قدرت کا نظام

اگرقوم نیک وپارسااورپابندشریعت ہے اوراللہ عزوجل کواس کا امتحان مقصود ہے تویقینا کوئی بھی آفت محض آزمائش الٰہی ہوتی ہے۔


[email protected]

قرآن حکیم فرقان حمید، احادیث اور تاریخی حقائق سے یہ امر روز روشن کی طرح بالکل عیاں اور واضح ہوجاتا ہے کہ سنت اللہ کے مطابق جب کسی بھی سرزمین یا قوم پر کوئی بھی آسمانی یا زمینی قدرتی آفت نازل ہوتی ہے تو وہ یا تو اللہ عزوجل کی جانب سے آزمائش کی گھڑی ہوتی ہے یا پھر عذاب الٰہی و قہر خداوندی کا نقارہ ، اگر قوم نیک و پارسا اور پابند شریعت ہے اور اللہ عزوجل کو اس کا امتحان مقصود ہے تو یقینا کوئی بھی آفت محض آزمائش الٰہی ہوتی ہے۔

جیساکہ ارشاد الٰہی ہے '' اور ہم کسی نہ کسی طرح تمہاری آزمائش ضرورکریں گے، کسی قدر خوف، بھوک، مال اور جانوں اور پھلوں کی کمی سے تو (آزمائش کی اس گھڑی میں) صبر کرنے والوں کو اللہ کی خوشنودی کی بشارت سنا دیجیے کہ جب انھیں کوئی آزمائش اور مصیبت پیش آتی ہے تو کہہ دیا کرتے ہیں کہ ہم تو خود اللہ عزوجل کی ملکیت ہیں اور ہم اس کی طرف لوٹنے والے ہیں، ان پر ان کے رب کی نوازشیں اور رحمتیں ہیں اور یہی لوگ ہدایت یافتہ ہیں۔'' (سورۂ البقرہ: 157-155)

اور اگر قوم فاسق اور نافرمان وگنہگار ہے اور اللہ تعالیٰ کو اسے سزا دینا مقصود ہے تو بلامبالغہ کسی بھی نوع کی نازل کردہ آفت یقینا محض عذابِ الٰہی و قہر خداوندی ہے، جیساکہ ارشاد الٰہی ہے ''(دیکھو) ہم نے کسی بستی کو اس کے بغیر ہلاک نہیں کیا، اس کے لیے خبردارکرنے والے، حق نصیحت ادا کرنے والے موجود تھے اور ہم ظالم نہ تھے۔'' (سورہ الشعراء) اسی طرح فرمایا کہ '' کوئی بھی قوم ایسی نہیں جس میں کوئی خبردارکرنے والا (رسول) نہ گزرا ہو۔'' (سورہ فاطر) سورہ الطلاق میں ہے کہ '' کتنی ہی بستیاں ہیں۔

جنھوں نے اپنے رب اور اس کے رسولوں کے حکم سے سرتابی کی، تو ہم نے ان سے سخت محاسبہ کیا اور ان کو بہت بڑی سزا دی ، انھوں نے اپنے کیے کا مزہ چکھ لیا اور ان کا انجام گھاٹا ہی گھاٹا ہے۔'' سورہ آل عمران میں فرمان ہے کہ '' تم سے پہلے بہت سے دورگزرچکے ہیں، زمین میں چل پھر کر دیکھ لو ان لوگوں کا کیا انجام ہوا، جنھوں نے (اللہ عزوجل کے احکام و ہدایات کو) جھٹلایا یہ لوگوں کے لیے ایک صاف اور صریح تنبیہ ہے اور جو اللہ عزوجل سے ڈرتے ہیں، ان کے لیے ہدایت اور نصیحت۔''

حضرت نوحؑ کی قوم پر بطور عذاب طوفان نازل ہوا تھا ، جس نے پوری قوم کو ڈبو دیا تھا سوائے ان چند نیک بندوں کے جو حضرت نوحؑ پر ایمان لائے تھے، اس کا مفصل تذکرہ سورۂ ہود میں ہے۔ قوم صالح کے بارے میں ہے (سورۂ اعراف78) یعنی ظالموں وجابروں کو آ پکڑا زلزلے نے پھر صبح کو رہ گئے اپنے گھر میں اوندھے پڑے، سورۂ ہود آیت نمبر 67میں ''الصبح تہ'' ہے۔ ممکن ہے کہ بیک وقت دونوں اقسام کا عذاب آیا ہو، نیچے سے زلزلہ اور اوپر سے خوف ناک آواز، ویسے بھی عموماً زلزلے سے قبل آواز سنائی دیتی ہے، آیت سورۂ عنکبوت 37 میں بھی ہے۔

سورہ عنکبوت آیت 40 کا ترجمہ جس میں خدائے قہار و جبار عزوجل فرماتا ہے کہ ''پھر سب (ظالموں، گنہگاروں، جابروں، متکبروں) کو پکڑا ہم نے اپنے اپنے گناہ پر، پھر کوئی تھا کہ اس پر پتھراؤ ہوا (جیسے قوم لوطؑ و عاد) اور کوئی تھا کہ اس کو پکڑا چنگھاڑ نے (جیسے قوم ثمود اور اہل مدین) اور پھر کوئی تھا کہ اس کو دھنسا دیا ہم نے زمین میں (جیسے قارون) اور کوئی تھا کہ اس کو ڈبو دیا ہم نے (جیسے فرعون، ہامان اور قوم نوحؑ)۔ ارشاد ربانی ہے ''لوگو! اپنے پروردگار سے ڈرو، بلاشبہ قیامت کا زلزلہ بہت ہی بڑی چیز ہے، جس دن تم اسے دیکھ لو گے، ہر دودھ پلانے والی اپنے دودھ پیتے بچوں کو بھول جائے گی اور حمل والیوں کے حمل گر جائیں گے اور تو دیکھے گا کہ لوگ مدہوش دکھائی دیں گے، حالانکہ وہ درحقیقت مدہوش نہ ہوں گے لیکن اللہ عزوجل کا عذاب بڑا سخت ہے۔'' (سورۃ الحج2,1)

''سورہ الزلزال'' کا آغاز ان الفاظ میں فرمایا گیا ہے کہ ''جب زمین پوری طرح جھنجھوڑ دی جائے گی اور وہ اپنے بوجھ باہر نکال پھینکے گی، انسان کہنے لگے گا کہ اسے کیا ہوگیا ہے، اس دن زمین اپنی سب خبریں بیان کردے گی، اس لیے کہ تیرے رب نے اسے حکم دیا ہوگا۔''

اسی طرح سے احادیث کے مطالعے سے پتا چلتا ہے کہ رسول اللہؐ نے فرمایا کہ ''قیامت سے قبل کثرت سے زلزلہ اور چیخ و پکار کا عذاب آئے گا۔ نبی کریمؐ نے امت کو آگاہ کرتے ہوئے واضح کیا کہ قیامت سے پہلے کے سال زلزلوں کے سال ہوں گے یعنی کثرت سے زلزلے آئیں گے۔'' (بخاری شریف) رسول اللہؐ نے فرمایا کہ جب مال غنیمت کو میراث کا مال سمجھ کر ہضم کرلیا جائے، امانت کے مال کو مال غنیمت تصور کرکے کھا لیا جائے، زکوٰۃ کی ادائیگی بطور جرمانہ ٹیکس کے ہو نا کہ رضائے الٰہی کے پیش نظر، علم دین کا حصول مال اور مرتبے کے واسطے ہو، مرد بیوی کی اطاعت اور ماں کی نافرمانی کرے، انسان اپنے دوست سے قربت اور ماں باپ سے دوری اختیار کرے، مسجدوں میں آوازیں اونچی ہونے لگیں۔

قبیلے کی قیادت فاسق و فاجر کے ہاتھ میں ہو، قوم کا سردار ذلیل ترین آدمی ہو، لوگوں کی عزت ان کے شر اور برائی سے بچنے کے لیے کی جائے، گانے والی عورتوں کی کثرت ہو، طعن لہو و لعب کے آلات زیادہ ہوں، شراب پینے کا رواج عام ہو اور امت محمدیہؐ کے آخری لوگ اگلے لوگوں کو تشنیع کا نشانہ بنائیں، تو درج ذیل امور کا انتظار کرو، سخت ترین سرخ ہوا، خطرناک زلزلے، تباہ کن خسف کا عذاب، پتھروں کی بارش وغیرہ۔ مذکورہ عذاب اب تسلسل کے ساتھ آتا رہے گا۔ (ترمذی شریف)

حضرت عمر فاروق کے عہد خلافت میں ایک مرتبہ زلزلہ آیا (یہ واقعہ 30 جمادی الثانی 13 اگست 634تا 27 ذوالحجہ 23 ھ 3 نومبر644 کے درمیان کا ہے) تو آپؓ نے کوڑا مار کر فرمایا کہ ''اے زمین! ہلتی کیوں ہے؟ کیا عمرؓ نے تجھ پر انصاف قائم نہیں کیا؟ اسی طرح پانچویں خلیفہ راشد حضرت عمرؓ بن عبدالعزیز کے عہد خلافت 99ھ/717تا 101ھ /719) میں ایک مرتبہ زلزلہ آیا تو آپؓ نے جا بجا شہروں میں حکم نامے بھیجے کہ ''زمین کا زلزلہ عتاب الٰہی ہے۔''

ان مندرجہ بالا حقائق کی روشنی میں ہم اپنے اعمال کی کسوٹی پر کسی بھی قدرتی آفت کو خود ہی پرکھ سکتے ہیں کہ آیا وہ عذاب الٰہی ہے یا آزمائش الٰہی؟

قرآن حکیم میں ارشاد باری تعالیٰ ہے کہ ''اے پیغمبرؐ) آپؐ کہہ دیجیے کہ اے میرے بندو! جنھوں نے اپنی جانوں پر زیادتی کی ہے، اللہ عزوجل کی رحمت سے ناامید نہ ہونا، اللہ عزوجل تو تمام گناہ بخش دیتا ہے، (اور) وہ تو بخشنے والا مہربان ہے۔'' (سورۃ الزمر آیت 53، اسی طرح سے سورۃ الحجر آیت 58 میں فرمایا گیا کہ ''اللہ عزوجل کی رحمت سے صرف گمراہ ہی مایوس ہوسکتے ہیں۔'' بس یہی قدرت کی وہ فطرت ہے جس کا ادراک و فہم، شعور و آگہی اور معرفت کی حضرتِ انسان کو ضرورت ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں