ترکی کے صدر رجب طیب اردوان

1870ء میں عثمانیوں کی روسیوں سے جنگ شروع ہوئی تو طیب اردوان کے آباؤ اجداد ترکی ہجرت کر گئے۔


ایم قادر خان February 12, 2020

جب دلوں کی ڈور جڑتی ہے وہ لے جاتی ہے ترقی، چاہت و الفت بلندی تک، وقت کے ساتھ آگے بڑھتے ہیں ترقی کی شمع روشن ہوتی ہے۔ عوام کو اپنے خوابوں میں اکثر ایک چہرہ دکھتا ہے جس میں اپنے ملک و ملت کا دکھ درد زندگی کے ہر موڑ پر اپنی عوام کو خوشحال بنانے کا مصمم ارادہ ہو، جس نے ہر خوشی اور غم میں اپنا نام لکھا ہے جو نمایاں ہے تلاش کرنے کی ضرورت نہیں۔

26 فروری 1954ء کو استنبول شہر کے کچھ فاصلے پر موجود ایک چھوٹے سے شہر قاسم پاشا میں صدر رجب طیب اردوان پیدا ہوئے۔ انکے والد کا نام احمد اردوان تھا۔ رجب طیب اردوان کے آباؤ اجداد سلطنت عثمانیہ کے دور حکومت میں جارجیہ میں رہا کرتے تھے۔

1870ء میں عثمانیوں کی روسیوں سے جنگ شروع ہوئی تو طیب اردوان کے آباؤ اجداد ترکی ہجرت کر گئے۔ جو لوگ اسلام کے پاس ہوتے ہیں انھیں اسلامی اور اسلام کی طرز زندگی کا احساس ہوتا ہے۔ یہ حقیقت ہے رجب طیب اردوان کے آباؤ اجداد جارجیہ میں رہا کرتے تھے، جہاں ان کے ساتھ آبادی کی اکثریت عیسائیوں کی تھی۔

رجب طیب اردوان کے خاندان میں اسلامی طرز زندگی رچ بس گئی تھی والدین نے اسی روش پر تربیت کی۔ جب چھوٹے تھے ان کے گھر کے حالات بہتر نہ تھے، ان کے والد ایک پھل فروش تھے۔ طیب اردوان نے بچپن میں ایک مدرسے میں داخلہ لیا جہاں وہ عربی کی تعلیم حاصل کرتے تھے۔ رجب طیب اردوان خود بتاتے ہیں کہ ''جب میں مدرسے جایا کرتا تو راستے میں کئی لوگ مجھے کہا کرتے بیٹا! کسی اچھے اسکول میں داخلہ لے لو، مدرسے میں پڑھنے کے بعد تمہیں نہلانے تو مردے ہیں، مگر میں ان کی باتوں کی پرواہ نہ کرتا اور چلتا چلا جاتا۔'' وہ جب مدرسے سے گھر آتے تو لیمو کے شربت کا ٹھیلہ لگاتے جس سے ان کا گزر بسر ہو جاتا۔

1973ء میں رجب طیب اردوان نے قرآن پاک حفظ کر لیا۔ ہائی اسکول کی تعلیم مکمل کی۔ 1978ء میں انھوں نے شادی کر لی چار بچے پیدا ہوئے۔ بڑے بیٹے کا نام اپنے والد کے نام پر احمد اردوان رکھا، دوسرے بیٹے کا نام بلال جب کہ مزید انکے ہاں دو بیٹیاں بھی ہوئیں۔1981ء میں رجب طیب اردوان نے مرمرہ یونیورسٹی سے بزنس ایڈمنسٹریشن کی ڈگری حاصل کی۔رجب طیب اردوان کا مدرسے میں تعلیم حاصل کرنا ان کے اسلام سے لگاؤ کی ایک بڑی وجہ تھی۔

70ء کی دہائی میں جب دشمنوں، صیہونی طاقتوں نے ترکش قوم کو اسلام سے کوسوں دور کر دیا تھا رجب طیب اردوان نے اسٹوڈنٹ یونین میں شمولیت اختیار کی، وہ اسلام مخالف ہونیوالے ہر کام کی مخالفت کرتے رہے۔1974ء میں وہ اسلامی نیشنل پارٹی کے سربراہ مقرر ہوئے۔ 1991ء میں وہ پہلی بار سیاست میں آئے۔ یہ وہ دور تھا جب ترکش قوم پاکستانیوں کی طرح دیگر ممالک میں جا کر ملازمت کرتی تھی۔ ترکی کا صرف 3 فیصد حصہ یورپ میں آتا ہے ترکی میں خواتین کو اسکارف پہننے پر پابندی عائد تھی۔ مسلم دشمن، صیہونی طاقتیں چاہتی تھیں کہ ترکش کو برائیوں کی طرف دھکیلا جائے یہ کام جاری تھا۔ عوام کو ورغلایا جا رہا تھا یورپی ماحول، عیش و تعیش کے سبز باغات دکھا کر بربادی کے دہانے پر لایا جا رہا تھا۔

جنگ عظیم اول کے خاتمے کے بعد زیادہ عرصے تک ترکی پر فوجی حکومت قائم رہی۔ ان عرصوں کے دوران اسلام سے کوسوں دوری اختیار کرتی رہی۔ شروع میں تو حالات یہ ہو گئے تھے کہ مساجد میں اذان عربی کے بجائے مقامی زبانوں میں دی جانے لگی۔ اس جنگ عظیم کے دوران جب فرانس میں معاہدہ لوذان ہوا۔ 24 جولائی 1923ء فرانس کے شہر لوذان میں ایک معاہدہ ہوا جس کو معاہدہ لوذان کا نام دیا جاتا ہے۔ یہ سو سالہ معاہدہ کیا گیا جو 26 جولائی 1923ء سے 25 جولائی 2023ء تک کا ہے۔ اس معاہدے میں دیگر شرائط کے علاوہ ایک شرط یہ بھی تھی کہ ترکی ایک سیکولر ملک بن چکا ہے۔

اس ملک میں اسلام کے پھلنے پھولنے اور اسلامی نفاذ اسلامی تقاریر کرنے پر بھی سخت پابندی عائد کی گئی۔ ملک کی حالت یہ تھی کہ مصروف ترین شہر استنبول گندگی کا ڈھیر بن چکا تھا۔ لوگوں کو صاف پانی میسر نہیں تھا، گلی، محلوں کی حالت ابتر ہو چکی تھی ٹریفک ایک بڑا مسئلہ تھا سڑکوں کی حالت اب جیسی نہ تھی۔27 مارچ 1997ء کو رجب طیب اردوان استنبول کے میئر منتخب ہوئے تو انھوں نے بہت جلد استنبول کے مسائل پر قابو پا لیا۔ صرف استنبول شہر کے چار سال کے اندر انھوں نے حالات بدل دیے۔1998ء میں رجب طیب اردوان نے فنٹامینٹانیس ویلفیئر پارٹی کی بنیاد رکھی۔

دسمبر 1997ء کو رجب طیب اردوان نے ایک ترکی شاعر کی تحریر کردہ نظم کو تھوڑا تبدیل کرکے پڑھا۔ اسلامی تقاریر پر دشمنوں، صیہونی طاقتوں نے پہلے سے سخت پابندی عائد کی ہوئی تھی ایسے وقت میں طیب اردوان نے نظم کو تبدیل کر کے پڑھا۔ اس کا مختصر ترجمہ تھا کہ ''یہ مساجد ہمارے قلعے ہیں، یہ گنبد ہمارے پہلی بیت ہیں، یہ مینار ہمارے سپاہیوں کی نشانیاں ہیں۔'' اس تقریر کے بعد انھیں استنبول کے میئر سے دستبردار کر دیا گیا۔ رجب طیب اردوان نے ہنسی خوشی اس سزا کو قبول کیا۔

2001ء میں رجب طیب اردوان نے جسٹس ڈیولپمنٹ پارٹی کی بنیاد رکھی۔ 2002ء میں پہلی بار انھوں نے پارٹی رہنما کی حیثیت سے شمولیت کی۔ رجب طیب اردوان کی پارٹی نے اس انتخابات میں 34.3 فیصد کی شرح سے انتخابات جیت لیے۔ ترکی کے اسٹاک ایکسچینج میں اس ایک یوم میں 7 فیصد کا اضافہ ہوا تھا۔ مخالف پارٹی نے عدالت میں مقدمہ دائر کر دیا۔ انھیں ملک کا وزیر اعظم بننے سے روک دیا گیا، ان کی وہی پرانی ایک تقریر کی وجہ سے پابندی عائد کر دی گئی۔ رجب طیب اردوان نے اپنے نائب عبداللہ گل کو وزیر اعظم بنا دیا۔ الیکشن کمیشن نے طیب اردوان کی سیٹ کو بھی منسوخ کر دیا۔(جاری ہے)

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں