کردار سازی کس کا ذمے ہے

معاشرے میں دوسروں کی عزت بڑھائیں کسی کو کم نہ سمجھیں تضحیک و توقیر نہ کریں۔


ایم قادر خان August 23, 2020

ہم مہنگے ترین اور بڑے نام والے تعلیمی ادارے بچوں کے لیے تلاش کرتے ہیں، جن میں ذریعہ تعلیم انگلش ہو۔ اولین خواہش ہوتی ہے کہ ایسے اسکولوں میں بچوں کو تعلیم دلوائیں تاکہ بچے اچھی انگریزی لکھنا پڑھنا سیکھ سکیں اور اس طرح ان کے اعلی تعلیم حاصل کرنے کے مواقع میں اضافہ ہونے کے علاوہ بیرون ملک تعلیم کے دروازے بھی کھل جائیں گے اور وہ اچھی زندگی گزاریں گے۔لیکن وہ اسکول بچوں کو تعلیم تو دیتے ہیں لیکن کردار سازی سے دور ہیں۔

والدین ان بڑے، نامور اسکولوں پر بھروسہ کرتے ہوئے بچوں کے کردار پر توجہ نہیں دیتے۔ بچوں کو انجینئر، ڈاکٹر، سائنس دان بنانے کا سوچ رہے ہیں شاید ان کو یہ سمجھ نہیں آتا اپنے بچوں کی کردار سازی کریں اگر کسی کو خیال آتا ہے تو شاید سمجھنے سے قاصر ہے کس طرح اپنے بچوں کی کردار سازی کی جائے۔ بڑھاپے تک اچھا عہدہ، اچھی ملازمت، اچھا شعبہ اور اچھا مقام حاصل کرنے میں کوشاں ہیں۔

دراصل ہمیں اچھے کردار پر خاص توجہ دینی چاہیے۔یہی وجہ ہے کہ ان اسکولز سے تعلیم حاصل کرنے والے بچے اچھی انگریزی بولنا تو سیکھ جاتے ہیں مگر نہ تو ان میں اعلی کردار پیدا ہوتا ہے اور نہ وہ اپنی تہذیب اور روایات سے آگاہ ہوتے ہیں۔اپنے ہاں کی روایات کو وہ فرسودہ خیال کرتے ہوئے اس سے بغاوت کر دیتے ہیں۔والدین کا روایات کے مطابق احترام اور ان کی رائے کے آگے سرتسلیم خم کرنا انھیں مشکل معلوم ہوتا ہے ۔

اپنے اندر برداشت، رحم، اچھا اخلاق، دوسروں پر مہربان ہونا، اچھا عمل، اچھائی پیدا کریں۔ نوجوان نسل کو اپنے کردار پر توجہ دینا ضروری ہے چھوٹے، بڑے کے ساتھ عزت ضروری ہے، اگر چھوٹوں کی عزت کریں گے یقینا وہ اپنے سے بڑوں کی عزت کریں گے۔ بڑوں کی عزت کریں گے تو یقینا چھوٹوں کی عزت ہوگی بے تکلفی ہر شخص سے قطعی مناسب نہیں۔ خاص دوست، ہم عصر، بچپن کے ساتھی سے تو بے تکلف ہوا جاسکتا ہے لیکن کسی بڑے بزرگ عالم فاضل مبلغ مفکر فلسفی دانشور سے بے تکلفی ممکن نہیں۔ یاد رہے اچھا کردار عزت بڑھاتا ہے۔

معاشرے میں دوسروں کی عزت بڑھائیں کسی کو کم نہ سمجھیں تضحیک و توقیر نہ کریں۔ معاشرے میں سب سے تعلقات رکھیں اس کا فائدہ اپنے ساتھ ہوتا ہے ہم دوسروں کی نظر میں اچھے کردار کی پہچان ہوتے ہیں۔ ہمارے اخلاق و کردار سے معاشرہ کے تمام لوگ تحفظ محسوس کرتے ہیں۔ اچھے کو اچھا، برے کو برا کہا جاتا ہے بدکردار کی بدکرداری کو سہہ لیتے ہیں لیکن ذہن و قلب میں اس کی عزت نہیں ہوتی۔ اچھے کردار والے شخص کی لوگوں کے دلوں پر حکومت ہوتی ہے اسے بھلایا نہیں جاسکتا۔

ہر شخص جل رہا ہے عداوت کی آگ میں!

اس آگ کو بجھا دے وہ پانی تلاش کر

سجدوں سے تیرے کیا ہوا صدیاں گزر گئیں

دنیا تیری بدل دے وہ سجدہ تلاش کر

اچھا اخلاق سب کو آپ کا گرویدہ بنا دیتا ہے اور بدزبانی اپنوں کو بھی مخالف بنا دیتی ہے۔ بچوں کی کردار سازی والدین کی جانب سے ہوتی ہے ضروری ہے کہ سامنے ایک نصب العین ہو۔ علم وہ نہیں جو سیکھا جائے بلکہ جو ہمارے عمل و کردار سے ظاہر ہو۔ اچھی کہانی یا افسانہ وہ ہوتا ہے جو یہ محسوس کرائے کہ اس کے کردار تم بھی ہو سکتے ہو۔ کسی کا کردار کسی کی ذمے داری نہیں اسی طرح کسی کی ذات کسی کا ٹھیکہ نہیں یہ ہر شخص کی اپنی زاتی یا خاندانی زندگی ہے۔

اپنے کردار کو ہم جس قدر اچھا رکھ سکتے ہیں رکھیں کیونکہ موت تو انسان کو مار سکتی ہے مگر اچھے کردار والے ہمیشہ زندہ رہتے ہیں دل و دماغ میں اور اچھے الفاظ میں۔ یہاں میں ایک خوبصورت بات پیش کروں گا کہ انسان کا کردار صندل کے درخت کی مانند ہوتا ہے جو خود پر کلہاڑی کی ضرب کھا کر بھی کلہاڑی کو خوشبو سے مہکا دیتا ہے۔

اعلیٰ کردار کی خوبیاں اس قدر ہیں جو لکھی جائیں ختم نہ ہوں جو بھی جملہ ذہن میں آتا ہے وسیع ہو جاتا ہے دیکھنے والی نظر ہو تو گفتار عمل کا اور عمل کردار کا آئینہ دار ہے۔ اپنی اولاد کے لیے ایک مثالی کردار آپ کے علاوہ کوئی دوسرا نہیں ہو سکتا۔ شروع میں، میں نے ذکر کیا کردار دسازی کے لیے اس کے سامنے ایک نصب العین ہو، ایک انسان وہ ہے جس نے اپنی ذات کو ہی اپنا مقصد بنا رکھا ہے ذاتی مفادات زیادہ سے زیادہ مال و زر جمع کرلے اور معاشرے میں بلند مقام حاصل کرلے، اقتدار حاصل ہوجائے، وسیع اختیارات مل جائیں۔

اس نصب العین کی بنیاد پر جو کردار وجود میں آئے گا وہ ''گھٹیا'' کردار ہوگا۔ وہ شخص خودغرض، مطلب پرست، ریا کار، جھوٹا، فریبی، دھوکے باز، منافق، مال و زر دولت کے حصول کے لیے غلط ناجائز غیر قانونی غیر اسلامی غیر مہذب، غیر اخلاقی طریقہ استعمال کرنے میں کوئی جھجک شرم محسوس نہیں کرتا بلکہ وہ ایسے طریقہ کار جاری رکھتا ہے۔ وہ ''گھٹیا'' انسان ہے۔ اچھا نصب العین اس میں اچھی شخصیات وجود میں آتی ہیں جو اعلیٰ کردار کی مالک ہو، اس سے بلند انسان کی انسانیت ہے اس میں بھی زیادہ نصب العین اللہ تعالیٰ کی محبت۔

بڑے دانشور، مبلغ، مفکر کردار کی کمی محسوس کر رہے ہیں، مراد اچھے کردار کی زیادہ کمی ہوتی جا رہی ہے۔ شاید اس لیے وہ اچھا کردار مال و زر عزت و شہرت کو سمجھتے ہوں۔ لیکن ایسا ہرگز نہیں، اعلیٰ کردار کا اپنا ایک اثر ہے مقام ہے کسی غریب کے پاس اگر کھانے کے لیے روٹی نہیں ہے لیکن اس کا اپنا ایک کردار ہے وہ کسی کے آگے ہاتھ نہیں پھیلاتا یہ اس کا بلند حوصلہ و کردار ہے۔اگر ہمارے اطراف وہ کردار نہیں ہیں، اگر ہیں تو تو ان میں اتنی سکت نہیں کہ اگر زندگی میں ایسا مرحلہ آتا ہے جہاں کردار کسی کسوٹی پر تولا اس کے اندر جو طاقت، صبر، برداشت ہونی چاہیے وہ ان کرداروں میں نہیں ملتی۔

اچھے کردار کے لوگ ہوتے ہیں صبر و تحمل نہیں کرسکتے، برداشت نہیں با کردار لوگ معاشرے میں بہہ جاتے ہیں۔ کچھ ایسے ہیں جو رشوت نہیں لیتے مگر وہ کھڑے ہوکر حق و سچ کی بات نہیں کرسکتے۔ جرأت حوصلہ نہیں یہاں پر رشوت خور اور حوصلہ نہیں رکھتا، کھڑے ہوکر حق پر بات نہیں کرسکتا، اس میں جرأت نہیں تو وہ بھی اس راشی کے برابر ہے۔ معاشرے میں ایسے لوگوں کی بڑی کمی ہے جو کھڑے ہوکر کہہ سکیں یہ صحیح ہے یا غلط، حق کی آواز بلند کرسکیں، سچ کہہ سکیں ایسے افراد جب کھڑے ہوتے ہیں مار دیے جاتے ہیں یا پھر بدکردار لوگ ان کے ساتھ جو سلوک کرتے ہیں یہ سب ہی کو معلوم ہے۔ ایسی بہت سی مثالیں موجود ہیں۔

میری ذاتی رائے ہے کہ کردار سازی دیکھنے سے آتی ہے معاشرے میں جب دیکھنے میں ان کا کردار کیسا ہے کسی اچھے کردار کی طرف نظر پڑتی ہے تو ذہن میں ایک تبدیلی آتی ہے جس کو خیال سازی کہا جاتا ہے۔ کردار بغیر خیال سازی کے نہیں بنتا۔ خیال بننا شروع ہوتا ہے ایک نئی سوچ بننا شروع ہوتی ہے وہی سوچ ہمارا کردار بناتی ہے۔ اگر سوچ کسی اور سمت ہوگی تو کردار نہیں بن سکے گا خواہ کوئی بھی مثال سامنے ہو۔ لیکن اس سمت ذہن نہیں جائے گا کیونکہ غلط سمت سے ہٹانا مشکل ہوتا ہے۔ کسی بھی معاشرے، ملک، تہذیب و ثقافت کو برباد کرنا ہو تو اس معاشرے و ملک کے رول ماڈل کو تبدیل کردیا جائے یا ختم کردیا جائے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں