام ووٹ ہی اس لیے ڈالتے ہیں کہ ان کے منتخب نمایندے ان کی زندگی کو کسی حد تک سکھی اور خوشحال بنا دیں۔ جمہوری حکومت میں جو حکومت عوام کے معاشی مسائل حل کرنے میں ناکام ہوتی ہے وہ میدان سیاست سے آیندہ انتخابات میں باہر ہو جاتی ہے۔ اس لیے معاشی پالیسیوں پر توجہ دینے اور اس پر عمل پیرا ہونے کی صورت میں ہی سیاسی استحکام حاصل کیا جاسکتا ہے۔

انتخابات میں وعدہ کرنا سیاسی جماعتوں کی ضرورت ہوتی ہے، ان وعدوں کو پورا کرنے میں وہ کس حد تک کامیاب ہوتی ہیں، اس کا انحصار مدت اقتدار کے علاوہ ملکی حالات کے ساتھ خارجی عوامل پر بھی ہوتا ہے اگر تمام حالات حکمران کے حق میں ہوں تو وہ کسی حد تک کامیابی حاصل کرلیتا ہے یہ اسی صورت میں ممکن ہے کہ سیاسی عمل تسلسل سے جاری رہے اور اس میں مداخلت نہ کی جائے اسی صورت میں ہی سیاسی استحکام حاصل ہوسکتا ہے۔

کسی ملک میں سیاسی جماعتوں کو بنیادی حیثیت حاصل ہوتی ہے ،سیاسی استحکام کے لیے مضبوط سیاسی جماعتوں کا وجود ضروری ہے۔ سیاسی جماعتیں ملک میں پائے جانے والے مختلف رویوں، افکار اور امنگوں کی نمایندگی کرتی ہے ،اسی لیے ان کے مابین اختلافات کو جمہوریت کا حسن اور خوبصورتی قرار دیا جاتا ہے۔

سیاسی طور پر مستحکم ممالک میں چند ہی بڑی جماعتیں دیکھنے میں آتی ہیں اس کے علاوہ چھوٹی جماعتیں بھی ہوتی ہیں ان کا ووٹ بینک اور اثر و رسوخ اس قابل نہیں ہوتا کہ وہ ملکی نظام اور حالات پر کوئی اثر ڈال سکیں اس لیے انتخابات میں عمومی طور پر وہ بڑی پارٹی کی چھتری تلے آ کر اپنے مطالبات منوانے اور اس پر عملدرآمد کرنے کی کوشش کرتی ہیں اور یوں ملک میں سیاسی عمل جاری رہتا ہے اور سیاسی بے چینی اور گھٹن کا خاتمہ ہوتا ہے اور ملک کو سیاسی استحکام حاصل ہوتا ہے۔

میرے نزدیک سیاسی جماعتیں اسی صورت میں ہی مضبوط اور مستحکم ہو سکتی ہیں جب وہ اختلاف رائے اور مخالفت کے فرق کو سامنے رکھیں ،سیاست میں مخالفانہ رویہ ایک حد سے گر جائے تو خطرناک ہو جاتا ہے جہاں ایک دوسرے کو نیچا دکھانے اور زیر کرنے کی کوشش حقائق اور سچائی سے منہ موڑ لیتی ہے اور انسان ایسی چمگادڑ بن جاتا ہے جسے روشنی بھی اندھیرا دکھائی دیتا ہے جمہوری معاشرہ اعتدال، برداشت، تعاون، سمجھوتہ کے اصولوں پر یقین رکھتے ہیں انھیں علم ہوتا ہے کہ کسی مسئلے پر اتفاق رائے حاصل کرنے کے لیے سمجھوتہ کرنا ناگزیر ہوتا ہے ۔

اس لیے اختلافات کو خندہ پیشانی سے برداشت کیا جاتا ہے اور باہمی تعاون کی فضا پیدا کرکے ماحول کو اتفاق رائے کے لیے سازگار بنایا جاتا ہے پاکستان میں اسی جمہوری رویے کی کمی ہے جس کی وجہ سے پاکستان سیاسی استحکام حاصل نہ کرسکا ،اگر ہم نے آج بھی اپنے رویے پر غور نہیں کیا اور یہ رویہ جاری رہا تو یاد رکھیے پاکستان کبھی سیاسی استحکام حاصل نہیں کرسکے گا۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں