اللہ اکبر

پاکستان مذکورہ امن معاہدے کے ضمن میں خصوصی مبارکباد کا مستحق ہے


[email protected]

افغانستان کی سرزمین جس کے بارے میں بجا طور پر یہ خیال پایا جاتا ہے کہ کوئی سپرپاور یہاں طاقت کی زبان میں کبھی کوئی جنگ نہ جیت سکی، ایک بار پھر درست ثابت ہوگیا ہے۔ امریکا نے 11 ستمبر 2001 کے بعد افغانستان پر جو جنگ زبردستی تھوپی تھی، اپنی پیدا کردہ جنگ میں آج امریکا نے افغانستان کے ساتھ امن معاہدہ کرکے گویا خود ہی اپنی شکست کا اعتراف کرلیا۔ ظاہر ہی سی بات ہے کہ اگر امریکا اس جنگ کو جیت چکا ہوتا تو اسے کسی صورت امن معاہدے کی ضرورت پیش نہ آتی، لہٰذا اس طرح 18 سال 4 ماہ بعد امریکی استحصال اور جبر و استبداد کا تاریک دور بالآخر تمام ہوا، اس دوران انسانیت کا جو نقصان ہوا وہ ہر جابرانہ دور کی طرح ناقابل تلافی ہے۔ لیکن دنیا جانتی تھی اس امریکی جنگ کا انجام منطقی طور پر ہونا بالآخر یہی تھا۔

4 رجب 1441 ھ بمطابق 29 فروری 2020 بروز ہفتہ جب سپرپاور امریکا نے اپنی تاریخی شکست پر دستخط کرکے ثابت کردیا کہ ''جنگ میزائل، ٹینک، جہازوں، گولہ و بارود اور جدید جنگی ٹیکنالوجی سے نہیں بلکہ ایمانی جذبے سے جیتی جا سکتی ہے۔'' جہاد کا وقار دیکھیے کہ 53 ممالک سے بننے والی نیٹو آج چند مجاہدین (داڑھی پگڑی، پھٹے پرانے جوتے و کپڑے پہننے والے طالبان) کے سامنے سرنڈر ہوگئے۔

دوحہ میں 50 ممالک کے نمایندوں کی موجودگی میں نائب طالبان امیر ملا برادر اور امریکی خصوصی نمایندے زلمے خلیل نے امن معاہدے پر دستخط کیے تو، ہال اللہ اکبر کے نعروں سے گونج اٹھا، طالبان کی جانب سے مذاکرات کرنے والی ٹیم کے اہم رہنما عباس استانگزئی نے اس تاریخی حقیقت کا اظہار کیا کہ ''اس میں کوئی شبہ نہیں کہ ہم جنگ جیت گئے ہیں یہی وجہ ہے کہ ہم اس معاہدے پر دستخط کر رہے ہیں دوسری جانب نیٹو سربراہ نے بھی اس معاہدے کو امن کی جانب پہلا قدم قرار دیا ہے۔

امریکا اور طالبان کے درمیان اس تاریخی معاہدے کے اہم نکات کے مطابق نمبر 1 طالبان اس بات کی ضمانت دیں گے کہ افغانستان کی سرزمین دہشت گردی کے خلاف استعمال نہیں ہوگی۔ نمبر 2۔ امریکا اور اتحادی افواج کے انخلا کی ٹائم لائن دی جائے گی۔ نمبر 3 غیر ملکی افواج کا مکمل انخلا عالمی گواہان کی موجودگی میں ہوگا اور اس بات کو یقینی بنایا جائے گا کہ امریکا اور اس کے اتحادیوں کے خلاف امارات اسلامی یعنی طالبان اپنی سرزمین استعمال کرنے کی اجازت نہیں دیں گے جب کہ امارات اسلامی جسے امریکا نے ریاست تسلیم نہیں کیا ہے وہ 10 مارچ 2020 سے بین الافغان مذاکرات شروع کرے گا۔ نمبر 4 مکمل جنگ بندی بین الافغان مذاکرات کے ایجنڈے میں شامل ہوگی۔ افغان فریقین ایک جامع جنگ بندی، اس کے نفاذ اور مستقبل کے سیاسی روڈ میپ پر بھی مذاکرات کریں گے۔ پہلے مرحلے میں افغانستان میں تعینات 13 ہزار فوجیوں کی تعداد ساڑھے چار ماہ میں 8600 تک لائی جائے گی۔

اس کے بعد باقی ماندہ فوجیوں کا انخلا ساڑھے نو ماہ میں ہوگا۔ امریکا اور اتحادی افواج افغانستان میں پانچ فوجی اڈے خالی کریں گے۔ اوسلو میں بین الافغان مذاکرات سے قبل طالبان اور امریکا ایک دوسرے کے قیدیوں کی حتمی فہرست حوالے کریں گے۔ 10 مارچ 2020 تک طالبان 5 ہزار قیدی اور دوسرے فریق کے ایک ہزار افراد کو رہا کیا جائے گا۔ دونوں فریقین باقی ماندہ قیدیوں کو تین ماہ کے اندر رہا کریں گے۔ انٹرا افغان مذاکرات کے دوران 27 اگست تک امریکا طالبان رہنماؤں پر پابندیاں ختم کرے گا۔ امریکا افغانستان کی تعمیر نو اور بین الافغان مذاکرات کے بعد نئے سیاسی نظام کے لیے اقتصادی معاونت جاری رکھے گا لیکن افغانستان کے اندرونی معاملات میں مداخلت نہیں کرے گا۔

معاہدے کی رو سے طالبان افغانستان کی زمین القاعدہ سمیت کسی بھی فرد یا گروہ کو امریکا اور اس کے اتحادیوں کی سلامتی کے خلاف استعمال کرنے نہیں دیں گے۔ طالبان ایک واضح پیغام دیں گے کہ امریکا اور اس کے اتحادیوں کی سلامتی کے لیے خطرہ بننے والوں کی افغانستان میں کوئی جگہ نہیں ہوگی جب کہ طالبان ارکان کو ہدایت کی جائے گی کہ وہ ایسے کسی بھی فرد یا گروہ سے تعاون نہ کریں۔ اس کے ساتھ ساتھ طالبان ایسے کسی بھی فرد یا گروہ کو بھرتی کرنے، تربیت دینے، فنڈ لینے نہیں دیں گے اور معاہدے کی رو سے ان کی میزبانی نہیں کی جائے گی۔ بین الاقوامی ہجرت قانون اور اس معاہدے کی رو سے طالبان افغانستان میں سیاسی پناہ یا رہائش تلاش کرنے والوں سے نمٹنے کے لیے پرعزم ہیں۔

امریکا اور اس کے اتحادیوں کے لیے خطرہ بننے والوں کو افغانستان میں داخلے کے لیے طالبان ویزے، پاسپورٹس، سفری اجازت نامے اور دیگر قانونی دستاویزات فراہم نہیں کریں گے۔ امریکا اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل سے اس معاہدے کی منظوری کے لیے اور توثیق کے لیے درخواست کرے گا۔ طالبان اور امریکا ایک دوسرے کے ساتھ مثبت تعلقات چاہتے ہیں اور توقع کرتے ہیں کہ بین الافغان مذاکرات کے ذریعے طے کی گئی تصفیہ کے بعد کی نئی افغان اسلامی حکومت اور امریکا کے درمیان تعلقات مثبت ہوں گے۔ امریکا بین الافغان مذاکرات کے ذریعے طے کی گئی تصفیہ کے بعد کی نئی افغان اسلامی حکومت کے ساتھ تعمیر نو کے لیے معاشی تعاون چاہے گا اور اندرونی معاملات میں دخل نہیں دے گا۔

مندرجہ بالا شرائط معاہدہ کو سامنے رکھیے اور سیرت نبویؐ سے استفادہ کرتے ہوئے عہد نبویؐ کے غزوات و سرایا، معاہدات امن و صلح (بشمول و بالخصوص صلح حدیبیہ) اور دیگر سیاسی وثیقہ جات کا مطالعہ کیجیے تو معلوم چلے گا کہ مذکورہ امن معاہدہ اسلام کے سیاسی و عسکری نقطہ نظر سے بھی طالبان کی بہت بڑی کامیابی اور فتح ہے۔

افغان امن موثر اور دیرپا بنانے کے لیے دونوں فریقین کو ان دیدہ و نادیدہ قوتوں کی شرارتوں پر بھی کڑی نظر رکھنی پڑے گی جو اپنی تمام تر سازشوں، شورشوں اور مکر و فریب و دجل کے ذریعے بڑی مہارت سے اس معاہدے کو سبوتاژ کرسکتے ہیں۔ افغانستان کی طویل مدتی جنگ سے عاجز عوام اب مستقل امن کے خواہاں اور آرزومند ہیں اور وہ اس کے سب سے زیادہ مستحق بھی ہیں۔ اس معاہدے کے بعد افغانستان اب کسی خانہ جنگی کا بھی متحمل نہیں ہوسکتا جیساکہ افغانستان روسی اور افغان مجاہدین کے مابین جنیوا معاہدے کے باوجود خانہ جنگی کی لپیٹ میں آگیا تھا جس کی وجہ سے افغانوں کو کافی نقصان پہنچا تھا لہٰذا افغانوں کی حقیقی فتح اس وقت ہوگی جب وہ امن اور خوشی سے رہ سکیں گے۔

پاکستان مذکورہ امن معاہدے کے ضمن میں خصوصی مبارکباد کا مستحق ہے کیونکہ اس معاہدے کی شروعات سے تکمیل تک پاکستان نے اہم اور کلیدی کردار ادا کیا، پاکستان کے بغیر یہ سب کچھ ممکن نہ تھا اور پاکستان کے اس تاریخی کردار کو امریکا سمیت دیگر ممالک نے سراہا بھی ، خود پاکستان کا امن بھی افغانستان سے مشروط ہے، 9/11 کے بعد امریکا کے افغانستان پر حملوں کے بعد پاکستان میں جس دہشت گردی اور خودکش بم دھماکوں کا ایک لامتناہی سلسلہ ہوا تھا وہ اب ختم ہو جائے گا اور وطن عزیز میں مزید امن قائم ہوگا تاہم بھارتی ہاتھ کو نظرانداز نہیں کیا جاسکتا اس پر نظر رکھنے کی ضرورت ہمیشہ رہے گی۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں