نابینا بچے اور لوئس بریل…

ہر سال 10 اکتوبر کو دنیا بھر میں ورلڈ سائٹ ڈے منایا جاتا ہے۔


محمد فیصل شہزاد October 10, 2013

ہر سال 10 اکتوبر کو دنیا بھر میں ورلڈ سائٹ ڈے منایا جاتا ہے۔ اس ضمن میں دنیا کے ایک ایسے محسن کا نام یاد آیا، جو اگرچہ خود بھی بینائی سے محروم تھا لیکن دنیا کے لاکھوں بلکہ کہنا چاہیے کروڑوں نابینا افراد کے لیے علم حاصل کرنے کا راستہ کھول گیا۔ اس وقت دنیا میں 39 ملین افراد نابینا ہیں، پیدائشی نابینا بھی ہیں اور حادثے یا بیماری سے ہونے والے نابینا بھی ہیں۔ جن نابیناوں نے تعلیم حاصل کر کے پوری انسانیت کی خدمت کی ان میں مادام کیوری جیسی جینئس نوبل انعام یافتہ خاتون بھی ہیں۔ غرض قیامت تک جتنے نابینا افراد اس کے بنائے ہوئے بریل سسٹم کے ذریعے علم حاصل کریں گے اس میں اُس کا پورا حصہ ہو گا۔

اس کا نام لوئس بریل تھا۔ وہ 4 جنوری1809ء میں پیرس کے ایک نواحی قصبے میں پیدا ہوا۔ وہ ایک حادثے کی وجہ سے اندھا ہوا۔ اس کے والد چمڑے کا کام کرتے تھے۔ ایک روز تین سالہ لوئس بریل اپنے باپ کے کارخانے میں بیٹھا کھیل رہا تھا اور اپنے باپ کی نقل میں ایک ہتھوڑی سے ایک کیل کو ٹھونک رہا تھا کہ اچانک کیل اچھلی اور اس کی آنکھ میں جا گھسی۔ اس کے چیخنے پر گھر والے متوجہ ہوئے اور علاج معالجہ کیا گیا لیکن اس آنکھ کی بینائی کو بچایا نہیں جا سکا۔ اور پھر اس چوٹ کی وجہ سے آنکھوں کے اندرونی سسٹم میں کچھ ایسی خرابی ہو گئی کہ لوئس بریل کی دوسری آنکھ کی بینائی بھی چلی گئی اور یوں اس کی دنیا اندھیری ہو گئی ۔گھر والے اور خصوصاً اس کے والدین غم و اندوہ میں ڈوب گئے۔ مگر انھیں کیا پتہ تھا کہ یہ حادثہ کروڑوں نابیناؤں کے لیے رحمت بن جائے گا۔

جب لوئس اندھا ہوا تو اس کی عمر ہی کیا تھی، صرف تین برس... اس لیے وہ جلد ہی سب کچھ بھول گیا۔ شکلیں، رنگ سب کچھ! اب وہ ایک چھڑی کے سہارے چلتا تھا اور لوگ اس کو دیکھ کر اس پر ترس کھاتے تھے۔ پھر اس کے باپ کو پتہ چلا کہ پیرس میں ایک اسکول ہے جہاں نابینا بچوں کو کچھ پڑھایا بھی جاتا ہے اور انھیں موسیقی کی تعلیم بھی دی جاتی ہے تا کہ وہ بڑے ہو کر کسی طور کچھ کما سکیں۔ اسے اس اسکول میں داخل کرا دیا گیا۔ اس وقت اس کی عمر دس سال تھی۔ اس اسکول میں اندھے بچوں کو پڑھانے کے لیے خاص طرح کی کتابیں استعمال ہوتی تھیں۔ یہ کارڈ بورڈ سے بنتی تھیں، ان پر لفظ ابھرے ہوئے ہوتے تھے جنھیں ہاتھوں سے چھو کر بچے پڑھتے تھے۔ لیکن یہ ایک انتہائی مشکل طریقہ تھا۔ بچے کے ذہن پر بے حد بوجھ ہو جاتا تھا اور وہ کئی سال لگا کر بھی انتہائی کم تعلیم حاصل کر پاتا تھا۔ لوئس بریل کے ذہن نے اس مشکل طریقے کو مسترد کر دیا۔ وہ برابر سوچتا رہا کہ پڑھنے کے طریقے کو کس طرح بہتر بنایا جائے۔ جب سب بچے سو جاتے تھے تو وہ جاگ کر کچھ تجربے کرتا رہتا تھا۔ وہ بہت کم سوتا تھا یوں روز بروز کمزور ہوتا چلا گیا، مگر اس نے ہمت نہیں ہاری۔

چار سے پانچ سال تک اس نے مسلسل تجربات کیے اور بالآخر سن 1824ء کو جب وہ محض پندرہ سال کا تھا، اس نے ایک انقلابی طریقہ دریافت کر لیا جو پہلے کے طریقے سے بہت زیادہ بہتر اور آسان تھا۔ اس نے اپنے طریقے میں چھ نقطے استعمال کیے تھے، جو انگلیوں کی پوروں سے محسوس کیے جا سکتے تھے۔ اس نے ان چھ نقطوں کی جگہیں تبدیل کر کے الفاظ بنانے کا عمل قائم کیا، مثلاً A کے لیے ایک نقطہ اور B کے لیے دو نقطے۔ جب طلباء میں اس کے طریقے کا چرچا ہوا تو استادوں نے اس کا امتحان لیا۔ وہ اس امتحان میں سو فیصد کامیاب ہوا جس سے سب حیران رہ گئے۔ یوں اس کا ایجاد کردہ طریقہ پہلے اس اسکول، پھر شہر کے دوسرے اسکولوں میں پھر آہستہ آہستہ پوری دنیا میں رائج ہو گیا۔ اس کا انقلابی طریقہ نابیناؤں کی تعلیم میں ایک انتہائی جدید پیش قدمی کہا جا سکتا ہے کیوں کہ اس کے بعد اس سے بہتر طریقہ آج تک کوئی بنا نہیں سکا۔ یہی طریقہ جسے اس کے نام پر ''بریل سسٹم'' کہا جاتا ہے، آج بھی ساری دنیا میں استعمال ہو رہا ہے۔ بہرحال نابیناؤں کا یہ مسیحا 1852ء میں صرف تینتالیس سال کی عمر میں اس دنیا سے رخصت ہو گیا۔ اسے ٹی بی ہو گئی تھی جو اس زمانے میں ایک لاعلاج مرض تھا۔

لوئس بریل کے حالاتِ زندگی بیان کرنے کا مقصد یہی ہے کہ ہم دیکھیں کہ ہمارے اردگرد جو بچے کسی بھی قسم کی معذوری کا شکار ہیں اور جو خصوصاً بینائی سے محروم ہیں، ہم انھیں لوئس بریل کی یہ کہانی سنائیں کہ عزم و ہمت سے مشکلات کے بڑے بڑے پہاڑ سر کیے جا سکتے ہیں۔ ابھی کچھ ہی سال گزرے ہیں کہ امریکا کے ایک نابینا نے جو مہم جوئی کا شوق رکھتا تھا، بغیر کسی کی مدد کے ماؤنٹ ایورسٹ سر کیا تھا۔ مادام کیوری کی مثال پہلے دی جا چکی اور اس کے علاوہ ڈھونڈنے سے ان افراد کی بیسیوں مثالیں آپ کو مل جائیں گی جنہوں نے اپنے اندھے پن کو اپنی کمزوری کے بجائے اپنی قوت بنایا اور ایسے کارہائے نمایاں انجام دیے کہ آنکھوں والے بھی حیران رہ گئے۔ سوچنے کی مگر بات یہ ہے کہ یہ ساری مثالیں سو میں سے پچانوے فیصد آپ کو مغربی معاشرے سے ہی ملیں گی۔ اور ہمارے ہاں ان چند باہمت نابینا افراد کو چھوڑ کر جنہوں نے ہر طرح کے ہمت شکن حالات کا مقابلہ کر کے معاشرے میں کوئی مقام حاصل کیا، ورنہ اکثر نابینا افراد اپنے خاندان والوں کے محتاج ہیں، لیکن اس میں ان نابینا افراد کا کوئی قصور نہیں کیوں کہ یہ گھر والوں اور معاشرے ہی کی ذمے داری ہے کہ وہ ان کو بوجھ بننے کے بجائے معاشرے کا مفید اور فعال رکن بنائیں۔

دیکھیے لوئس بریل کے واقعے میں اس کے والد نے اس کو گھر پر رکھ کر ایک قابل ترس انسان بنانے کی بجائے اسے گھر اور قصبے سے دور ایک بڑے شہر کے اسکول میں داخل کروایا اور اس کے بعد بریل نے خود اپنی صلاحیتوں کو پہچانا اور نابینائی کی تاریخ میں ایک نئی تاریخ رقم کی۔ اس کے بالمقابل ہمارے ہاں عموماً معذور بچوں کا جنسی اور جسمانی استحصال کیا جاتا ہے، ان سے بھیک منگوائی جاتی ہے، دوسرے بچوں کے مقابلے میں انھیں بوجھ سمجھا جاتا ہے، ان بچوں کو خصوصاً نابینا اور ذہنی طور پر پست بچوں کو مجنوں اور مجذوب سمجھ کر ان کے ساتھ نارمل رویہ اختیار نہیں کیا جاتا۔ یہ انتہائی بری اور قابل گرفت بات ہے۔ بطور ایک اچھے مسلمان شہری کے یہ ہماری ذمے داری ہے کہ کسی بھی قسم کی معذور ی میں مبتلا بچوں کی تعلیم تربیت پر خصوصی توجہ دیں، ان کی ذہن سازی کریں تا کہ یہ بھی اپنی صلاحیت کے مطابق ملک و قوم کی ترقی میں اپنا حصہ ڈالیں اور دنیا میں معاشرتی رویوں اور تبدیلیوں کو سمجھتے ہوئے اپنے لیے خود تگ و دو کے قابل ہو سکیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں