غریب کی غربت

اللہ تعالیٰ کا شکر ہے، میں نے غربت کو قریب سے دیکھا، میں کل اور آج بھی غریب ہوں


ایم قادر خان February 19, 2021
اللہ تعالیٰ کا شکر ہے، میں نے غربت کو قریب سے دیکھا، میں کل اور آج بھی غریب ہوں

LA PAZ: دوست کہنے لگا اللہ تعالیٰ کا شکر ہے، میں نے غربت کو قریب سے دیکھا، میں کل اور آج بھی غریب ہوں۔ غریب کے بچے کھیلتے نہیں کام کرتے ہیں یہ بات صحیح ہے۔ میں نے مختلف دکانوں پر بچوں کوکام سیکھتے اورکرتے ہوئے دیکھا جن کی عمر ساری کام کرتے ہوئے گزر جاتی ہے۔ بچپن سے غربت میں رہے ہیں اور دیکھ رہے ہیں بجائے کم ہونے کے بڑھتی جا رہی ہے۔ جب تک اسلامی شریعت نہیں آئے گی غربت دور نہیں ہوگی، اسلامی نظام نافذ ہوگا تو غربت دور ہوتی جائے گی۔ میرے دوست نے صحیح کہا غربت اللہ کے قریب لیکن ان دولت مندوں سے دور ہے۔ نہ جانے انسان مال و زر پر اتنا اکڑتا ہے، اتراتا ہے جو اگر حلال ہے تو حساب دینا پڑے گا اور اگر ناجائز ہے تو عذاب سہنا پڑے گا۔

چارہ گروں کی محفل میں لگا کے زخم، نمک کا مساج کرتے ہیں، غریب ترستا ہے ایک نوالے کو اور امیر کے کتے بھی راج کرتے ہیں۔ خدا رزق دیتا ہے کیڑے کو پتھر میں تو پھر بھی انسان کیوں پریشان رہتا ہے۔ ہیرے موتی کے چکر میں اڑا جاتا ہے آسمان میں نہ لگا غوطہ سمندر میں اتنا ہی ملے گا جتنا لکھا ہے مقدر میں۔ تقریباً اٹھارہ ہزار مخلوقات میں سے صرف انسان ہی پیسہ کماتا ہے، کوئی مخلوق کبھی بھوکی نہیں رہتی اور انسان کا کبھی پیٹ نہیں بھرتا۔ روٹی امیر شہر کے کتوں نے چھین لی، فاقہ غریب شہر کے بچوں میں بٹ گیا چہرہ بتا رہا تھا اسے مارا ہے افلاس نے، حاکم نے یہ کہا کہ کچھ کھا کر مر گیا۔ غریب ماں اپنے بچوں کو بڑے پیار سے یوں مناتی ہے پھر بنا لیں گے نئے کپڑے، یہ عید تو ہر سال آتی ہے۔ مزدور کے ماتھے پر پسینہ دیکھا کسی نے رشوت کی کمائی سے محل تعمیر کرلیا۔ آنسو بہا کر بھی ہوتے نہیں کم کبھی امیر ہوئی ہیں آنکھیں غریب کی۔

نظام بدلنے تک یہ درد بھی سہنا ہے، مزدور کے بچے کو مزدور ہی رہنا ہے۔ جس کا ایک ہی لڑکا ہو بھوکا آٹھ پہروں سے، سنائیں اہل دانش وہ گندم لے یا تختی لے۔ اس کے نام پہ چھٹی ہوگی وہ کام پر جائے گا میرے دیس میں، آج مزدوروں کا دن منایا جائے گا۔ روٹی ڈھونڈتا ہوا کوڑے کے ڈھیر پر دیکھا میں نے ایک چاند کا ٹکڑا ابھی ابھی۔ خوشی ہماری ہوتی نہیں وابستہ کھلونوں سے غریب لوگ، مسکراتے ہیں خودی کو مسکراتا دیکھ کر۔ غریب کی غربت اڑاتی ہے فن کا یوں مذاق بدکرداروں کے مال و زر نے عیب چھپا رکھے ہیں۔ غربت میں ہر وہ رشتہ ٹوٹ جاتا ہے جو خاص ہوتا ہے۔ ہزاروں یار بنتے ہیں جب مال و زر پاس ہوتا ہے۔

اس دور میں مزدور سے کوئی دربدر نہیں جس نے سب کے گھر بنائے اس کا کوئی گھر نہیں۔ بھوک، افلاس، تنگ بستی میں تو ذرا جا کر تو دیکھو وہاں بچے تو ہوتے ہیں مگر بچپن نہیں ہوتا۔ حصے میں کتابیں آتی ہیں نہ کھلونے، خواہش رزق نے چھین لیا بچپن ان سے۔

غربت غریب کے بچوں کو سکھا دیتی ہے سہمے ہوئے رہتے ہیں ان سے شرارت نہیں ہوتی۔ اے اللہ غریب پر امیر شخص نے یہ ستم کیا کیوں؟ غریب کا بچہ بھوکا ہو، بتاؤ مفکر، مبلغ، اہل دانش وہ کب روٹی لے یا کتاب۔ بچے بھی غربت کو سمجھنے لگے ہیں شاید اب جاگ بھی جاتے ہیں تو سحری نہیں کھاتے۔ کسی کی آنکھ بھی کھلتی ہے سونے کے گھر میں جب کہ کسی کو گھر بنانے میں زمانے گزر جاتے ہیں۔

فقیروں سے ہی کرتے ہیں تجارت جو ایک پیسے میں لاکھوں کی دعا دیتے ہیں۔ غریب تو بھوک میں جراثیم بھی کھا لیتے ہیں۔ حقیقت کچھ اور ہی ہوتی ہے ہر گم صم انسان پاگل نہیں ہوتا۔ بھوک پھرتی ہے غریب کے ننگے پاؤں رزق ظالم کی تجوری میں چھپا بیٹھا ہے۔ میں نے پوچھا ہندو ہو یا مسلمان بھیانک ترین جواب ملا بھوکا ہوں جناب۔ چند لوگ بڑے منافق ہیں غریب کے سچ پر بھی اعتماد نہیں کرتے اور امیر کے جھوٹ پر بھی صداقت کی مہر لگا دیتے ہیں۔

آج کل ضرورت طے کرتی ہے کہ لہجہ کتنا میٹھا رکھنا ہے، تعلق اور ظرف کا پتا تعلق کے بگڑنے پر رہتا ہے۔ انسانیت وہ چیز ہے جو دشمن کو بھی سہارا دینے پر مجبور کر دیتی ہے اور احساس وہ چیز ہے جس میں غیر کا دکھ بھی اپنا لگتا ہے۔ جس شخص پر اندھا اعتماد ہو وہی شخص سبق دے کر چلا جاتا ہے کہ واقعی ہم اندھے ہیں۔

بہترین آنکھ وہ ہے جس سے انسان اپنے اندر جھانک سکے، انسان کے حالات اچھے ہو جائے تو لوگ بھی اچھے ہو جاتے ہیں۔ میرا دوست کہہ رہا ہے لوگوں کے پیچھے بھاگ کر دیکھو ذلیل کرکے رکھ دیں گے اور اللہ کے پیچھے بھاگو وہ گرنے سے پہلے تھام لے گا۔ عمر میں بڑا ہونے سے کچھ نہیں ہوتا بڑے آپ تب ہوتے ہیں جب دوسروں کو برداشت کرنا اور سہنا سیکھ جاتے ہیں۔

اپنے آپ پر ترس کھانا اپنے آپ کو لوگوں میں قابل رحم ثابت کرنا اللہ تعالیٰ کی نافرمانی ہے۔ اللہ کسی انسان پر اس کی برداشت سے زیادہ بوجھ نہیں ڈالتا۔ خوبصورتی کی تلاش میں ہم چاہے پوری دنیا کا چکر لگا آئیں اگر وہ ہمارے اندر نہیں تو کہیں بھی نہیں۔ کسی کی بداخلاقی سے دل برداشتہ ہو کر اپنے اخلاق کو نہیں گرانا چاہیے کیونکہ یہ بزدل اور کم ظرفی کی علامت ہے۔ اخلاق کی دولت کو حاصل کرنے والا کبھی مفلس نہیں ہوتا۔ غلطی کرنا انسان کی فطرت اور معاف کرنا اللہ کی فطرت ہے۔

اچھا سوچیں اور اچھا بولیں کیونکہ بدگمانی اور بدزبانی دو ایسے عیب ہیں جو انسان کے ہر کمال کو زوال میں بدل دیتے ہیں۔ انسان کو دکھ نہیں بلکہ دکھوں میں اپنوں کے رویے توڑ دیتے ہیں۔ بے شک مشکل وقت بتا کر نہیں آتا مگر سکھا کر اور سمجھا کر بہت کچھ جاتا ہے۔

خطرناک غلطیاں۔ اپنا راز کسی کو بتا کر اس کو پوشیدہ رکھنے کی درخواست کرنا۔ گناہ اس نیت سے کرنا کہ چند مرتبہ کرکے چھوڑ دیں گے۔ اپنی آمدن سے زائد خرچ کرنا اور کسی خدائی عطیے کا امیدوار ہونا ۔ انسان کے متعلق ظاہری شکل و صورت دیکھ کر رائے قائم کرنا اپنے والدین کی خدمت نہ کرنا اور اپنی اولاد سے خدمت کی توقع کرنا۔ جو کام خود سے نہ ہو سکے سب کے لیے ناممکن سمجھنا بے کار میں آیندہ کے لیے خیالی پلاؤ اور خوش ہونا۔

تین چیزیں ایک جگہ پرورش پاتی ہیں پھول، کانٹے اور خوشبو۔ تین چیزیں پردہ چاہتی ہیں کھانا، عورت اور دولت۔ تین چیزیں چھوٹی نہ سمجھیں قرض، مرض اور فرض۔ تین چیزیں بڑھائیں عقل، ہمت اور محبت۔ تین چیزیں ہر ایک کی جدا ہوتی ہیں صورت، سیرت اور قسمت۔ تین چیزیں انسان کو تباہ کردیتی ہیں حرص، حسد، غم۔ تین چیزیں بھائی کو بھائی کا دشمن بنا دیتی ہیں زن، زر اور زمین۔ تین چیزیں حافظہ کو قوت دیتی ہیں روزہ، مسواک اور تلاوت قرآن پاک۔ تین چیزیں انسان کو زندگی میں ایک بار ملتی ہیں والدین، حسن، جوانی۔

حق کے راستے پر چلنے میں سب سے بڑی سختی یہ ہے کہ انسان تنہا رہ جاتا ہے۔ رشتوں کی خوبصورتی ایک دوسرے کی بات کو برداشت کرنے میں ہے۔ بے عیب انسان تلاش کریں گے تو اکیلے رہ جائیں گے۔ جن جسموں پر خواہشات کی حکمرانی ہو گناہوں کی قید سے کبھی بھی آزاد نہیں ہو سکتے۔

ماں باپ کبھی غلط نہیں ہوتے ان سے اگر غلط فیصلے ہو بھی جائیں تب بھی ان کی نیت صاف ہوتی ہے اور ماں باپ کی دعاؤں سے ہی تقدیر بدلتی ہے۔ اگر کسی کو گناہ کرتے دیکھیں اور پردہ پوشی کریں تو ہمارے گناہ قیامت کے دن نشر نہیں کیے جائیں گے پردہ رکھنے والوں کا پردہ رکھا جائے گا۔ دوست کا امتحان مصیبت میں، بیوی کا امتحان غربت میں، مومن کا امتحان غصے میں ، آنکھ کا امتحان بازار میں، زبان کا امتحان محفل میں، دل کا امتحان عشق میں، ہاتھ کا امتحان کھانا کھانے میں اور انسان کا امتحان قبر میں ہوتا ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں