نئے قبرستانوں کے لیے زمین الاٹ کی جائے
آئے دن قبرستانوں کے لیے زمین نہ ہونے کی وجہ سے کئی مافیاز نے اس کو اپنا بزنس بنا لیا ہے۔
ISLAMABAD:
میں کئی چیزوں پر بڑا حیران ہوتا ہوں کہ ہم انسان کتنے خراب ہوگئے ہیں کہ سب کچھ جانتے ہوئے بھی وہ کچھ کرتے رہتے ہیں جو مذہبی و اخلاقی طور پر انسانیت کے بالکل خلاف ہے۔
آئے دن قبرستانوں کے لیے زمین نہ ہونے کی وجہ سے کئی مافیاز نے اس کو اپنا بزنس بنا لیا ہے کہ وہاں پر اپنے گورکن آباد کر لیے ہیں جو اپنی فیملی کے ساتھ آباد ہیں جن کا کام ہے کہ وہ مافیا والوں کے لیے کام کریں اور جو مردے دفن کرتے ہیں ان کے ورثا سے بھی پیسے لیں۔ پہلے زمانے میں قبرکی کوئی قیمت نہیں تھی اور رشتے دار اور ہمسائے ہی قبر کھودا کرتے تھے۔ جب کسی مدفن کا رشتے دار اگر کچھ عرصہ نہیں آتا ہے تو اس قبر سے ہڈیاں نکال کر بیچ دی جاتی ہیں۔ مردوں کے خاص طور پر عورتوں کے بال کاٹ کر پیسوں پر دیے جاتے ہیں۔
جب نیا مردہ دفنانے کے لیے لایا جاتا ہے تو ان کے ورثا سے ہزاروں روپے لیے جاتے ہیں۔ میرے چھوٹے بھائی اعجاز کا چار سال پہلے جب انتقال ہوا تو اس کے لیے قبر 7 ہزار روپے میں بڑی سفارش کے ساتھ خریدی گئی اور پھر اس کی روزانہ آکر فاتحہ پڑھاتے تھے اور دیکھ بھال کرتے تھے۔ آخر کار اس کی قبر کو پکا کروایا گیا اور اس کی دیکھ بھال کے لیے کافی عرصے تک اسی علاقے کے ایک بندے کو پیسے دیے جاتے تھے تاکہ وہ یہ دیکھے کہ کوئی قبر پر قبضہ تو نہیں کر رہا ہے یا اس پر کوئی اور قبر تو نہیں بنائی جا رہی ہے۔
اب تو ہر شہر کی آبادی بڑھ رہی ہے ، قبرستانوں کے لیے کوئی نئی زمین نہیں دی گئی ہے، جب آپ قبرستان مردہ دفنانے آتے ہیں یا فاتحہ پڑھنے آتے ہیں تو قبروں کے اوپر جوتوں سمیت گزر کر آتے ہیں۔ حکومت کی طرف سے اس پر کوئی توجہ نہیں ہے بلکہ اب تو مردہ دفنانے پر بھی ٹیکس لگا دیا گیا ہے جس کی وجہ سے اب غریب کا مرنا بھی مہنگا ہو گیا ہے۔ انسان کے مرنے کے بعد اسے نہلانے سے لے کر، کفن، نماز جنازہ، ایمبولینس سے لے کر قبر تک کے خرچے کرنے پڑتے ہیں۔ خدا بھلا کرے ان مخیر حضرات کا جو کئی لوگوں کے کفن دفن کے اخراجات برداشت کرتے ہیں۔
لاڑکانہ شہر میں چار بڑے قبرستان ہیں جب کہ کئی درمیانے اور کچھ چھوٹے پیمانے کے تھے جس پر قبضہ کرکے وہاں پر دکانیں اور گھر بنائے گئے ہیں۔ ان چار بڑے قبرستانوں پر بھی کئی حصوں پر قبضہ کرکے وہاں بھی لوگوں نے گھر اور دکانیں بنا دی ہیں۔
لاڑکانہ کا بڑا اور دو صدیاں پرانا قبرستان ابوبکر ہے جہاں پر کئی بڑی شخصیات بھی دفن ہیں۔ یہ قبرستان موئن جو دڑو روڈ پر اتاترک میموریل کے سامنے بنا ہوا ہے ۔اس قبرستان کے گرد دیوار نہیں تھی کیونکہ جو بنائی گئی تھی اسے لوگوں نے آہستہ آہستہ توڑ کر قبروں کو مسمار کرکے قبضہ کرلیا اور گھر اور دکانیں بنالیں۔ اس کے علاوہ گھر کا گندا پانی قبرستان میں بہا دیتے ہیں۔ قبرستان میں ہی بھینسیں باندھی ہوئی ہیں جس کا گوبر اور پیشاب قبروں کے اندر جاتا ہے۔
قبرستان میں ہیروئنچی رہتے ہیں، ہیروئن پیتے ہیں، کتے اندر گھومتے رہتے ہیں کیونکہ چاروں طرف سے جو گیٹ لگے ہوئے ہیں وہ ہمیشہ کھلے رہتے ہیں۔ کبھی کبھی تو کتے نئی قبر کھود کر مردے کھا جاتے ہیں۔ قبرستان میں موالی نشہ کرتے ہیں اور آنے والوں سے پیسے لیتے ہیں۔ وہاں پر دو ہینڈ پمپ لگے ہوئے ہیں جہاں سے چھوٹے ڈبے پانی کے بھر کے موالی اور ہیروئنچی آتے ہیں اور ذرا سا پانی کا چھڑکاؤ کرکے آنے والوں سے پیسے لیتے ہیں۔ اس کے علاوہ کچھ نقلی مولوی اپنے ہاتھ میں تسبیح پکڑے، داڑھی بڑھا کر لبوں میں بڑبڑاتے ہیں اور کہتے ہیں کہ وہ ان کے رشتے داروں کی قبر پر قرآن پاک پڑھا کرتے ہیں اس لیے انھیں بھی کچھ دیا جائے۔
لوگ قبرستان کے باہر بیٹھے ہوئے پھول کی پتیاں اور اگربتی بیچنے والوں سے لے کر جب قبرستان میں داخل ہوتے ہیں تو انھیں کئی قبروں کے اوپر پاؤں رکھتے رکھتے اپنے رشتے داروں کی قبر تک پہنچنا ہوتا ہے جو بڑی بے حرمتی ہے۔ شہر کے سبھی قبرستانوں کی طرح ابو بکر میں جیسے ہی داخل ہوں گے تو آپ کے پاؤں مٹی میں دھنس جائیں گے کیونکہ اب وہاں پر بارشوں کی وجہ سے سیم اور تھور اتنا بڑھ گیا ہے کہ قبریں نیچے دھنس گئی ہیں۔ جو لوگ بڑے عرصے کے بعد آتے ہیں تو انھیں اپنے پیاروں کی قبروں کے نشان نہیں ملتے اور وہاں پر کوئی اور قبر بنی ہوتی ہے خاص طور پر وہ لوگ جو کراچی اور دنیا کے دوسرے ملکوں میں رہتے ہیں اور سالوں میں قبرستان کا رخ کرتے ہیں۔
قبرستانوں میں کوئی راستہ نہیں بنا ہوا ہے جہاں سے آپ گزر کر جائیں، جو درخت پرانے تھے وہ دن بہ دن ختم ہو رہے ہیں۔ وہاں پر کوئی لائٹنگ نہیں ہے اور جب کسی مردے کو دفنانے کے لیے لوگ آتے ہیں تو اپنے ساتھ لائٹ کا بھی انتظام کرنا ہوتا ہے۔ کئی مرتبہ یہ بھی معلوم ہوا کہ قبرستان میں رہنے والے بے حس ہیروئنچی مردوں کی ہڈیاں میڈیکل کالج والوں کو بھی بیچ آتے ہیں۔ اس میں میونسپل کارپوریشن کی یہ ذمے داری ہوتی ہے کہ وہ قبرستانوں میں اپنے چوکیدار تعینات کریں اور ان کی ذمے داری کو دیکھنے کے لیے سپروائزر ہونے چاہئیں جو کبھی نہیں ہوا۔
اس دنیا میں ایسے بھی لوگ ہیں جو مردے کا کفن بھی چراتے ہیں اور قبر کے اوپر لگی ہوئی اینٹیں اور لکڑی کی پیٹیاں بھی چرا کر بیچتے ہیں۔ کراچی میں تو مردہ قبر سے نکالنا اور آسان ہے کیونکہ قبر کے اوپر صرف سیمنٹ کی بنی ہوئی سلیبیں رکھ دی جاتی ہیں جس کے اوپر صرف مٹی ڈال دی جاتی ہے۔ اب تو انسانوں کو جہالت والے دور کی طرح قبروں پر بھی پہرا بٹھانا پڑتا ہے۔ عورتیں کہتی ہیں کہ اب عورت قبر میں بھی محفوظ نہیں ہے جس کے بارے میں آپ کئی مرتبہ پڑھ چکے ہیں۔
ملک میں مہنگائی اور لوگوں کی بے حسی یہ بھی ہے کہ کئی لوگ قبروں سے پھول کی پتیاں، رکھی ہوئی دالیں اٹھا لیتے ہیں یا تو وہ غربت کی وجہ سے خود کھاتے ہیں یا پھر بیچتے ہیں۔ قبرستان میں لگے ہوئے ہینڈ پمپس کا پانی بھی قبروں میں اندر جاکر انھیں کھوکھلا کر دیتا ہے۔ جب عید کے دن آتے ہیں تو قبرستانوں میں لوگ بڑی تعداد میں آتے ہیں جس کی وجہ سے قبروں کو مزید نقصان ہوتا ہے یا پھر بارشوں کے دنوں میں کسی مردے کو دفنانا ہوتا ہے تو پھر بھی کئی قبریں اندر چلی جاتی ہیں اور قبروں کا نشان مٹ جاتا ہے۔ اس کے علاوہ جب باڈی کو بھاری ڈولی میں لے کر ان دنوں میں قبرستان میں لایا جاتا ہے، تو اس سے بھی بے حد قبروں کو نقصان پہنچتا ہے اور آنے والوں کے پیر بھی اس میں دھنس جاتے ہیں جس سے بڑی بے حرمتی ہوتی ہے۔
لاڑکانہ میں اس وقت 5 لاکھ سے زیادہ آبادی ہے، جس کے لیے کوئی نیا قبرستان نہیں بنایا گیا اور جو پرانے ہیں اس میں اگر چار ہزار قبریں نظر آتی ہیں تو اس میں چار لاکھ لوگ دفن ہیں جن کی قبریں ختم ہوچکی ہیں۔ اس سلسلے میں کرسچن، بھیل، باگڑی، ہندو، ہریجن، اوڈ وغیرہ جو غیر مسلم ہیں ان میں بھی کئی لوگ اپنے مردے دفن کرتے ہیں جن کے لیے کوئی قبرستان نہیں ہے۔ کچھ عرصہ پہلے انھیں کئی علاقوں میں جگہ دی گئی مگر وہاں پر کچھ اثر و رسوخ رکھنے والے مسلمانوں نے قبضہ کرلیا اور زمین کو زراعت کے لیے استعمال کر رہے ہیں۔ جیساکہ لاڑکانہ میں کہیں بھی ایسا قانون عمل میں نہیں آیا ہے کہ ایسے قبضہ خوروں کے خلاف قانونی کارروائی ہوسکے۔
مسلمانوں کے قبرستان کے لیے میونسپل کارپوریشن اور حکومت سندھ کو چاہیے کہ نئی زمین الاٹ کرے ورنہ ایک خبر سچ ہوجائے گی کہ آیندہ انسان کی پاپولیشن اتنی بڑھ جائے گی کہ وہ اپنے مردے Space میں دفنائیں گے۔ مجھے ایک پٹھان نے بڑی اچھی بات بتائی کہ کراچی میں ان کی ایک تنظیم ہے جسے وہ سال میں 300 روپے چندہ دیتے ہیں جس سے تنظیم نے سپر ہائی وے پر ایک بڑا پلاٹ خرید کر اسے قبرستان بنایا ہے جہاں پر مردہ دفن کرنے کے لیے لوگوں کو ایمبولینس اور دوسری سہولیات ملتی ہیں۔ اگر لوگ اپنے شہر پشاور یا پھر کوئی KPK کے شہر میں جانا چاہتے ہیں تو انھیں ہوائی جہاز کے ذریعے لاش بھیجی جاتی ہے یا ایمبولینس جس میں اے سی بھی ہوتا ہے، دی جاتی ہے۔
میں اس تحریر کے ذریعے حکومت سندھ سے گزارش کرتا ہوں کہ جتنا جلد ہو سکے ہر شہر میں قبرستانوں کے لیے زمین دی جائے اور پرانے قبرستانوں میں لائٹ، درخت، پگڈنڈیاں، دروازے والے گیٹ اور دیوار کی سہولتیں دی جائیں اور قبضہ مافیا سے قبضہ چھڑا کر قبرستانوں کی زمین واپس دی جائے۔ نئے بنائے جانے والے قبرستان میں جو میں نے ذکر کیا ہے وہ سہولتیں دی جائیں کیونکہ یہاں پر سب نے آخر میں جانا ہے جس کے لیے برابری ہونی چاہیے۔