نئے آرمی چیف کا تقرر ہارون اسلم سینئر ترین جنرل ظہیر الاسلام ’’چھپے رستم‘‘ ثابت ہوسکتے ہیں

ہارون اسلم کمانڈر ایس ایس جی رہے،’ریڈ ونگز‘بھی حاصل کیے، راشد محمود جنرل کیانی کی بلوچ رجمنٹ سے ہی تعلق رکھتے ہیں


Express Tribune Report November 23, 2013
راحیل شریف کے شریف برادران سے مراسم ہیں، طارق خان کو ’سپاہیوں کا سپاہی‘کہا جاتا ہے،ظہیرالاسلام کیانی کے قریب دوست ہیں۔ فوٹو: فائل

KARACHI: پاکستان کے 14 ویں چیف آف آرمی اسٹاف جنرل اشفاق پرویزکیانی28 نومبر کو ریٹائرہورہے ہیں، انھوں نے6 سال تک پاک فوج کی قیادت کی۔

حکومت نے ابھی تک انکے جانشین کا اعلان نہیں کیا تاہم نئے آرمی چیف کا انتخاب عہدے کے 4 مرکزی امیدواروں اور ایک چھپے رستم میں سے ہی کیا جائیگا۔ نیاآرمی چیف ایسے وقت میں فوج کی قیادت کرے گا جب افغانستان سے اتحادی افواج کا انخلا شروع ہوچکا ہوگا، حکومت اور طالبان میں مذاکرات ہونگے اور نیا آرمی چیف بھارت، چین، امریکا اور خلیجی ریاستوں کے ساتھ سفارتی اتار چڑھائو بھی دیکھے گا۔ جنرل خالد شمیم وائیں کی ریٹائرمنٹ کے بعد سے چیئرمین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف کمیٹی کا عہدہ بھی خالی پڑا ہے، روایتی طور پراس عہدے پرآرمی افسران ہی تعینات ہوتے رہے مگرحقیقت میں اس عہدے کے لیے تعیناتی تینوں مسلح افواج سے باری باری کی جاتی ہے اور اب بحریہ کی باری ہے اور نیول چیف ایڈمرل آصف سندھیلہ سب سے سینئیر افسر بھی ہیں۔

نئے آرمی چیف کی تعیناتی وزیراعظم نواز شریف نے کرنی ہے اورانھوں نے ابھی تک اس حوالے سے کوئی اشارہ نہیں دیا، اب دیکھنا ہے کہ وزیراعظم نے اس حوالے سے جانیوالے آرمی چیف کی رائے کوکتنی اہمیت دی ہے۔ لیفٹیننٹ جنرل ہارون اسلم اس وقت سب سے سینئر ہیں، ان کا تعلق آزاد کشمیر رجمنٹ، آرٹلری سے ہے اور وہ اس وقت چیف آف لاجسٹکس اسٹاف تعینات ہیں، اس سے قبل وہ بطور لیفٹیننٹ جنرل کورکمانڈر بہاولپور اورچیئرمین ایرا رہ چکے ہیں جبکہ بطور میجر جنرل انھوں نے ڈی جی رینجرز پنجاب اور جی او سی ایس ایس جی خدمات انجام دی ہیں، بطور بریگیڈیئر ڈائریکٹر ملٹری آپریشنز ڈائریکٹوریٹ تعینات رہے۔ سینارٹی کے مطابق اگر انھیں چیئرمین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف کمیٹی نہ بنایا گیا تو وہ چیف آف آرمی اسٹاف بن سکتے ہیں۔ انھیں روایت پسند لابی کی حمایت حاصل ہے۔ انکی موجودہ پوسٹنگ زیادہ بیوروکریٹک ہے جبکہ انھیں ایس ایس جی میں ایکسٹرا اسپیشل 'ریڈ ونگر' بھی ملے ہیں، ریڈ ونگز کے لیے کم ازکم 50 بار پیراشوٹ کے ذریعے جہاز سے کودنا پڑتا ہے۔ ان کا سینہ چوڑا اور قد چھوٹا ہے۔



اگر انھیں آرمی چیف بنایا جاتا ہے تو وہ پرویزمشرف اور مرزا اسلم بیگ کے بعد تیسرے ایس ایس جی آرمی چیف ہونگے۔ اکتوبر 1999ء میں وہ ڈائریکٹر ملٹری آپریشنز تھے۔ سینارٹی میں دوسرے نمبر پر لیفٹیننٹ جنرل راشد محمود آتے ہیں، انکا تعلق بلوچ رجمنٹ سے ہے، جنرل اشفاق پرویزکیانی بھی بلوچ رجمنٹ سے ہیں، اس وقت وہ چیف آف جنرل اسٹاف کے عہدے پر تعینات ہیں، وہ کورکمانڈر لاہور تعینات رہے، اس سے قبل بطور میجر جنرل آئی ایس ایس میں خدمات انجام دیتے رہے، وہ نواز شریف دور میں صدر رفیق تارڑ کے ملٹری سیکریٹری بھی رہے۔ اگر یفٹیننٹ جنرل ہارون اسلم کو چیئرمین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف کمیٹی بنایا جاتا ہے تو وزیراعظم انھیں آرمی چیف بناسکتے ہیں۔ اس سے قبل یحییٰ خان، گل حسن، اسلم بیگ، آصف نوازاور جہانگیر کرامت بھی آرمی چیف بننے سے قبل چیف آف جنرل اسٹاف تعینات رہے تھے جبکہ عزیزخان، طارق مجید اور خالد شمیم وائیں بھی چیئرمین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف کمیٹی بننے سے قبل چیف آف جنرل اسٹاف تھے۔

کور کمانڈر لاہور تعیناتی کے دوران انکا شریف برادران سے بھی رابطہ رہا ہے، جنرل راشد دراز قد، نرم خو اور خاموش طبع ہیں۔ جنرل راشد کو'نیو اسکول' لابی کی حمایت حاصل ہے اور یہ بھی خیال کیا جارہا ہے کہ آئی ایس آئی میں خدمات سرانجام دینے اور آئی ای ڈیز کے حوالے سے کام کرنے پر انھیں امریکا کی حمایت بھی حاصل ہے۔ تیسرا نمبر لیفٹیننٹ جنرل راحیل شریف کا ہے، وہ میجر شبیر شریف شہید کے بھائی ہیں، انکا تعلق فرنٹیئر فورس رجمنٹ سے ہے اور ان دنوں آئی جی ٹریننگ اینڈ ایولوایشن تعینات ہیں، اس سے قبل وہ کور کمانڈر گوجرانوالہ، کمانڈر ملٹری اکیڈمی کاکول اور جی او سی لاہور رہے ہیں۔ راحیل شریف کو فوج میں روایتی حلقوں کی حمایت حاصل ہے۔ راحیل شریف کے سابق فوجی سربراہان، لاہور کے سیاسی خاندان سے بھی مراسم ہیں۔ چوتھے نمبر پر لیفٹیننٹ جنرل طارق خان کا نام آتا ہے، وہ ان دنوں کور کمانڈر منگلا تعینات ہیں، اس سے قبل وہ ڈی جی ایف سی، جی او سی آرمرڈ ڈویژن، سینئیر نمائندہ یو ایس سینٹکام تعینات رہے، انھوں نے ملٹری اکیڈمی سے اعزازی شمشیر بھی حاصل کی تھی۔

امریکا میں انھیں عزت کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے اور انہیں کیانی کی طرح لیجیون آف میرٹ (Legion of Merit) بھی ملا ہے۔ انھوں نے کبھی پی ایس او ڈیسک جاب نہیں لی، انھیں 'سپاہیوں کا سپاہی' کہا جاتا ہے، ان کے اندر ایک صحافی بھی چھپا ہوا ہے اور وہ فوج کے سہہ ماہی سٹاڈل (citadel) کے ایڈیٹر رہے ہیں، جس میں انھوں نے کچھ متنازع تجاویز بھی چھاپنے کی اجازت دی تھی۔ آخر میں لیفٹیننٹ جنرل ظہیرالاسلام عباسی کا نام ہے، وہ اس وقت ڈی جی آئی ایس آئی تعینات ہیں، اسے قبل وہ کور کمانڈر کراچی اور آئی ایس آئی میں خدمات سرانجام دے چکے ہیں۔ جنرل راشد کے علاوہ وہ واحد جنرل ہیں جنھوں نے آئی ایس آئی میں خدمات سرانجام دی ہیں، وہ جنرل کیانی کے قریبی دوستوں میں بھی شمار ہوتے ہیں۔ وہ بہت کم بولتے ہیں مگر حال ہی میں انھیں کہتے سنا گیا کہ ہربھارتی میں ایک بال ٹھاکرے چھپا ہوا ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں