معاشرتی جزئیات

آج ادا کیے ہوئے جملے آنے والے کل میں حقیقت بن جاتے ہیں، اپنے تحریرکردہ الفاظ مستقبل بنانے میں معاون ثابت ہوتے ہیں۔


ایم قادر خان December 11, 2020

KARACHI ': معاشرے میں اکثریت کا مثبت ہونا خوش آیند ہے،کسی بھی فردکے ذہن میں خیالات، اچھی سوچ، ترقی کی سمت جانے کا جذبہ یہ کسی کا بھی مقصد حیات ہو جو بڑی تخلیق کا سبب ہو سکتا ہے۔ کسی کے آج کے ادا کیے ہوئے جملے آنے والے ادوار میں مشعل راہ بن جاتے ہیں۔

اکثر لوگ اپنے آباؤ اجداد دانشوروں کی ان اہم باتوں سے فائدہ حاصل کرتے، آگے بڑھتے ہوئے فتح ونصرت پاتے ہیں۔ خاص بات یہ ہے کہ معاشرہ جسے کسی بھی فرد کی مراعات حاصل ہونا ضروری ہیں۔ جس کے باعث ذہن میں اچھی سوچ، بلند خیالات، تعمیراتی رجحانات آتے ہیں، یہ فرد کی کامیابی کی دلیل ہے۔

آج ادا کیے ہوئے جملے آنے والے کل میں حقیقت بن جاتے ہیں، اپنے تحریرکردہ الفاظ مستقبل بنانے میں معاون ثابت ہوتے ہیں۔ ہر شخص اپنی ذہانت، سمجھ بوجھ، پسند وناپسند سے اثرانداز ہوتا ہے وہ وہی لکھتا ہے۔ کسی نے ایثار و قربانی کو اپنی زندگی کا حصہ بنایا، عزت و عظمت، قدر و منزلت ،محبت وعقیدت کو اہم سمجھا اور عمل کیا۔

کچھ لوگ بنے بنائے راستوں پر چل پڑتے ہیں اور ایسے لوگ بھی ہیں، جو اپنا راستہ بنا کر اس پر چلتے ہیں۔ ان میں ان پڑھ، پڑھے لکھے، نڈر، بہادر، محنتی، جفاکش، رفاہی کام انجام دینے والے بھی ہیں ایسے بھی افراد ہمارے معاشرے میں موجود ہیں جنھوں نے دوسروں کی مدد کی اور خود پیچھے رہ گئے۔ تاریخ میں ایسے نڈر، بہادر، جفاکش، ان پڑھ لوگ موجود ہیں جنھوں نے اپنے دور میں عروج حاصل کیا، تعلیم یافتہ ان کے پیچھے رہ گئے۔ یہ حقیقت ہے تعلیم اور ذہانت کا اپنا علیحدہ مقام رہا ہے۔ دانشور، مفکر، مبلغ، زعما، شاعر، قلم کار، فنکار، مصور، حکما، اطبا، سنگ تراش، معمار ان سب نے قدرت دکھائی جن کے نام تاریخ میں نمایاں ہیں۔

اچھی تربیت، اچھی تعلیم، رفتہ رفتہ اسی معاشرے میں اچھے قابل افراد ملنا شروع ہو جاتے ہیں۔ دنیا کی تخلیق الفاظ سے نہیں بلکہ کردار سے ہے، اعتماد بڑی بات ہے، کٹھن وقت گزرتا جاتا ہے، استقامت، استحکام قائم رہے تو انسان مستحکم رہتا ہے کوئی ہنر، فن ضایع نہیں ہوتا، اچھائی پھیلانے سے اور افراد پروان چڑھتے ہیں۔

افراد کی بلندی معاشرے سے اور معاشرے کی بلندی افراد سے ہے۔ کبھی تھوڑی سی مشقت کے خلاف نیک عمل ترک کرنے سے مشقت ختم ہو جاتی ہے لیکن نیک عمل ساتھ جاتا ہے ہمیں تھوڑے سے مزے کے لیے گناہ کرنا غیر مناسب ہے کیونکہ مزہ ختم ہو جائے گا لیکن گناہ ہمارے ساتھ جائے گا۔ اللہ تعالیٰ بہترین سے نوازتا ہے تو پہلے بدترین سے گزارتا ہے۔ ایسا بھی ہوتا ہے کہ ہم پر آنے والی آزمائش دوسروں کی اصل مشکل دکھانا ہوتا ہے۔ اچھے لوگوں کو ٹھوکر ماریں گے تو وہ گریں گے نہیں بلکہ وہ پھسل کر ہماری زندگی اور نہج سے بہت دورچلے جائیں گے۔ جسم گندہ ہو تو لوگ دور ہو جاتے ہیں، دل گندہ ہو تو رب دور ہو جاتا ہے۔ معاشرہ جزئیات انسانی کی اپنی تخلیق میں کسی اچھی سمت، کسی کی بری سمت۔ شیخ سعدی فرماتے ہیں ''آپ کے اخلاق کی قدر لوگ اس وقت کریں گے جب آپ کے پاس مال و زر اور طاقت ہو۔''

میرے وہم سے میرے گناہ تک مرحلہ وفا کا تھا

میری طلب سے میرے نصیب تک یہ معاملہ خدا کا تھا

غریب کتنا ہی خوش اخلاق کیوں نہ ہو، اکثر لوگ اس کی خوش اخلاقی کو اس غریب کی مجبوری سمجھتے ہیں ایسا محسوس کرکے خود اپنے آپ سے شرمندہ ہو جاتے ہیں۔ تنقید برائے تنقید وہ تلوار ہے جو سب سے پہلے خوبصورت تعلقات کا سر قلم کرتی ہے۔ غصہ غیر ارادی فعل ہے لیکن سمجھدار ضرور ہے کہ خود سے تگڑے پر نہیں آتا، اگر آ بھی جائے تو اندر ہی اندر رہتا ہے۔ باہر نہیں آتا۔ اگرکوئی بھی ضرورت مند ہے تو زکوٰۃ لینے میں کوئی حرج نہیں لیکن بہتر ہے نہ لیں۔ مخلص، سچا شخص تنہا رہ جاتا ہے، اس لیے نہیں کہ کوئی اس کا ساتھ نہیں دیتا بلکہ اسے اس کا روشن ضمیر اجازت نہیں دیتا کہ وہ منافق ، بے ایمان ، جھوٹے ، مکار، عیار افراد کے ساتھ تعلق رکھے۔ میں نے جب اپنوں کی محبت، الفت، چاہت میں ملاوٹ دیکھی، تنگ آکر دشمنوں کو منانے چلا گیا۔

ایک بات عرض کروں گا جو ہر شخص سمجھتا ہے رشتے مفت نہیں ملتے، مفت تو ہوا بھی نہیں ملتی، ایک سانس تب آتی ہے جب ایک سانس چھوڑ جاتی ہے۔ محبت اور دوستی ہر آندھی اور طوفان کا مقابلہ کرسکتی ہے مگر ایک غلط فہمی پاش پاش کرسکتی ہے۔ یاد رہے غصے کے وقت تھوڑا رک جانے، غلط کے وقت جھک جانے، معافی مانگ لینے سے زندگی آسان ہو جاتی ہے۔ میری موت پر لوگ روئیں گے لیکن میرے رونے پر کون مرتا ہے؟ خود جو کچھ کرتے ہیں وہ غلط نہیں بلکہ صرف وہ غلط لگتا ہے جو دوسرے کرتے ہیں۔ اگر تم محسوس کروکہ تمہارا دل سخت، جسم کمزور اور رزق تنگ ہو رہا ہے تو جان لو کہ تم اس کام میں ملوث ہو جو تمہیں نہیں کرنا چاہیے۔ چار دن منظر سے غائب ہو کر دیکھا، لوگ میرا نام تک بھول گئے۔

انسان ساری زندگی اس خود فریبی میں گزار دیتا ہے کہ وہ دوسروں کے لیے اہم ہے، لیکن حقیقت اس کے برعکس یہ ہے کہ ہمارے ہونے نہ ہونے سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ دور حاضر میں سفر ریل کا یا ہوائی جہاز کا کچھ نہ کچھ تکلیف ضرور ہوتی ہے قواعد وضوابط پر عمل کرنا ضروری ہوتا ہے۔ جنھیں ہم باہمی رضامندی سے قبول کرتے ہیں۔ مثال کے طور پر ہمیں ایک خاص نشست تک محدود کردیا جاتا ہے ہم بلا چوں چرا مان لیتے ہیں۔ قطعی آزادی نہیں ہوتی کہ دوران سفر چہل قدمی کرسکیں، اندر باہر جاسکیں بلکہ ہوائی جہاز کے سفر میں رن وے سے اوپر جانے بلکہ جب تک جہاز مطلوبہ رفتار تک اڑنا شروع نہیں کرتا اپنی سیٹ بیلٹ باندھنی پڑتی ہے۔ لکھا ہوا آجاتا ہے ''اپنی سیٹ بیلٹ باندھ لیں'' بلکہ ایئرہوسٹس آکر چیک کرتی ہے۔

اس پرکسی بھی مسافر کو قطعی اعتراض نہیں، جس ریل گاڑی میں ہم جس بوگی میں سفر کر رہے ہیں اگر کوئی صحیح انتظام نہ ہو تو شکایت نہیں کرتے۔خواہ ریلوے اسٹیشن ہو یا ہوائی اڈہ، عموماً دھکم پیل کی وجہ سے تکلیف ضرور پہنچتی ہے لیکن ہم خاموش رہتے ہیں شور بھی نہیں مچاتے۔ کبھی سخت سردی کبھی سخت چلچلاتی دھوپ سے مسافر کو نامناسب انتظام کے باعث دھوپ وسخت سردی برداشت کرنا پڑتا ہے لیکن ان کی کوئی شکایت نہیں کرتا۔ ہم کسی بھی ریلوے اسٹیشن یا ہوائی اڈے پر ایسی سہولت کے لیے کوئی کمرہ تعمیر نہیں کرتے۔

کیونکہ سب ہی جانتے ہیں کہ ہمیں کون سا ہمیشہ اس پلیٹ فارم پر رہنا ہے اور یہ بھی جانتے ہیں کہ یہ انتظار گاہ ہے نہ کہ آرام گاہ۔ اس لحاظ سے تکلیف چاہے ریل گاڑی کے سفر میں پیش آئے یا ہوائی جہاز کے سفر میں ہر کوئی ان تکالیف کو برداشت کرلیتا ہے کیونکہ وہ جانتا ہے یہ تکلیف عارضی ہے۔ یہ ٹھکانہ بھی عارضی ہے اور آگے منزل ہے جہاں پہنچ کر آرام ہی آرام ہے۔ میں نے مندرجہ بالا جو ذکرکیا، ہمیں یہ سوچنا ہوگا کیا یہ دنیا ریلوے اسٹیشن یا ہوائی اڈہ کی طرح نہیں؟ کیا یہ عارضی ٹھکانہ نہیں ہے؟ کیا ہمیں یہیں رہنا ہے؟ یا ہماری منزل کہیں اور ہے؟

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں