بلدیاتی اداروں کی کارکردگی اور گھوسٹ ملازمین

نہ جانے سندھ کے دیگر شہروں اور دیہی علاقوں میں موجود بلدیاتی اداروں کی ان کالی بھیڑوں کی باری کب آئے گی۔



دنیا بھر کے ممالک میں شہروں میں واٹر سپلائی ، نکاسی اور صفائی ستھرائی سمیت تمام بنیادی سہولیات کی ذمے داری بلدیاتی اداروں کے ذمے ہوتی ہے ۔ چونکہ بلدیاتی اداروں کا نیٹ ورک انتہائی نچلی سطح تک پھیلا ہوتا ہے اور عوام کی آسان رسائی میں ہوتا ہے ، اس لیے یہ ادارے بہتر طور پر Deliverکرنے کی پوزیشن میں ہوتے ہیں ۔ پھر ان اداروں کو چلانے کے لیے منتخب افراد بھی مقامی سطح کے اور عوام کی دسترس میں ہونے کی وجہ سے وہ نہ صرف علاقے کے زمینی حقائق اور مسائل سے آگاہ ہوتے ہیں بلکہ اپنے علاقے کے لوگوں اور اُن کے رویوں اور ضروریات سے بھی بخوبی واقف ہوتے ہیں ۔

عوام اپنے کام اور مسائل آسانی سے اُن تک پہنچاسکتے ہیں اُن سے اپنے مسائل اور پریشانیوں کے مداوے کا مطالبہ بھی بلا توقف اور بلا جھجک کرسکتے ہیں ۔ اس لیے یہ نہایت مؤثر اور عوامی پلیٹ فارم تصور کیا جاتا ہے ۔ اسی لیے جمہوری نظام میں بلدیاتی اداروں کو بنیادی حیثیت حاصل ہے اور انھیں مرکزی اہمیت ہوتی ہے ۔ان اداروں کے ذریعے ہی شہروں کی ترقی اور عوام کو سہولیات فراہم کی جاتی ہیں۔ اس لیے بلدیاتی اداروں کو فعال و بااختیار اور سیاسی مفادات سے پاک حقیقی جمہوری قیادت میں ہونا چاہیے ۔

اس کے برعکس ہمارے ملک میں ان اداروںکو کوئی خاص اہمیت نہیں دی جاتی ۔انھیں صرف کرپشن کا ذریعہ سمجھا جاتا ہے ۔ حالانکہ عوامی مسائل نچلی سطح پر حل کرنے اور لوگوں کو شہری سہولیات کی فراہمی کے لیے قائم شدہ بلدیاتی کونسلز، میونسپل اداروں کے ساتھ ساتھ اختیارات کی نچلی سطح پر منتقلی کے لیے کی گئی 18ویں ترمیم کی طویل عرصہ سے وکالت بھی ہوتی رہی ہے ۔ لیکن ملک کے قیام کو تقریباً پون صدی گذر چکی ہے مگر اب تک ملک کے لیے کسی ایک نظام کا انتخاب نہیں ہوسکا ہے ۔

چار سال قبل نواز شریف دور میں سپریم کورٹ کے حکم پرہونیوالے انتخابات کے تحت منتخب بلدیاتی نمایندوں کی مدت گذشتہ ماہ پوری ہوگئی ۔ صوبہ بھر میں ڈپٹی کمشنرز اور اسسٹنٹ کمشنرز کو ایڈمنسٹریٹرز مقرر کیا گیا ہے ، جب کہ صوبہ کے دارالحکومت کراچی میں سیکریٹری بلدیات کو کراچی ڈویژن کا ایڈمنسٹریٹر مقرر کیا گیا ہے ۔

گذشتہ چار برس کے دوران حیدرآباد ، سکھر اور لاڑکانہ میونسپل کارپوریشنز کو عوام کے بنیادی مسائل کے حل کے لیے 15ارب 21کروڑ روپے سے زیادہ براہ راست رقوم کے ساتھ صوبہ کے دیہی علاقوں کی ترقی کے لیے چار سال میں 27ارب 55کروڑ روپے سے زیادہ رقم بلدیاتی نمایندوں کو جاری کی گئی مگر صوبہ بھر میں کہیں کوئی ترقیاتی کام ، بنیادی سہولیات کی فراہمی یا صفائی ستھرائی ہوتی دکھائی نہیں دی۔ ان چار سالوں میں صوبہ کو کچرے کے ڈھیر میں تبدیل کردیا گیا ہے ۔

اسی طرح بلدیاتی نمایندوں کو عوام کی خدمت کے لیے ہر ماہ ٹاؤن کمیٹیز کو 82 کروڑ روپے ، یونین کونسلز کو 57کروڑ روپے اور یونین کمیٹیز کو 18 کروڑ روپے مسلسل فراہم کیے جاتے رہے ، صرف کے ایم سی کو ہر ماہ 64کروڑ روپے کی گرانٹ بھی جاری کی جاتی رہی ہے۔ لیکن یہ بلدیاتی نمایندے عوام کی خدمت میں مکمل طور پر ناکام رہے ۔ بلدیاتی نظام کے عوام کے لیے بے فائدہ بننے کا ایک سبب بھی ملک میں بیوروکریسی کی اجارہ داری ہے۔

بیوروکریسی کا ہاتھ اس نظام کی نبض پر اس قدر مضبوط ہے ملک میںکسی بھی پالیسی کے نفاذ یا کسی بھی کام کی فائل یا سمری پر منتخب نمایندے صرف ریفرنس نوٹ لگانے کے اختیارات ہی رکھتے ہیںاور پھر وہ نوٹ لگی سمری بھی کبھی اس دفتر سے اُس دفتر تو کبھی اس ٹیبل سے اُس ٹیبل Move ہوتی رہتی ہے مگر کام نہیں ہوتا ، جس سے حکومت کی رٹ قائم نہیں رہ پاتی اور یوں عوام کی سہولت اور خدمت کا کوئی کام نہیں ہوپاتا۔ جس سے پھر بھی بدنامی منتخب نمایندوں یا سرکار کی ہوتی ہے ۔

دیکھا جائے تو سندھ میں پی پی پی کی حکومت ہے اور بھٹو کی اس پارٹی کو اس بیوروکریسی کی اجارہ داری اور تکنیکی برتری کے ساتھ حکومت کرنے کا کم از کم 50سالہ تجربہ بھی حاصل ہے وہ اگر چاہے تو اسمبلی فلور سے بیوروکریسی کے غیرضروری اختیارات والے اس نظام کو تبدیل بھی کرسکتی ہے ، اور شاید وہ چاہتی بھی ہے ۔ اسی لیے وہ سرکاری ملازمین کی درست مانیٹرنگ کے لیے تنخواہیں اکاؤنٹنٹ جنرل سندھ کے ذریعے دینے پر کام طویل کرتی آرہی ہے ۔

پہلے محکمہ تعلیم ، پھر صحت اور اوقاف سے ہوتے ہوئے اب محکمہ بلدیات کے ملازمین کی تنخواہوں کو اے جی سندھ سے ریگیولرائیز کرانے پر کام ہورہا ہے ۔ اس سے ایک طرف اداروں میں موجود گھوسٹ ملازمین اور اُن کی آڑ میں بیوروکریسی کی جانب سے ہونے والی کرپشن کی حوصلہ شکنی ہورہی ہے تو دوسری طرف اداروں کی کارکردگی میں بھی اضافے کی اُمید پیدا ہوئی ہے۔ لیکن اصل ضرورت حکومتی Willکی ہے جو صوبائی سرکار کھوچکی ہے۔ دیکھا جائے تو اس وقت بلدیاتی ادارے سندھ لوکل گورنمنٹ ایکٹ 2013 کے تحت کام کررہے ہیں ۔ جس میں کافی حد تک ترمیم کی ضرورت ہے ۔

کہا جارہا ہے کہ بلدیاتی انتخابات سے قبل ترمیمی بلدیاتی قانون لانے کا امکان ہے ۔ جس میں بلدیاتی نمایندوں کو مزید اختیار دینے اور سندھ کی صوبائی حکومت کے سامنے جوابدہ بنانے کے لیے قانون سازی پر غور ہورہا ہے ۔ بلدیاتی نمایندوں کی مدت ختم ہونے کے بعد گذشتہ ایک ماہ سے بلدیاتی اداروں کے تمام اختیارات سرکاری ملازمین کی بطور ایڈمنسٹریٹرز تقرری سے براہ راست وزارت بلدیات ، حکومت ِ سندھ کے ہاتھ میں آچکے ہیں ۔ حکومت کو چاہیے کہ ایک طرف وہ آئین کیمطابق 90روز میں بلدیاتی انتخابات کا بندوبست کرے،کیونکہ الیکشن کمیشن کی جانب سے ملک میں بلدیاتی انتخابات کے لیے حتمی فہرستیں 4اکتوبر سے جاری کرنے کا اعلان سامنے آیا ہے ، جس کیمطابق صوبہ سندھ میں 30اکتوبر کو حتمی لسٹ جاری کی جائیں گی۔

دوسری طرف ان تین مہینوں میں کے دوران ایڈمنسٹریٹرز کے ذریعے عوامی خدمت و بنیادی سہولیات کے اُمور کی بہتر سرانجامی کو یقینی بنانے کے لیے سخت سے سخت مانیٹرنگ کے ذریعے شہروں میںموجود مسائل خصوصاً صفائی ستھرائی ، واٹر سپلائی اور نکاسی و گلیوں اور سڑکوں کی تعمیر کرے۔ان اداروں کی ناکامی کا ایک سبب ان اداروں میں بڑے پیمانے پر گھوسٹ ملازمین کی موجودگی بھی ہے ۔

ایک طویل عرصہ سے یونین کونسل سطح سے میونسپل سطح تک صوبہ بھر بالخصوص کراچی کے شہری اداروں کے ڈی اے ، کے ایم سی اور اُس کے ماتحت اداروں خاص طور پر واٹر بورڈ میں گھوسٹ ملازمین کی موجودگی ایک بڑا مسئلہ رہا ہے ۔ سیاسی بنیادوں پر کی گئی بھرتیوں اور اُس کے بعد بھی ان گھوسٹ ملازمین کی سرپرستی نے ان اداروں کو دیمک کی طرح اندر سے چاٹ کر کھوکھلا کردیا ہے ۔ ان گھوسٹ ملازمین کی نشاندہی اور اُن کے خلاف قرار واجب اقدامات پر گذشتہ 12 سال سے کام ہورہا ہے مگر اب تک کوئی واضح کامیابی نہیں مل سکی ہے ۔

ابھی کچھ روز قبل ہی وزیر اعلیٰ سندھ نے بلدیاتی اداروں کے ایڈمنسٹریٹرز ، ادارے کے اعلیٰ حکام ، وزیر بلدیات،وزیر قانون اور دیگرمتعلقہ ذمے داران کا اجلاس بلا کرصوبہ بھر بالخصوص کراچی میں صفائی ستھرائی، اسٹریٹ لائٹنگ، پارکس و سڑکوں کی حالت بہتر کرنے ، واٹر سپلائی اور نکاسی کے نظام سے متعلق واضح تبدیلی لانے کے لیے لازمی اقدامات اور سخت محنت کی ہدایات جاری کی ہیں۔

اس اجلاس میں وزیر اعلیٰ کو ایک رپورٹ پیش کی گئی ، جس کے مطابق ایڈمنسٹریٹرز کی تقرری کے ایک ماہ کے اندر یہ بات کھل کر سامنے آئی ہے کہ کے ایم سی اور اُس کے ماتحت اداروں میں بڑے پیمانے پر گھوسٹ ملازمین اور ریٹائرڈ ملازمین بھی باقاعدہ ریگیولر تنخواہیں اور دیگر مراعات لے رہے ہیں۔

کہا جارہا ہے کہ ان اداروں میں سیاسی لوگ بھرتی کیے گئے ہیں اور اُن کو غیر قانونی پروموشن ، انکریمنٹس وغیرہ دی گئی ہیں ، حد تو یہ ہے کہ ڈسپیچر سطح کے ملازمین ڈی ایم سی میں ایکسین کی رینک کی تنخواہ لینے کا انکشاف ہوا ہے۔ وزیر اعلیٰ سندھ نے ان گھوسٹ ملازمین کی سرکوبی پر سخت احکامات جاری کیے ہیں۔ جس پر قانونی ماہرین کی اس پر رائے ہے کہ تمام گھوسٹ ملازمین کوایس آر او 2000 کے تحت ملازمت سے برطرف کیا جاسکتا ہے۔

لیکن وزیر اعلیٰ سندھ کی جانب سے بلدیاتی اداروں کی کارکردگی کو بہتر کرنے اور گھوسٹ ملازمین کے خلاف ہدایات جیسے تمام اقدامات بھی فی الحال کراچی تک محدود ہیں، نہ جانے سندھ کے دیگر شہروں اور دیہی علاقوں میں موجود بلدیاتی اداروں کی ان کالی بھیڑوںکی باری کب آئے گی ۔۔۔؟؟؟

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں