امید اور انتظار
مشہور جاسوسی کہانی نویس ایڈگر ایلن پو نے کہا تھا کہ حق وصداقت سے وابستہ سوال کا بڑا حصہ عدم مطابقت کے خمیرسے اٹھتا ہے۔
کچھ روز قبل سینئر صحافی اور کالم نویس عباس ناصر اور معروف ماہر قانون اور کالمسٹ رافعہ زکریا نے اپنے کالموں میں دو شخصیات کا بڑے معنی خیز انداز میں تذکرہ کیا۔ ڈان اخبار کے سابق مدیر عباس ناصر کا کہنا تھا کہ جمعیت علمائے اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمان نے مطابقت کی جنگ battle of relevance جیت لی۔ یعنی پیوستہ رہ شجر سے کی اسٹرٹیجی پر وہ پورا اترے، وہ کہتے ہیں کہ مولانا نے اسلام آباد میں اپنے حامیوں کا جم غفیر یکجا کیا، لہذا اس سیاق وسباق میں یہی کہاجا سکتا ہے کہ جو اہل سیاست کہتے تھے کہ مولانا صاحب ،
بس ہوچکی نماز مصلا اٹھائیے،
وہ فضل الرحمان کی استقامت ، سیاسی تدبر، مزاحمتی جذبے کے سامنے پسپا ہوئے ہیں، ایسے لوگوں کو اپنا پرانا اسکرپٹ اٹھاکر کوڑے دان میں پھینک دینا چاہیے۔ مولانا نے حالات سے مطابقت کی حیران کن جنگ تن تنہا شروع کی ، لوگ ساتھ آتے گئے اور کاروان بنتا گیا کے مصداق اسلام آباد میں عمران خان ، طاہرالقادری کے دھرنے کے بعد تحریک لبیک پاکستان کے دھرنے کے بعد یہ تیسرا بڑا اجتماع ہے جو سیاسی طاقت کی نئی کیمسٹری کو جنم دے رہا ہے۔
دوسرے کالم میں رافعہ زکریا نے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی کہانی سنائی ہے، ان کا کہنا ہے کہ ٹرمپ کا اپنی زبان پر قابو رکھنا قدرے مشکل ہوگیا ہے، داعش کے سربراہ ابوبکر البغدادی کے خلاف آپریشن پر انھوںنے اپنے ایک ٹویٹ میں کہا کہ ''کچھ بہت ہی بڑی چیز رونما ہونے والی ہے'' مگر امریکی عوام نے ان کی باتوںپر کان نہیںدھرے،کیونکہ وہ جانتے تھے کہ ایک ہی بات کو صدر گرامی بار بار دہراتے رہیں گے، را فعہ کے مطابق صدر ٹرمپ آجکل یومیہ بنیاد پر نہیں بلکہ ہر ایک گھنٹے بعد کوئی نہ کوئی پھلجھڑی چھوڑتے ہیں، انھوں نے البغدادی کی موت پر اپنے 46 منٹ کے ''رواں تبصرے'' میں ادلب کے علاقے میں دنیا کے سب سے بڑے دہشتگرد کے مارے جانے کی داستان سنائی اور پہلے کی طرح اس بار بھی وہ اسی بات کا ذکرکرتے رہے کہ امریکا کے سارے صدور ان سے زیادہ کبھی ایسی شاندار کارکاردگی دکھانے کے قابل یا اہل نہیں رہے۔
رافعہ نے جو دلچسپ بات لکھی وہ یہ تھی کہ بغدادی کی ہلاکت کے ابتدائی لمحات میں بھی ٹرمپ اپنے رزمیہ کے ساتھ نظر آئے،ان کا انکشاف یہی تاثر لیے ہوئے تھا کہ البغدادی کی موت نے انھیں بچا لیا۔ مگر رافعہ کا کہنا ہے کہ ٹرمپ کو بغدادی کی موت سے کچھ نہیں ملے گا، آنے والے دنوںمیں انتخابی گہما گہمی بڑھے گی جس میں ٹرمپ یہ دعویٰ کریں گے کہ بغدادی کو انھوں نے یکتا و تنہا شکست دی اور دنیا کے سب سے خطرناک دہشتگرد کو موت سے ہمکنار کرا دیا۔ ٹرمپ کی سادگی دیکھ کیا چاہتا ہے ۔ کسی نے کیا خوب کہاکہ امریکی سیاست کی داخلیت اور معروضیت کا جو نقشہ ٹرمپ کی سیاست نے کھینچا ہے۔ امریکی تاریخ میں گزرے تمام صدور اس کا تصور بھی نہیں کر سکتے۔ بہرحال کہنا یہ ہے کہ ٹرمپ آج بھی '' جوش قدح سے بزم چراغاں کیے ہوئے ہیں۔'' لیکن پیشگوئی کے ساتھ یہ سوال کیا جا رہا ہے کہ امریکی عوام ایک سال بعد ٹرمپ کے حق میں ووٹ ڈالیں گے ؟
ایں خیال است و محال است و جنوں
ادھر ساری دنیا کو خبر ہو گئی ہے کہ بطور امریکی صدر ٹرمپ کو مواخذہ کا سامنا ہے۔ اسپیکر نینسی پیلوسی نے ٹرمپ کی ناک میں دم کرکھا ہے۔ وہ کہتی ہیں کہ یہ آئینی کارروائی اور قانونی پروسیس ہے، ٹرمپ، ان کی انتظامیہ اور حامی اس سارے عمل کو غیر آئینی کہتے ہیں۔ صدر ٹرمپ نے پیرس کا موسمیاتی معاہدہ ترک کر دیا، یہ ایک اور ٹائم بم ہے، امریکی عوام اور ماہرین سوچ رہے ہوں گے کہ شہر، ریاستوں اور ملٹی نیشل کمپنیوں سے صدر کے الگ ہو جانے کے باوجود وہ امریکی موسمیاتی مقاصد کے ثمرات سے استفادہ کر سکیں گے، اس سوال کی اہمیت اپنی جگہ، امریکا اب بھی پیرس معاہدہ سے مکمل طور پر الگ نہیں ہونا چاہے گا ، لاس اینجلس ٹائمز کے مطابق امریکا ٹرمپ کی علیحدگی سے ہٹ کر بھی اس لینڈ مارک عالمی معاہدہ کو ختم کرنے پر رضامند نہیں۔ مگر ٹرمپ کا کیا کریں ۔
چلیے اس مسئلہ کو ٹرمپ ازم کے پاکستانی زاویے سے دیکھتے ہیں، آپ کو یاد ہوگا وزیراعظم عمران خان سے انھوں نے کشمیر تناظر میں پاک بھارت ثالثی کی کوشش کا وعدہ کیا اور دو چار بار مودی اور عمران کو خطے کے بہترین رہنما کہتے ہوئے اپنے حلقہ یاراں میں شامل کر لیا۔ مگر آج وہ ثالثی کہاں ہے؟ جب کہ پاکستان کو پہلے کشمیر کے تناظر میںاس کی ضرورت تھی اب بلا مبالغہ جب مولانا فضل الرحمان اور عمران میں جپھی ڈالنے کا سنہرا موقع ہے تو انکل ٹرمپ کو ہمارے لوگ ٹویٹ کر رہے ہیں کہ آواز دے کہاں ہے ؟
عباس ناصر نے مولانا فضل الرحمان کو دو کریڈٹ دیے ، ایک مطابقت کا، عوام سے جڑنے کا، ملکی سیاست میںایک دھماکے سےin ہونے کا۔ اور دوسرے لائو لشکر کے ساتھ اسلام آباد پہنچنے کا۔ دھرنے کے اخلاقی جواز پر بھی ملاکھڑا شروع ہوا ہے، کچھ لوگوں کے نزدیک پی ٹی آئی کا دھرنا اصولی تھا، دوسروں کے خیال میں جے یو آئی کا دھرنا کوئی اور ایجنڈا ہے۔
زیرک اینکرز مذہبی کارڈ کی گردان بھی کرتے ہیں، کوشش بھی ہوئی کہ خورد بین سے آزادی مارچ سے مدرسوں کے بچوں کی فوٹیج مل جائے، حالانکہ مذہبی کارڈ کی تلاش کا یکطرفہ عمل احتسابی عمل کی طرح بلاامتیاز نظر نہیں آتا۔ یہ کارڈ جے یو آئی لائو لشکر مدینہ کی ریاست کے بلند آدرش اور نصب العین میں اگر دیکھ رہی ہے تو کسی کو اعتراض کرنے کی چنداں ضرورت نہیں۔
مشہور جاسوسی کہانی نویس ایڈگر ایلن پو نے کہا تھا کہ حق و صداقت سے وابستہ سوال کا بڑا حصہ عدم مطابقت کے خمیر سے اٹھتا ہے، وہ کہتے ہیں کہ آپ کی مطابقت اسی وقت شروع ہوتی ہے جب آپ عوام کے مسائل کے حل کی بات کرتے ہیں۔ ایلن پوکا مشہور فقرہ ہے کہ Nothing suceeds like sucess۔ اسے قارئین اگر موجودہ سیاسی بحران اور آزادی مارچ اور اور ممکنہ دھرنے کے سیاق و سباق میں دیکھیں تو امکانات، توقعات و مواقعے کا سمندر ٹھاٹھیں مارتا نظر آئیگا۔ بھٹو نے ہمیشہ سیاست میں سینس آف ٹائمنگ کی بات کی۔
دیگر تجزیہ کاروں نے بھی جے یوآئی کے آزادی مارچ میں مولانا کے موجودہ سیاسی قد کاٹھ کی نئی تعبیر کی ہے، ماضی کے عمرانیاتی دھرنے کا تقابل آج کے آزادی جلوس سے کیا جا رہا ہے، اس کے کوالٹی اور کوانٹٹی تناظر کا جائزہ لیا جا رہا ہے۔ تشدد، توڑپھوڑ اور وقتی جارحیت کے حوالے ملتے ہیں۔
ایک تجزیہ کار نے لکھا کہ مولانا ملک کے بڑے عملیت پسند رہنما ہیں۔ تاہم اب ضرورت سیاسی وسعت نظری کی ہے، سیاسی جماعتیں سویلین بالادستی کے لیے باہمی مذاکرات کریں، جمہوریت کے لیے اپنے رویوں اور سوچ میں کشادگی لائیں۔ بلاشبہ یہ انداز نظر آزادی مارچ نے مہیا کیا ہے۔ جب آزادی مارچ شروع ہوا تو حکومتی حلقے دہائی دے رہے تھے کہ
منزل تری کہاں ہے اے لالہ صحرائی
اسی سوال کا جواب مولانا نے مجاز لکھنوی کے اس شعر میں دیا کہ
یوں توآنے کو کئی بار ادھر آیا ہوں
اب کے اے دوست بہ انداز دگر آیا ہوں
طنز ومزاح پر مبنی کتاب ''تین مسخروں'' کے عالمی شہرت یافتہ ادیب الیگزینڈر ڈوما نے اپنے ناول کائونٹ آف مونٹی کرسٹو میں ایک جگہ کردار کی زبانی دو الفاظ رقم کیے۔ انتظار اور امید wait and hope۔ ان کا کہنا تھا کہ پوری انسانی دانش ان دو فقروں میں لپٹی ہوئی ہے۔
ملکی سیاست کو آج اسی امید کا انتظار ہے۔ میرے چشم تصور میں مولانا فضل الرحمان کی وہ تصویر دکھائی دیتی ہے جب وہ تحریک بحالی جمہوریت (ایم آر ڈی) کے اجلاسوں میں پابندی سے شریک ہوتے تھے، جمہوریت سے ان کی کمٹمنٹ مستحکم تھی، ان اجلاسوںمیں بینظیر بھٹو بھی موجود ہوتی تھیں۔ یہ1980ء کی دہائی تھی۔
جنرل ضیا کی آمریت کا سورج 1983 ء میں سوا نیزے پر تھا، سیاستدانوں سے جیلیں بھری جا رہی تھیں، بی بی سی کے نمایندے مارک ٹیلی دہلی چھوڑ کر پاکستان آ گئے تھے، وہ لیاری کی گلیوںمیں رپورٹنگ کرتے دیکھے گئے، ان گلیوں میں پولیس نے میر غوث بخش سمیت پیپلز پارٹی اور دیگر سیاسی جماعتوں کے سیکڑوں سیاسی رہنمائوں اور سرگرم کارکنوں کو گرفتار کیا، مولانا فضل الرحمان کئی بار گرفتار ہوئے، ان کے ہمراہ جے یوآٓئی کے ایک اور مقامی رہنما قاری شیر افضل بھی ایم آرڈی کے اجلاس میں شریک ہوتے تھے، یہ اجلاس پہلے محترم سیاستدانوں کی صدارت میں پنجاب میں ہوئے، پھر سندھ اس کا مرکز بنا۔
محمود علی قصوری، لطیف آفریدی، چوہدری اعتزاز احسن سمیت دیگر معتبرسیاستدانوں نے احتجاج کیا ، گرفتاریاں دیں۔ اس وقت ملک میں آمریت چھائی ہوئی تھی۔ آج ایک جمہوری حکومت ہے۔ سوال جمہوریت کی ناکامی کا نہیں جمہوری حکمرانوں کی بصیرت، تدبر اور ہوش مندی کا ہے۔ مولانا کا وہ سیاستدان خدارا مذاق نہ اڑائیں جنھیں سیاسی تپش کی گرائمر کا پتا نہیں۔ ٹریلر کو فلم نہ سمجھیں۔ملک اڑتے گھومتے سیاسی بگولوں کی زد میں ہے۔