جمہوریہ ترکی

ترکی کا سرکاری نام جمہوری ترکی ہے، اس کی سرحدیں آٹھ ممالک سے ملی ہوئی ہیں


ایم قادر خان March 06, 2020
ترکی کا سرکاری نام جمہوری ترکی ہے، اس کی سرحدیں آٹھ ممالک سے ملی ہوئی ہیں۔

ترکش ایئرلائنز پر جب کبھی سفر کیا، پہلے ترکی پہنچا دو یوم بعد آگے سفر کی روانگی سے دو یوم ترکی میں سیر و سیاحت، معلومات حاصل کرنے کا وقت مل جاتا۔ ایسا کئی بار ہوا ''اتاترک'' ہوائی اڈے پر اترا وہاں سے ٹیکسی پر تفریح شروع ہوجاتی۔ ٹیکسی ڈرائیور علاقوں، تاریخی مقامات، مشہور مقامات پر لے جاتا اور معلومات بھی ایک رہبر کی طرح فراہم کرتے۔ خاصے اہم مقامات ہیں لیکن ایک بازار جس کا نام ''گرانڈ بازار'' ہے اپنی نوعیت کا دنیا میں شاید یہ ایک ہی بازار ہے۔ میں جن ممالک میں گیا وہاں ایسا بازار نہیں دیکھا۔ آگے چل کر اس کی تفصیل بیان کروں گا، چونکہ مقامات و معلومات طویل ہیں لہٰذا میری کاوش ہوگی مختصر کروں۔

ترکی کا سرکاری نام جمہوری ترکی ہے، اس کی سرحدیں آٹھ ممالک سے ملی ہوئی ہیں۔ شمال مغرب میں بلغاریہ، مغرب میں یونان، آذربائیجان ہیں۔ جنوب مشرق میں عراق، شام کی سرحدیں موجود ہیں مجھے بتایا اور وہ مقام بھی دکھایا جہاں حضرت نوحؑ کے علاوہ حضرت داؤدؑ کا دور بھی شمار کیا جاتا ہے۔ ترکی کے بارے میں کہا جاتا ہے پہلے آباد ہونے والے علاقوں میں سے سب سے پہلے یہ خطرہ ہے ترکی کا شہر ''اناطولیہ''...کے جزیرہ پر آتا ہے۔

اناطولیہ کے اس جزیرے نما پر سات ہزار پانچ سو سال پرانی زندگی کے آثار ملے ہیں، جس کو یونیسکو ورلڈ ہیریٹیڈ سائٹ میں بھی شامل کیا گیا ہے۔ اگر میں ترکی کے اہم اور تاریخی ادوار کی بات کروں تو ترکی 324 قبل مسیح میں یونانیوں کے سکندر نے فتح کیا، سکندر کی وفات کے بعد اس کے جانشین اس کی سلطنت کو نہ سنبھال سکے۔ یہ سلطنت ٹکڑوں میں تقسیم ہوگئی، بعد میں یونانیوں نے یہاں سلاویسی سلطنت کی بنیاد رکھی جو 63 تک قائم رہی۔ یونانیوں کی حکومت کے درمیان چند عرصہ یہاں آرمینیوں نے بھی حکومت کی۔ اسی دور میں حضرت عیسیٰؑ کی دنیا میں آمد ہوئی، ان کے اس دنیا سے زندہ اٹھائے جانے کے بعد رومیوں کو عروج ملا انھوں نے پورا اناطولیہ خطہ، شام، مصر اور فلسطین پر بھی قبضہ کرلیا۔ عیسائیوں کی بڑی تعداد نے ترکی کو اپنا مسکن بنالیا اور یہاں دعوت و تبلیغ کی سرگرمیاں جاری ہوگئیں۔ 300عیسوی کے دوران پورے خطے میں مسیحیت کو اپنالیا تھا 330 میں رومی شہنشاہ...نے مسیحیت قبول کرکے اسے سرکاری مذہب بنا دیا۔

یہ وہی بادشاہ تھا جس نے قسطنطنیہ کی بنیاد رکھی اس سے پہلے اس شہر کا نام بازنطین ہوتا تھا۔ مگر آج کل اس شہر کو استنبول کے نام سے پکارا جاتا ہے۔330 عیسوی سے لے کر 1453 تک ترکی کے بعض علاقوں میں رومی سلطنت قائم رہی۔ لیکن بعض علاقوں میں شام اور ترکی کے مشرقی حصوں کو مسلمانوں نے فتح کرلیا۔ مشرقی اور وسطی اناطولیہ پر سلجوقی سلطنت قائم تھی، جب کہ مغرب میں سلطنت رومی قائم تھی۔ سلجوقی سلطنت کے زوال پر اس کی باقیات میں سے عثمانیوں نے جنم لیا اور یہاں عثمانی سلطنت کی بنیاد رکھی۔

وسطی ایشیا سے آئے ہوئے مسلمانوں نے اس سلطنت کو چار چاند لگائے کہ اسے مسلمانوں کی سب سے بڑی سلطنت بنا دیا۔ سلطنت عثمانیہ کا صحیح دور 631 برس کا ہے۔ سولہویں صدی اور سترہویں صدی میں عثمانی سلطنت دنیا کی سب سے طاقت ور اور مضبوط ترین سلطنت تھی۔ اپنے زوال کے وقت سلطنت عثمانیہ نے پہلی جنگ عظیم میں جرمن کا ساتھ دیا۔ جرمنی کی شکست کے بعد معاہدہ سورح کیا گیا جس کی ترکوں نے بہت مخالفت کی، فتح پانے والے ممالک نے اس سلطنت کو ٹکڑوں میں منقسم کرتے ہوئے اس سلطنت پر قابض ہوگئے۔ترکی کی تاریخ میں سلطان محمد فاتح کا ذکر ضرور ہے جس کی مثال دنیا میں نہیں، سلطان محمد فاتح نے حدیث سن رکھی تھی کہ حضرت محمدؐ کا فرمان ہے کہ جو شخص قسطنطنیہ کو فتح کرے گا وہ جنتی ہوگا۔

یہ شہر دو سمندر کے درمیان ایک پہاڑی پر واقع تھا یہاں تک پہنچنے کا صرف ایک ہی پانی کا راستہ تھا۔ ان لوگوں نے اس راستے کے پانی میں زنجیر بچھا رکھی تھی، جب کوئی جہاز حملہ آور ہوتا تو زنجیر کھینچ لی جاتی اور پانی میں آتش گیر مادہ ڈال کر آگ لگا دیتے جس کے نتیجے میں جہاز جل کر راکھ ہو جاتا۔ سلطان محمد فاتحہ نے نہایت کامیاب حکمت عملی استعمال کی جس میں اس کو خاصی محنت اور کئی دن صرف ہوئے۔ سلطان محمد فاتح نے 1453 کو قسطنطنیہ کو فتح کرلیا۔ دنیا میں اس عظیم فتح کو تاریخ میں قلم بند کرا دیا یہ سلطان محمد فاتح کا بڑا کارنامہ تھا۔9 مئی 1919 کو ترکوں کے عسکری کمانڈر مصطفیٰ کمال پاشا کی قیادت میں جنگ آزادی کا اعلان کردیا۔18 ستمبر 1922 کو ترکوں نے تمام فوجیوں کو ترکی سے نکال دیا یکم نومبر 1922 کو ترک پارلیمنٹ نے ترک خلافت کا خاتمہ کردیا۔ 631 برس عظیم عثمانیہ سلطنت کا خاتمہ ہوا۔

24 جولائی 1923 کو معاہدہ لوذان ہوا۔ یہ وہی معاہدہ تھا جس نے ترکی کو باندھ کر رکھ دیا۔ مغربی ممالک کی یہ مسلمانوں کے خلاف ایک سازش تھی جو کامیاب ہوگئی۔ لوذان معاہدہ میں ترکوں پر سو سالوں کے لیے پابندیاں لگا دی گئیں۔ ان پابندیوں میں ترکی اس طے شدہ حدود کی خلاف ورزی نہیں کرسکتا تھا۔ اس معاہدے میں سلطنت کا خاتمہ، سلطان نے استعفیٰ دے دیا۔ رجب طیب اردگان ترکی کے وزیر اعظم منتخب ہوئے۔ نومبر 2000 میں ہونے والے انتخابات میں پارٹی نے اکثریت سے اپنی حکومت قائم کی۔ 2014 سے رجب طیب اردگان ترکی کے بارہویں حکمران کی حیثیت سے اپنے فرائض انجام دے رہے ہیں۔ 2023 کو لوذان معاہدہ ختم ہوجائے گا۔

جس کے بعد ترکی چاہے تو دوبارہ سلطنت عثمانیہ کی بنیاد رکھ سکتا ہے۔ ترکی دو براعظم ایشیا اور یورپ میں واقع ہے، اس ملک کا 3 فیصد حصہ یورپ جب کہ 97 فیصد جس قدر حصہ مغربی ایشیا میں آتا ہے۔ ترکی کا مجموعی رقبہ سات لاکھ 83 ہزار، 356 مربع کلو میٹر ہے۔ ترکی کی آبادی 8 کروڑ، ساڑھے آٹھ لاکھ بارہ ہزار 535 افراد ہے۔ انقرہ ترکی کا دارالحکومت ہے لیکن استنبول ترکی کا سب سے بڑا اور کاروباری شہر ہے۔

اس شہر کو تاریخ میں قسطنطنیہ کے نام سے بھی یاد کیا جاتا ہے۔ ترکی کے کل 81 صوبے ہیں جن میں استنبول، انقرہ، ازمیق، بوسیہ، کونیا، دانیا اور اردو و مشہور صوبے ہیں۔ ترکی کے 12 ایسے شہر ہیں جن کی آبادی 5 لاکھ افراد سے زیادہ ہے۔ جب کہ ایک لاکھ سے زائد آبادی والے شہروں کی تعداد 48 کے قریب ہے۔ ترکی کی کرنسی کو ترکی لیرا کہا جاتا ہے۔اسلام ترکی کا سب سے بڑا مذہب ہے جس میں ملکی آبادی کا 82 فیصد افراد مانتے ہیں۔ 2 فیصد مسیحیت کے ماننے والے، 7 فیصد ایسے ہیں جن کے بارے میں معلوم نہ ہو سکا وہ کس مذہب کے ماننے والے ہیں ایسا معلوم ہوتا ہے وہ کسی مذہب کے ماننے والے نہیں۔ 2 فیصد دیگر مذاہب کے ماننے والوں کے علاوہ بقیہ آبادی کا معلوم نہیں۔1963 ترکی دوسرا ملک ہے جس نے یورپی اتحاد بنانے سے متعلق معاہدے پر دستخط کیے تھے۔ 1983میں ترکی نے یورپی یونین کا رکن بننے کی درخواست کی تھی جسے 1989 میں یہ کہہ کر مسترد کردیا گیا تھا کہ ترکی میں ابھی مزید سیاسی و اقتصادی اصلاحات کی ضرورت ہے۔

یورپی یونین نے اکتوبر 2005 میں ترکی کو یورپی یونین کا امیدوار ممبر بننے کا امیدوار قرار دیا تھا۔ 18.2 فیصد آبادی سرکاری و غیر سرکاری اداروں میں ملازم ہیں۔ ٹیکسٹائل، فوڈ پراسسنگ، آٹوز، الیکٹرانک، سیاحت، مائننگ انڈسٹریز اور تعمیرات ترکی کی معیشت میں اہم ہیں۔گرانڈ بازار جس کا شروع میں ذکر کیا 1455 کو سلطنت عثمانیہ کے دور میں گرانڈ بازار کی بنیاد رکھی گئی تب اس کا نام کچھ اور تھا بالکل اس طرح جیسے برصغیر میں شیر شاہ سوری نے جرنیلی سڑک بنوائی جوکہ انگریز کے دور میں گرانڈ روڈ کہلائی۔ گرانڈ بازار کو میں نے ایک بار نہیں کئی بار دیکھا۔ پورا بازار کئی بار جا کر دیکھا ایک دفعہ میں پورا دیکھنا مشکل ہے۔ اس کی تفصیل کچھ یوں ہے 64 گلیاں ہیں، 4 ہزار سے زائد دکانیں ہیں اور 25 ہزار سے زیادہ کام کرنے والے افراد ہیں۔ استنبول میں پچھلے 3 برسوں سے یہاں آنے والے سیاحوں کی تعداد 3 کروڑ سے زائد ہے۔ ان 3 کروڑ میں سے ایک کروڑ ہر سال اس گرانڈ بازار کا سفر لازمی کرتے ہیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں