سابق سفیر عبدالفتاح میمن کی شخصیت
عبدالفتاح نہ صرف اچھے وکیل تھے بلکہ وہ دانش ور، روشن خیال، ادیب، محقق، شاعر، سیاستدان، سفیر اور اچھے ٹوئرسٹ بھی تھے۔
ماضی میں کئی شخصیات ایسی تھیں کہ انھوں نے اپنے وقت، ذہن اور قابلیت کو دوسروں کی خدمت میں صرف کر دیا اور اپنے پیچھے کئی سیاسی، سماجی اور تاریخی کام چھوڑ گئے، آنے والی نسل ان کی تقلید کر کے سندھ کے لیے بھلائی کے کئی کام سر انجام دے سکتی ہے۔
میرے ذہن میں لاڑکانہ سے تعلق رکھنے والی ایک شخصیت عبدالفتاح میمن کی بھی ہے، جن کا خاندان اعلیٰ تعلیم یافتہ اور سماجی و سیاسی خدمات میں پیش پیش تھا۔ لاڑکانہ اور سندھ کے باقی علاقوں میں انھیں عزت و احترام سے یاد کیا جاتا ہے۔ عبدالفتاح کے بھائی نظام الدین میمن معروف وکیل تھے اور ان کے بیٹے خالد بھی وکیل تھے اور لاڑکانہ کے علاقے قمبر علی خان سے ایم این اے منتخب ہوئے تھے جن کا تعلق پی پی پی سے تھا۔
عبدالفتاح کے تمام بیٹے بھی پڑھے لکھے اور بڑے ذہین ہیں جن میں خاص طور پر علی نواز میمن جو ان کے بڑے بیٹے ہیں وہ ورلڈ بینک، ایشین ڈیولپمنٹ بینک میں ماہر کے طور پر کئی سال کام کر چکے ہیں اور اس کے علاوہ وہ پاکستان میں نیپرا کے چیئرمین بھی رہے ہیں اور آج کل امریکا میں رہائش پذیر ہیں۔
عبدالفتاح نہ صرف اچھے وکیل تھے بلکہ وہ دانش ور، روشن خیال، ادیب، محقق، شاعر، سیاستدان، سفیر اور اچھے ٹوئرسٹ بھی تھے جن کے دیگر مشاغل فوٹوگرافی، کتاب پڑھنا، کھیلوں میں حصہ لینا، ادب کی دنیا سے منسلک رہنا اور شاعری کرنا شامل تھے۔ انھوں نے انگریزی اور سندھی میں شاعری پر طبع آزمائی کی اور دنیا بھرکے ملکوں کی سیر کی اور انھیں اپنے مشاہدات قلم بند کرنا پسند تھا جن میں ملکوں کی جیوگرافی، تاریخی اور تہذیبی مقامات بھی شامل ہیں۔ اس کے علاوہ وہ اپنی سندھی موسیقی کے ساتھ ساتھ دنیا کی موسیقی کے بارے میں بھی جانکاری رکھتے تھے۔
عبدالفتاح ولد حاجی محمد شکار پور شہر میں 20 نومبر 1920ء میں پیدا ہوئے تھے۔ انھوں نے ہیپی اکیڈمی شکارپور سے میٹرک کا امتحان پاس کیا، اس کے بعد بی۔اے آنرز ڈی جے سندھ کالج کراچی سے 1941ء میں پاس کرکے ایل ایل بی کرنے کے لیے ایس ایم لا کالج کراچی میں داخلہ لیا جہاں سے انھوں نے 1943ء میں ڈگری حاصل کر لی۔ ڈگری لینے کے بعد وہ مستقل لاڑکانہ رہنے کے لیے چلے آئے اور وہاں پر رہائش پذیر ہو کر کرمنل اور سول لاء کی پریکٹس شروع کر دی۔
لاڑکانہ میں رہ کر انھوں نے تعلیم کے فروغ اور سماجی خدمات میں بھی حصہ لینا شروع کیا اور خاص طور پر نئے کالج بنانے کے لیے بھاگ دوڑ شروع کی جس کے لیے وہ لاڑکانو کوآپریٹیو کالج ایجوکیشن سوسائٹی لمیٹڈ کا قیام عمل میں لائے جس کے وہ فاؤنڈر جنرل سیکریٹری 1954ء سے 1963ء تک رہے۔ اس دوران انھوں نے لاڑکانہ میں لاڑکانہ آرٹس اینڈ کامرس کالج قائم کیا پھر لاڑکانہ لاء کالج قائم کیا۔ ان دونوں کالجز سے ہزاروں شاگرد تعلیم حاصل کرتے رہے اور کر رہے ہیں جس کی وجہ سے عبدالفتاح کو لاڑکانہ کا بابائے کالجز کہتے ہیں، وہ لاڑکانہ آرٹس اینڈ کامرس کالج کے 1960ء سے 1963ء تک آنریری پرنسپل رہے۔
ان کی ذہانت، علم و ادب اور تعلیمی معیار دیکھ کر انھیں اکثر پاکستان اور سندھ کے لیول پر کئی کمیٹیوں میں ممبر کے طور پر رکھا جاتا تھا جس کی قیمتی رائے سے فائدہ بھی لیا جاتا تھا۔ وہ پاکستان ریڈکراس ایمبولینس اینڈ نارتھ ریلوے ایڈوائزری بورڈ کے ممبر بنائے گئے جہاں پر وہ 1950ء سے 1953ء تک کام کرتے رہے، اس کے علاوہ انھوں نے ایس ایم لاء کالج کراچی کے آنریری پروفیسرکے طور پر اپنی خدمات انجام دیں جہاں پر وہ اسلامی قانون اور بین الاقوامی قانون پڑھاتے تھے۔ وہ سماجی کاموں میں ہمیشہ آگے رہتے تھے جس میں فری آئی کیمپ منعقد کروانا بھی شامل ہے جہاں پر غریب لوگوں کی آنکھوں کا چیک اپ کیا جاتا تھا آپریشن کیے جاتے تھے، مفت کھانا، رہائش، ادویات اور چشمے دیے جاتے تھے۔
سیاسی طور پر بھی وہ بڑے متحرک رہے اور تحریک پاکستان میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا، وہ پاکستان مسلم لیگ میں لاڑکانہ سٹی کے جنرل سیکریٹری تھے۔ وہ 1947ء میں جنرل سیکریٹری 1948ء میں لاڑکانہ ضلع سیکریٹری اور 1950ء میں پورے سندھ کے جنرل سیکریٹری کی ذمے داریاں نبھاتے رہے۔ اس سے پہلے وہ آل پاکستان مسلم لیگ کی طرف سے 1946-ء1948ء اور 1953ء میں کانفرنس میں آنے والے لیڈران خواجہ ناظم الدین اور دوسروں کے ساتھ کام کرتے رہے تھے۔ خواجہ ناظم الدین نے انھیں پاکستان مسلم لیگ کی ورکنگ کمیٹی میں بھی شامل کیا تھا جہاں پر وہ 1958ء تک کام کرتے رہے۔ وہ 1953ء سے 1955ء تک سندھ لیجسلیٹیو اسمبلی کے رکن بھی منتخب ہوئے تھے۔
عبدالفتاح لاڑکانہ سے پہلے شخص تھے جنھیں سعودی عرب میں پاکستانی سفیرکے طور پر بھیجا گیا تھا جہاں پر وہ 1963ء سے 1966ء تک رہے۔ ان کی ماہانہ تنخواہ اس زمانے میں 5 ہزار روپے تھی علاوہ دوسرے اخراجات کے۔ ان کی لکھی ہوئی انگریزی کی کتاب Oil and Faith، 1966 میں شایع ہوئی جب کہ Invention to new Society بھی 1966ء میں شایع ہوئی جب کہ Concept of Provincial Autonomy and Pakistan ، 1968ء میں شایع ہوئی اور The Constitution and the Quran بھی 1968ء میں شایع ہوئی۔
عبدالفتاح کو 1955ء میں پاکستان کے 10 ویں Delegation میں شامل کر کے یو این او بھیجا گیا تھا۔ وہ جونا گڑھ بھی گئے تھے تعلیم حاصل کرنے جہاں سے وہ دہلی کے تاریخی مقامات دیکھنے گئے اور اس کے علاوہ انھوں نے پاکستان میں لاہور، سندھ اور خیبر پختون خوا کے مقامات اور باہر ممالک کی سیر کرتے رہے اور کشمیر کے حسین نظارے بھی دیکھے۔ انھیں سب سے زیادہ مزہ اسپین، یونان، فرانس، امریکا میں نیویارک اور واشنگٹن خاص طور پر افریقہ، قاہرہ وغیرہ دیکھنے اور گھومنے میں آیا۔
عبدالفتاح کو انسانی حقوق سے بڑی دلچسپی تھی اور انھیں جہاں بھی موقع ملتا وہ انسانی حقوق کے لیے وکیل بن کر کام کرتے تھے۔ اس سلسلے میں مزید معلومات حاصل کرنے کے لیے انھوں نے اسٹراس برگ جا کر وہاں انسانی حقوق کے سلسلے میں ایک کورس مکمل کیا جب کہ کینیڈا کے بارے میں معلومات حاصل کرنے کے لیے امریکا سے بذریعہ کار سفرکیا۔ افریقہ سے بھی وہ بڑے متاثر تھے جس کی وجہ صومالیہ کا سفیر بنایا گیا تھا۔ اس دوران وہ ایتھوپیا، سوڈان اور فلسطین دیکھنے گئے۔ اس میں خاص طور پر انھوں نے بیت المقدس کا بڑا ذکر کیا ہے۔
عبدالفتاح کو8 بیٹوں اور ایک بیٹی سے اللہ تعالیٰ نے نوازا تھا جنھیں انھوں نے اعلیٰ تعلیم دلوائی اور سارے بچے بڑے عہدوں پر فائز ہوئے۔ ریٹائرڈ ہوئے اور بزنس سے بھی وابستہ رہے۔ اس خاندان کی ایک خوبی یہ ہے کہ ان کا انداز گفتگو بڑا شائستہ، دھیما اور نرم لہجے والا ہے جس سے اخلاق اور محبت چھلکتا ہے۔
وہ 31 جنوری 2002ء کو دل کی دھڑکن رک جانے سے اس دار فانی سے رخصت ہوئے اور اپنے پیچھے کئی یادیں اور سیاسی، سماجی خدمات کا عکس چھوڑ گئے ہیں۔