بحران اور فائدہ

عوام خوش فہمی میں ہوتے ہیں لیکن موجودہ معاشی ٹیم کے سربراہ جن کو میرے صحافی دوست نے وائسرائے کا خطاب دیا ہے


ایم قادر خان March 16, 2020
پٹرولیم ریونیو اور سیلز ٹیکس یہ دو قسم کے ٹیکس پٹرول پر عائد ہیں ڈالر پر دباؤ کم ہو جائے گا ایل این جی میں بھی کمی ہوسکتی ہے

ہم بولتے اردو ہیں روئیداد ہو یا کوئی درخواست تحریر کرتے ہیں انگلش میں۔ کہتے ضرور ہیں اردو ہماری قومی زبان ہے۔ میں سمجھتا ہوں ہماری سرکاری زبان انگریزی ہے اس کا ثبوت وہ فیصلے ہیں جو انگلش میں رقم کیے جاتے ہیں۔ قومی وصوبائی اسمبلی کا اجلاس ہو یا کوئی چھوٹی بڑی یا اجتماعی مجلس اس کی روئیداد انگلش میں پیش کی جاتی ہے۔ سرکاری دفاتر ہوں، نیم سرکاری یا پرائیویٹ ان تمام میں ساری کارروائی انگلش میں درج ہوتی ہے۔ اس کو ہم کیا کہیں گے؟ شاید اس کا جواب یہ ملے گا کہ یہ جاہل انسان ہے ،جو ایسی باتیں کر رہا ہے یا پھر یہ کہا جائے گا اس کو انگریزی نہیں آتی اسی لیے یہ تنقید کر رہا ہے۔ ایسا شخص اگر انگلش بولنے پر آئے گا تو ان انگلش داں لوگوں کو انگریزی کی لغت (ڈکشنری) پڑھنی پڑے گی۔ بحث طویل ہے شاید اس کا حاصل کچھ بھی نہ ہو۔

حقوق تو 1441 ہجری سے قبل دیے جاچکے ہیں بلکہ مجھے ایک ماہر قانون فرما رہے ہیں آج تو مردوں سے زیادہ خواتین کو حقوق حاصل ہیں۔ ملک کے تمام اداروں، سرکاری و غیر سرکاری محکموں میں خواتین اپنی خدمات پیش کر رہی ہیں۔ جن مکالموں کی ادائیگی ہوئی ہے، بد اخلاقی، بدتہذیبی، یہ اسلام سے دوری ہے۔ یہ خواتین جن لوگوں کے ایجنڈے پر کارفرما ہیں وہ لوگ مسلمانوں کے خلاف ہیں نہیں چاہتے یہ قوم آگے بڑھے ترقی پائے۔ ریت پر عمارت تعمیر نہیں ہوتی پختہ زمین پر بنائی جانے والی عمارات صدیوں چلتی ہیں۔

دوسری طرف کرونا وائرس کی وجہ سے سعودی عرب کی تیل کی سپلائی میں بڑا فرق پڑا ہے چین میں تیل سعودی عرب سے زیادہ فروخت کیا جاتا تھا۔ وہاں تیل جانا بند ہو گیا دیگر ممالک میں بھی لوگ متاثر ہو رہے ہیں۔ اٹلی میں ایک حصے سے دوسرے حصے جانے پر سخت پابندی عائد ہے،کرونا یورپ میں بھی پھیل رہا ہے۔ سب سے زیادہ تیل امریکا، سعودی عرب اور روس پیدا کر رہا ہے لہٰذا امریکا سعودی عرب سے زیادہ تیل نہیں لیتا۔ کراؤن پرنس نے یہ کہا ہے کہ ہم خفیہ ہاتھ روک دیں گے تیل پر ہم اپنی معیشت کم کردیں گے۔

ویسے بھی سعودی عرب میں تیل کے ذخائر کم ہو رہے ہیں۔ تیل کی مانگ کم پڑ گئی کیونکہ سعودی عرب کی بڑی منڈی چین ہے، چین کے اندر کرونا وائرس پھیلا ہوا ہے، اوپیک کے ممالک نے روس کو مشورہ دیا کہ تیل کی پیداوار کو کم کرنا چاہیے۔ سعودی عرب کی خواہش تھی کہ 85 ڈالر فی بیرل ہوجائے۔ چونکہ روس کی امریکا سے مخالفت چل رہی ہے، ٹرمپ نے کچھ عرصہ قبل روس پر پابندی لگائی تھی کہ وینزویلا کا تیل فروخت کرنے میں مدد نہ کرے روس وینزویلا کی مدد کر رہا تھا۔ وینزویلا میں بھی تیل کے ذخائر موجود ہیں امریکا اس کے خلاف ہے۔ چونکہ سعودی عرب کا رجحان، حمایت امریکا کی ہے اس نے اس نے سعودی عرب کی بات نہیں مانی کیونکہ اس کو معلوم ہے سعودی عرب امریکا کے ساتھ ہے۔

روس کا اوپیک سے معاہدہ ختم ہوگیا، سعودی عرب نے 85 ڈالر فی بیرل سے قیمت گرا کر 30 ڈالر فی بیرل کردی لہٰذا روس سے تیل خریدنا بند ہو گیا اور سعودی عرب کی طرف دوڑ پڑے۔ اس وقت کیفیت یہ ہے کہ تیل وافر مقدار میں ہے خریدار کم کیونکہ کرونا وائرس کی وجہ سے بہت سی ملیں، کارخانے، ہوائی اڈے، پروازیں بند ہیں۔ لوگ سفر نہیں کر پا رہے ایک ملک سے دوسرے ملک نہیں جا رہے خاموشی سی چھائی ہوئی ہے۔ تیل فروخت کرنے والی کمپنیاں بند، کارپوریشن بند سوال یہ ہے کہ اب تیل کو کیا کریں؟

اس وقت پاکستان کے لیے ایک اچھا معاشی خوشحالی کا وقت ہے تیل سستے دام خریدے پٹرول کی قیمت کم ہوگی تو عوام کو فائدہ ہوگا۔ 1998 میں تیل کی قیمت 28 ڈالر فی بیرل گر گئی تھی 2008 میں تیل کی قیمت بلند ترین سطح پر 145 ڈالر فی بیرل قیمت تھی۔ 2013 میں تیل کی قیمت 118 ڈالر فی بیرل تھی۔ جنوری 2016 میں 30 ڈالر فی بیرل تک گر گئی۔ 2018 میں قیمت 71 ڈالر فی بیرل کے حساب سے مقرر ہوئی۔

آج 30 ڈالر فی بیرل ہوگئی ہے نصف قیمت سے بھی کم۔ پاکستان چاہے تو بڑا فائدہ حاصل کرسکتا ہے تیل اور بجلی کی قیمتیں کم کی جاسکتی ہیں اس طرح مہنگائی میں خاصی کی آسکتی ہے۔ ہر چیز پر مثبت اثر پڑے گا معاشی سرگرمیاں بڑھیں گی روزگار میں اضافہ ہوگا یہ ایسا وقت ہے عوام کو سہولت پہنچائی جاسکتی ہے۔ اب ایک سوال ہے کیا موجودہ حکومت چھپے ہوئے بحران سے پورا فائدہ اٹھانے کی صلاحیت رکھتی ہے؟ ایک معاشی ماہرین کا کہنا ہے کہ موجودہ حکومت ٹیکس کا ٹارگٹ پورا کرنے میں ناکام رہی ہے، تقریباً 400 ارب یعنی چار کھرب تک پہنچ چکا ہے۔

ٹیکس اکٹھا کرنے والے شاید لمبی چھٹی پر چلے گئے وہ آئیں گے یا نہیں شاید کسی کو نہیں معلوم۔ مالی سال تک ٹیکس پورا کیا جاسکتا ہے یا نہیں؟ کہا جاتا ہے کہ اس وقت گردشی قرضہ تاریخ کی بلند ترین سطح پر پہنچ چکا ہے۔ 2018 میں گردشی قرضہ 11 سو ارب یعنی گیارہ کھرب روپے تھا۔ اس وقت گردشی قرضہ 1900 ارب یعنی انیس کھرب روپے تک پہنچ چکا ہے حکومت کے پاس گردشی قرضہ کم کرنے کی کیا حکمت عملی ہے؟ مہنگائی بڑھنے کی رفتار انتہائی تیز ہے اس میں کمی کی جاسکتی ہے۔ عالمی منڈی میں تیل کی گرتی ہوئی قیمت سے ملک کے عوام کو زیادہ فائدہ پہنچایا جاسکتا ہے۔ 5,56000 ہزار بیرل تیل روز استعمال کرتے ہیں۔ اگر 30 ڈالر فی بیرل گرتا ہے تو ہمیں کس قدر فائدہ ہوگا۔ 22 کروڑ عوام خوش ہوگی معیشت مضبوط ہوگی۔ تجارتی خسارہ کم ہوگا، قرضہ کم ہوجائے گا، بجلی کے نرخ کم ہوں گے، گردشی قرضہ سرکلر ڈیٹ کا جو بجلی کے سیکٹر سے ہے اس کو بھی سستے پٹرول سے فائدہ پہنچے گا۔ اسی طرح ایل این جی میں جو چھپا ہوا سرکلر ڈیٹ ہے جس کی بات نہیں کی جاتی وہ بھی تقریباً ڈیڑھ سو ارب پر پہنچ چکا ہے اس کو بھی فائدہ پہنچے گا۔

پٹرولیم ریونیو اور سیلز ٹیکس یہ دو قسم کے ٹیکس پٹرول پر عائد ہیں ڈالر پر دباؤ کم ہو جائے گا ایل این جی میں بھی کمی ہوسکتی ہے۔ ایک ملک کا بحران دیگر ممالک کے لیے استفادہ۔ یہ تمام باتیں معیشت کے ماہرین کی ہیں چونکہ ان کی خاص نظر ہے لہٰذا وہ جو بتا رہے ہیں وہ بھی خاص ہے۔ وہ بات علیحدہ ہے کہ حکومت اس پر عمل کرے یا نہ کرے۔

معلوم ہے چند وزرا ایسے ہیں جو اچھے مشوروں کی جگہ برے مشورے دیتے ہیں۔ کہنے والے یہ بھی کہہ رہے ہیں ایک وزیر اعظم اسلامی جمہوریہ پاکستان دوسرے وائسرائے آف پاکستان ان پر وزیر اعظم کا کوئی اثر یا کوئی حکم شاید نہیں چلتا۔ وزیر اعظم جو بات کہتے ہیں وائسرائے اس کی الٹ بات کرتے ہیں۔ اگر ایسے موقع پر قیمتیں بڑھیں گی تو یہ ان کی من مانی ہوگی جو وزیر اعظم کی بات بھی نہیں سنتے۔ یہ چار یا چھ وزراء ہیں جن کو کچھ کہا نہیں جاتا بلکہ اگر کہنا بھی چاہیں تو وہ ممکن نہیں۔ یہ بہت بڑی غلطی ہے اس قسم کے لوگوں کو بڑے عہدے پر فائز کیا گیا، پہلے سنا کرتے تھے ریکارڈ میں آگ لگ گئی یہ کبھی نہیں سنا سیکڑوں بلکہ ایک ہزار سے زائد فائلیں غائب ہوگئیں۔ یہ ریکارڈ سے فائلیں کیسے کیونکر غائب ہوئیں کس نے ایسا کیا؟

عوام خوش فہمی میں ہوتے ہیں لیکن موجودہ معاشی ٹیم کے سربراہ جن کو میرے صحافی دوست نے وائسرائے کا خطاب دیا ہے۔ یہ فرماتے ہیں کہ آئی ایم ایف کے ساتھ جو معاہدہ ہوا ہے ہم نے اس کے تحت ٹیکس عائد کرنے ہیں۔ پہلے سال 700 ارب دوسرے سال پھر، تیسرے سال 1200 ارب ٹیکس لگانے ہوں گے۔ یہ بھی بتا دیا کہ ہم نے یہ بھی طے کیا تھا کہ نظرثانی نہیں کی جائے گی۔ دنیا میں کچھ ہوجائے اگر تیل مفت ملنا شروع ہو جائے لیکن آئی ایم ایف کے معاہدے پر مکمل عمل کرنا ہوگا۔ شاید ان لوگوں کے غلط مشوروں کی وجہ سے 30 یا 35 ڈالر فی بیرل کیوں نہ ہو فائدہ نہیں اٹھایا جاسکے گا۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں