فوج ملکی سلامتی کیخلاف کام کرنیوالوں کو گرفتار کر سکے گئ قانون 2ہفتوں میں نافذ ہوگا

فاٹاسمیت ملک بھرمیں اطلاق ہوگا،مشترکہ تحقیقاتی ٹیمیںبنیںگی جن میں.ایک پولیس افسر،2 فوجی افسرشامل ہونگے.


Ghulam Nabi Yousufzai January 22, 2014
فاٹاسمیت ملک بھرمیں اطلاق ہوگا،مشترکہ تحقیقاتی ٹیمیںبنیںگی جن میں.ایک پولیس افسر،2 فوجی افسرشامل ہونگے۔ فوٹو پی پی آئی:فائل

شورش زدہ علاقوں میں ملزمان کی گرفتاریوں اور استغاثہ کیلیے قانون اگلے 2 ہفتے میں نافذ ہونے کا امکان ہے، اٹارنی جنرل آج (بدھ کو) اس بارے میں سپریم کورٹ میں رپورٹ پیش کرینگے۔

ذرائع سے معلوم ہوا ہے کہ شورش زدہ علاقوں میں سیکیورٹی اداروںکے زیر حراست افرادکو سامنے لانے اور ان پر مقدمہ چلانے کے بارے میں سپریم کورٹ کے10دسمبر 2013 کے حکم پر عملدرآمدکیلیے منگل کو وزیر دفاع خواجہ آصف کی سربراہی میں خصوصی کمیٹی کا دوسرا اجلاس ہوا جس میں اٹارنی جنرل سلمان بٹ بھی شریک تھے۔ذرائع کے مطابق اجلاس میں ملاکنڈ حراستی مرکز سے اٹھائے گئے35 قیدیوں، لاپتہ افراد،شورش سے موثر انداز میں نمٹنے اور ملک کی سلامتی کو ہر حال میں یقینی بنانے کیلیے مجوزہ قانون پر تفصیلی تبادلہ خیال ہوا۔ذرائع کے مطابق عدالت کے حکم کے تابع قانون سازی کے بارے میں فیصلہ کیا گیا ہے کہ قومی سلامتی اور پروٹیکشن آف پاکستان کے نام سے نئے قانون کی منظوری جلد ہی پارلیمنٹ سے لے کر یقینی طور پر اگلے2ہفتے میں لاگوکر دیا جائے گا۔ذرائع کے مطابق اس مجوزہ قانون کا اطلاق پورے ملک بشمول وفاق کے زیر انتظام قبائلی علاقوں پر ہوگا اور فوری طور پر نافذالعمل ہوگا۔ذرائع کے مطابق اس قانون کے تحت پولیس کے علاوہ سول حکومت کی مددکیلیے مسلح افوج کو بھی کسی بھی ایسے شخص کو وارنٹ کے بغیرگرفتارکرنے کا اختیار ہوگا۔



جن پر پاکستان کی سلامتی کیخلاف کام کرنے،تشدد اور دہشتگردی میں ملوث ہونے،نسلی، مذہبی منافرت پھیلانے،بم دھماکے کرنے،پولیس اور مسلح افواج پر حملے کرنے،ریاست کے اثاثوںکو نقصان پہنچانے، اغوا برائے تاوان کی وارداتوں میں ملوث ہونے،اقلیتوں، صحافیوں، پارلیمنٹیرین اور عدلیہ کو خوفزدہ کرنے اور معاشرے میں خوف پھیلانے کا الزام ہوگا۔ ذرائع کے مطابق گرفتار ملزمان ریمانڈکیلیے اسپیشل مجسٹریٹ کے سامنے پیش کیے جائیںگے اور انھیں90 دن تک حراست میں رکھا جا سکے گا۔ملک بھر میں اس قانون کے تحت گرفتار افراد پر مقدمہ چلانے کیلیے خصوصی عدالتیںاورخصوصی تفتیشی ایجنسی قائم کی جائے گی۔متعلقہ صوبے کی ہائیکورٹ کے چیف جسٹس کی مشاورت سے سپیشل جج اور پراسیکیوٹر جنرل کا تقرر ہوگا ۔ہر مقدمے کی تفتیش جوائنٹ انویسٹی گیشن ٹیم کرے گی جو ایک اعلیٰ پولیس افسر اور مسلح افواج کے دوافسران پر مشتمل ہوگی۔ ذرائع نے بتایا کہ اگر اس مجوزہ قانون کے تحت دائر مقدمے میں پراسیکیوٹر وفاقی حکومت کی منظوری سے ٹرائل کے کسی بھی مرحلے پرکیس واپس لے گا تو اسپیشل جج کیس واپس کرنے کے پابند ہوںگے اور ملزم کیخلاف مقدمہ ختم ہو جائے گا اور وہ بری تصور ہوگا۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں