بن حر کا شاندار ولن ۔ اسٹیفن بائڈ
اسٹیفن بائڈ فلم ’’چنگیز خان‘‘ میں بھی ولن بن کر نمودار ہوئے، اس بار ان کے مقابل مصری نژاد اداکار عمر شریف تھے۔
انگریزی فلم '' بن حر'' کا سحر ٹوٹ نہ سکا۔1959 کو ریلیز ہونے والی تاریخی فلم ایک سنگ میل ثابت ہوئی۔ چارلٹن ہیسٹن نے مرکزی کردار ادا کیا، جب کہ ولن کے طور پر اسٹیفن بائڈ جلوہ گر ہوئے۔ فلم کے ہدایتکار ولیم وائلر تھے۔
اس فلم نے 11 اکیڈمی ایوارڈز حاصل کیے تھے۔ میرے ڈیسک ٹاپ پر موجود اس فلم کو میں نے پندرہ بار مختلف کیٹیگریز کی تخلیقی جہتوں کے حوالہ سے دیکھا۔ مقصد فلمی ارتقا اور صنعت فلم سازی کے بدلتے ہوئے رجحانات کا اندازہ لگانا تھا۔ ورنہ دنیا کی ایک سو بہترین اوریادگار فلموں میں ''سٹیزن کین '' کو کون بھلا سکتا ہے، لیکن مصیبت یہ ہے کہ جدید فلم بینوں کو آرسن ویلزکا پتہ نہیں کہ یہ جنات صفت شخص کس معیارکا دیو قامت فلمساز، ہدایت کار، اداکار اور ادیب تھا۔
ویسا ہی ذہین و فطین ہدایت کار جان ہسٹن بھی تھے، لیکن اس وقت ذکر فلم ''بن حر'' کا ہے جس کے مرکزی کردار کے لیے فلم ساز سام زمبالسٹ کو ہدایت اور اداکاروں کے چناؤ کے لیے بڑے پاپڑ بیلنے پڑے۔ اپنے وقت کے خوبرو فلم اسٹار مارلن برانڈو، وکٹر میچیور، لیزلی نیلسن، کرک ڈگلس، شین کونیری، پال نیومین، سٹیوارٹ گرینجر، رابرٹ ٹیلر، راک ہڈسن، جیوفری ہومز اور برٹ لنکاسٹر کو بھی بن حر کا رول کرنے کی آفر کی گئی تھی۔
میں کافی دنوں کے بعد اسلامیہ کالج سے نکل کر کراچی کے پیرا ڈائز سینما کے سامنے کھڑا اس فلم کے قد آدم پوسٹرز دیکھ کر حیرت زدہ رہ گیا تھا۔ مجھے گیٹ کیپر ماما اسمعیل ٹپو نے آواز دے کر بلایا اور کہا کہ نادرشاہ! زبردست ہسٹاریکل فلم ہے، آپ دیکھنا چاہتے ہو تو اندرچلے جاؤ۔یوں ماما ٹپو نے ٹکٹ کے بغیر فلم سے لطف لینے کا موقع فراہم کیا۔ بن حر نے میری فلم بینی میں انقلاب برپا کر دیا، ورنہ میں برٹ لنکاسٹر، گیری کوپر، کرک ڈگلس کا دیوانہ تھا۔ لیاری سے تعلق رکھنے والے اسمعیل ٹپو حاکم علی زرداری اور آصف علی زرداری کے خاص گھریلو ملازم تھے۔
چارلٹن ہیسٹن پر بہت کچھ لکھا جا چکا ہے۔آج اس اداکارکا ذکر ہونا چاہیے جس نے بن حر میں رومن سپہ سالار مسالا کے کردارکو امر کر دیا۔ دنیا نے اسٹیفن بائڈ جسا ولن اس سے پہلے نہیںدیکھا۔ جن فلم بینوں نے بن حرکے سین میں رتھوں کی خونیں دوڑ دیکھی اور اس کے آخری منظر میں سٹیٖفن بائڈ کو اپنے ہی شاندار اور برق رفتار سیاہ رنگ کے چار گھوڑوںکے ٹاپوںکے نیچے روندتے ہوئے دیکھا ہے وہ اس منظر کو فراموش نہیں کرسکتے اور وہ اس منظرکو بھی یاد رکھتے ہونگے جس میں ہیسٹن کی اسپتال میں آمد پر وہ زخموں سے چور چور ہونے کے باوجود بن حرکے ہیرو کا گریبان پکڑتے ہوئے، مرتے ہوئے وہ لازوال ڈائیلاگ کہتا ہے کہ ریس ابھی ختم نہیںہوئی ''دی ریس از ناٹ اوور''۔ یہ فلم کا ایک درد انگیز منظر تھا جس میں اسٹیفن بائڈ نے کمال کی اداکاری کی۔
اس کے بعد اسٹیفن بائڈ فلم ''چنگیز خان'' میں بھی ولن بن کر نمودار ہوئے، اس بار ان کے مقابل مصری نژاد اداکار عمر شریف تھے۔ ان کی آخری لڑائی بھی فلمی فائٹ میں اپنی مثال آپ ہے۔ اپنی یادگار فلموں میں بطور ہیرو آنے والا اسٹیفن بائڈ '' فال آف دی رومن ایمپائر'' میں جلوہ گر ہوا۔ انتھونی مان کی ہدایت میں بننے ملٹی کاسٹ والی یہ تاریخی فلم باکس آفس پرکامیاب نہ ہو سکی۔ لیکن اس فلم میں سر ایلک گینس، کرسٹوفر پلمر، جیمز میسن، عمر شریف ، انتھونی کوائل، میل فیرر، جان آئر لینڈ اور ایرک پورٹر جیسے باکمال ایکٹرز شامل تھے،اطالوی دیوی صوفیہ لورین ہیروئن تھیں۔ اسٹیفن بائڈ کی مردانہ وجاہت، ٹف اسٹائل، ایتھلیٹک جسم اور شاندار اداکاری نے اپنا اثر قائم رکھا۔ پاکستان میں اسٹیفن بائڈ کو فلم بین ان تین فلموں کے ذریعے یاد رکھیں گے۔ بن حر، چنگیز خان اور فال آف دی رومن ایمپائر، ان کی باقی فلموں کا ذکر ابھی آئیگا۔
اسٹیفن بائڈ کا اصل نام ولیم ملر تھا۔ اس نے 4جولائی1931کو آئر لینڈ میں جنم لیا۔ وہ 1955 سے 1977تک فلمی سرگرمیوں میں مصروف رہا اور 2جون 1977میں دار فانی سے کوچ کر گیا۔ نقادوں نے اس کی زہر خند ہنسی اور شیطانی مسکراہٹ کو اس کی فطری انفرادیت کہا تھا۔ بن حر کی ہیروئن حیا حراریت بھی حسن معصوم کا مجسم نمونہ تھی۔
بائڈ کی پہلی فلم ''دی مین ہو نیور واز'' تھی اس میں اس کا جاسوس کا کردار تھا۔ اپنے وقت کی سیکس سمبل برشی باردو نے اپنے شوہر راجر ویڈم کی فلم '' اینڈ گاڈ کری ایٹڈ وومن'' میں اپنے ساتھ مرکزی کردار میں چانس دلایا۔ پھر ''دی نائٹ ہیون فیل'' نے بائڈ کی شہرت کے دوروازے کھول دیے۔ 1958 میں وہ ہالی ووڈ پہنچا۔ اسے ''بریواڈو'' میں کردار مل گیا۔
ساحرہ جان کولنز اور گریگری پیک مرکزی کردار میں تھے۔ یہیں سے اسٹیفن بائڈ کی شخصیت ، اداکاری اور مردانہ کشش نے اس کی راہ ہموار کی۔ فلم ''بن حر'' غالباً اس کی منتظر تھی۔ اس کا آڈیشن ہوا، رومن سپہ سالار مسالا کا تاریخی رول اسے دیا گیا۔ ہدایت کار ولیم وائلر کو آئرش اسٹیفن بائڈ کے اسکرین ٹیسٹ نے بہت متاثرکیا جب کہ چارلٹن ہیسٹن پہلے سے چیریٹ ریس کے کے لیے مخصوص عربی گھوڑے د وڑانے کی مشق کر رہے تھے، بائڈ کو بھی جلدی سے رتھوں کی ریس میں ٹریننگ لینے کی ہدایت ملی، وہ سخت جان تو تھا ہی اس نے یہ مرحلہ جلد طے کر لیا، ریکارڈ کے مطابق اسٹیفن کو براؤن کلرکے کنٹیکٹ لینز استعمال کرنا تھے۔
اس سے ان کی آنکھوں میں تکلیف شروع ہوئی،جو فلم بندی کے اختتام تک جاری رہی۔ اسٹیفن نے کہا کہ بن حر کی عکس بندی کے تجربات ان کے فلمی کیریئر کے شاندار زمانہ کی عکاسی کرتے ہیں۔ فلم بن حر کے کئی واقعات یادگار رہے، ایک بار ایک سین میں ہیسٹن کو اسٹیفن سے ویسے ہی مکالمے کہنے تھے جو امریکا کی طرف سے نائن الیون کے وقت پاکستان کو بطور دھمکی ملے تھے کہ فیصلہ کرو تم ہمارے ساتھ ہو کہ خلاف۔ ایک منظر بار بار ری ٹیک ہوا تو ولیم وائلر نے چارلٹن ہیسٹن سے کہا کہ اتنے بڑے ایکٹر ہو ایک چھوٹا سا فقرہ نہیں کہہ سکتے۔
وہ ڈائیلاگ تھا۔Jew I am not a۔ ولیم وائلر نے کہا کہ کیوں نہیں بول سکتے۔ ہیسٹن نے جواب دیا کہ میں اپنی روح کے اعتبار سے نہیں بول سکوں گا کیونکہ میں یہودی نہیں ہوں۔ یہ بات ہیسٹن نے اپنی سوانح حیات ARENA میں کہی۔ کافی دن گزرے جب مذاقاً ولیم وائلر نے کہا کہ عجیب بات ہے کہ ایک یہودی کو عیسائی فلم بنانے کی سعادت نصیب ہوئی۔ یاد رہے کہ بن حر ایک فوجی افسر لی ویلس کے ناول ''اے ٹیل آف دی کرائسٹ'' کو فلمی اسکرپٹ کی شکل دینے کے لیے معروف ناول نگار اور ڈرامہ نگار گور ویدال کی خدمات حاصل کرنا پڑیں، ویدال نے کئی اسکرین پلے رائٹرزکو آزمایا۔
بن حر 1959 میں ریلیز ہوئی، فلم نے بین الاقوامی سطح پر کامیابی اور مقبولیت کے ریکارڈ قائم کیے، ہیسٹن کے مقابلہ پر رتھوں کی دوڑ میں اگرچہ اسٹیفن بائڈ کو ہار ہوئی لیکن اس کی بطور ولن مسالا کے کردار کی دھوم مچ گئی، ہیسٹن کے مقابلے میں اس کی مردانہ وجاہت، ٹکراؤ اور فلم کے الم ناک منظر کی وجہ سے ملنے والی عوامی ہمدردی اسٹیفن بائڈ کا بلینک چیک بن گئی۔
اس کایہ جملہ شاعری کی اصطلاح میں جان غزل تھا کہ ''دی ریس از ناٹ اوور''۔ 60کی دہائی ہی میں اسٹیفن کے پرستاروں کی تعداد بڑھ گئی، اس نے اسی سال خاموش فلم بن حرکے مہمان اداکار کے طور پر ایکٹنگ کی۔ پھرکئی فلمیںسائن کیں، میوزیکل پروڈکشنز میں نمودار ہوئے،کہ ان کی آواز اچھی تھی۔ ایک فلم تھی The big Gamble ، وہ مہم جویانہ فلم تھی، جس کی عکس بندی کے دوران وہ پانی میں ڈوبنے سے بال بال بچ گئے۔ ایک فلم میں ان کے ہمراہ سابق صدر رونالڈ ریگن نے اداکاری کی۔ اطالوی ساحرہ جینا لولو بریجیڈا نے اسٹیفن کے مقابل فلم ''امپیریل وینس'' میں کام کیا۔ یہ فلم عریانیت کے باعث ممنوع قرار دیدی گئی، انتھونی مان کی فلم ''دی ان نون بیٹل'' میں معاملات بگڑ گئے۔ اسٹیفن نے مان کے خلاف ہرجانہ کا مقدمہ دائرکیا۔ فلم بن نہ سکی۔
1963 وہ قلوپطرہ میں الزبتھ ٹیلر کے مقابل مارک انتھونی بن کر جلوہ گر ہونے کو تیار تھے۔ مگر لز ٹیلر کی علالت کے باعث اسٹیفن معذرت کر گئے۔ یہ کردار رچرڈ برٹن کے حصے میں آیا۔ قلوپطرہ کی شوٹنگ ہالی ووڈ کی تاریخ کے اعصاب شکن اور دلچسپ دورانئے پر محیط تھی۔ اس دوران انھیں کوئی بڑی فلم نہیں ملی، لیکن چنگیز خان نے سب کچھ بدل دیا۔ اسٹیفن ''دی ٹاور آف بابل میں'' کنگ نمرود کے مختصر کردار میں نظرآئے۔
1950 میں وہ پہلی بارا سٹیج پر آئے۔ ایک ڈرامے میں وہ جارج برنارڈ شا بنے۔ 68 میں برشی باردو اور شین کونیری کے ساتھ جلوہ گر ہوئے۔ اسٹیفن بائڈ کی تعلیمی قابلیت برائے نام تھی ، مگر آئر لینڈ نے اس جیسا سخت جان مگر دوست نواز ، ہنس مکھ اور مجلسی اداکار پھر پیدا نہیں کیا۔
نوٹ: اس کالم کو پڑھنے کے بعد اگر قارئین نے نیٹ پر فلم بن حر دیکھنے کا وقت نکال لیا تو پھر اندازہ لگانا آسان ہوگا کہ ہیسٹن اور اسٹیفن بائڈ موجودہ دورکے ڈیجیٹل فلموں کے دور سے پہلے کتنے بڑے اداکار تھے۔