مسئلہ کشمیر اور غزوہ ہند حصہ اول

پاکستان اپنی طرف سے پورا زور لگا رہا تھا کہ کشمیر خود کو پاکستان میں ضم کر دے یا کم سے کم پاکستان کے ساتھ الحاق کرے۔


[email protected]

مسئلہ کشمیرکیا ہے؟ آرٹیکل 370 اور آرٹیکل 35A کیا ہے؟ اور سب سے بڑھ کر وہ الحاق کیا ہے جو کشمیر کے راجہ ہری سنگھ نے بھارت کے ساتھ کیا جسکے نتیجے میں بھارتی فوج کشمیر میں داخل ہوئی اور آج قابض بن چکی ہے۔

14/15 اگست 1947ء جب انڈیا اور پاکستان وجود میں آئے اس وقت کشمیر ایک خودمختار شاہی ریاست تھی اورکشمیر کے پاس انڈیا یا پاکستان میں سے کسی ایک ملک کے ساتھ الحاق کرنے کا آپشن موجود تھا۔ کشمیر میں اکثریت مسلمان تھی جب کہ وہاں کا حکمران ہندو راجہ ہری سنگھ تھا۔

پاکستان اپنی طرف سے پورا زور لگا رہا تھا کہ کشمیر خود کو پاکستان میں ضم کر دے یا کم سے کم پاکستان کے ساتھ الحاق کرے، دوسری طرف بھارت اپنی جگہ انھی کوششوں میں سرگرم تھا، جب کہ کشمیری عوام جن کی اکثریت مسلمانوں پر مشتمل تھی وہ پاکستان کے ساتھ نہ سہی لیکن بھارت کے ساتھ الحاق پر بالکل بھی تیار نہیں تھی۔کہانی تب مشکوک ہوئی جب کشمیری عوام نے راجہ ہری سنگھ کا جھکاؤ بھارت کی طرف جھکتا ہوا دیکھا اورکشمیر مسلم اکثریت میں بغاوت نے سر اٹھا لیا۔

مسلمان اکثریت نے راجہ ہری سنگھ کے سامنے اپنے مطالبات رکھتے ہوئے کہا کہ چونکہ ہندوستان کا بٹوارا مذہب اور دو قومی نظریے کی بنیاد پر ہوا ہے تو اگر الحاق ہی کرنا ہے تو پاکستان سے کرو ،کیونکہ کشمیر میں اکثریت مسلمانوں کی ہے۔

راجہ ہری سنگھ چونکہ ہندو تھا ، اس لیے وہ پاکستان کے ساتھ الحاق کے سخت خلاف تھا لیکن ساتھ ہی ساتھ اسے اپنا اقتدار بھی عزیز تھا اس لیے اسے وہی ملک عزیز تھا جو اس کے اقتدار کی تاحیات ضمانت دیتا اور ایسی صورتحال میں ایک ہندو کے لیے ہندو ہی بہتر انتخاب تھا۔

قبائلی حملہ: 22 اکتوبر 1947ء راجہ ہری سنگھ کا جھکاؤ بھارت کی طرف دیکھ کرکشمیری مسلم اکثریت نے قبائلی جنگجوؤں کو اپنا دکھڑا سنایا اور مدد کی اپیل کی جس کے نتیجے میں 20 ہزار سے زائد قبائلی جنگجو کشمیر میں داخل ہو گئے۔ چونکہ کشمیری مسلم اکثریت پاکستان کے ساتھ الحاق پر راضی تھی وہ راجہ ہری سنگھ کو پاکستان کے ساتھ الحاق پرکسی بھی طرح راضی کرنا چاہتے تھے، اس لیے اس کارخیر میں پاکستانی حکومت نے بھی یقینا اپنا حصہ ضرور ڈالا ہوگا اور یہی راجہ ہری سنگھ کے بھارت سے الحاق کی وجہ بنی۔ ادھر قبائلی جنگجو کشمیر میں داخل ہوئے ادھر راجہ ہری سنگھ اقتدار سے ہاتھ دھونے کے ڈر سے مدد کے لیے بھارت چلا گیا، بھارت نے مدد کے بدلے الحاق کی شرط رکھ دی جسے راجہ ہری سنگھ نے فوراً قبول کرلیا لیکن راجہ ہری سنگھ حاضر دماغ تھا اس نے الحاق ایسا کیا کہ انڈیا کے ہاتھ بھی کچھ نہ آیا۔

الحاق: راجہ ہری سنگھ نے بھارت کے ساتھ جس الحاق پر دستخط کیے تھے اس کی تمام 6 شقیں ملاحظہ فرمائیں۔

1۔ بھارت کا ریاست کشمیر میں اختیار اس دستاویز میں درج شقوں کے مطابق ہوگا۔ 2۔ بھارتی پارلیمنٹ کوکشمیر میں صرف ان معاملات میں قانون سازی کا اختیار ہوگا جو 1935ء ایکٹ کے شیڈول میں درج ہیں۔ 3۔ 1935ء ایکٹ میں یا بھارت آزادی ایکٹ 1947ء میں کسی ترمیم کے ذریعے اس الحاق میں درج شرائط میں رد و بدل نہیں کرسکتا۔ 4۔ بھارتی پارلیمنٹ کوئی ایسا قانون نہیں بناسکتی، جس کے ذریعے جموں وکشمیر میں جبراً زمین کا حصول کیا جائے، اور اگر بھارت کو اپنے کام کے لیے زمین کی ضرورت پڑی تو وہ زمین ریاست کشمیر ان کو حاصل کرکے دے گی ان شرائط پر جو باہمی طور پر طے پائی جائیں گی۔

5۔ اس معاہدے کی کوئی شق مجھے اس کا پابند نہیں کرتی کہ میں بھارت کے آیندہ بننے والے آئین کو منظورکروں اور نہ ہی مستقبل کے آئین کو قبول کرنے یا نہ کرنے کے میرے اختیار پر کوئی پابندی عائد ہوتی ہے۔ 6۔ اس معاہدے میں کوئی بات ایسی نہیں ہے جو اس ریاست میں اور اس کے اوپر میری خودمختاری کو متاثر کرے، سوائے اس کے جیسا کہ اس دستاویز میں بیان کردیا گیا ہے، ریاست کشمیر پر میرے اختیار، اقتدار اور استحقاق جو مجھے بحیثیت حکمران ریاست حاصل ہیں کم نہیں ہوں گے نہ ہی ان قوانین کی تنقید جو اس وقت نافذالعمل ہیں۔

یہ ہے وہ مضبوط الحاق جو راجہ ہری سنگھ نے بھارت کے ساتھ کیا جسکے نتیجے میں بھارت نے کشمیر میں اپنی فوج داخل کی اور پاک بھارت پہلی جنگ کا آغاز ہوگیا۔ جنگ کی صورتحال خطرناک حد میں داخل ہوچکی تھی پھر اقوام متحدہ نے جنگ بندی کروائی تب تک پاکستان نے کشمیر کا 38 فیصد حصہ فتح کرلیا تھا جو آج الحمد اللہ پاکستان کے پاس ہے۔ اندازہ کریں پاکستان نے اس وقت اپنے سے 2 برابر ملک بھارت سے جنگ لڑکرکشمیر کا 38 فیصد حصہ اپنے نام کیا جب پاکستان کی عمر صرف 2 مہینے 10 دن تھی۔

آج کی صورتحال یہ ہے کہ بھارت راجہ ہری سنگھ کے ساتھ کیے ہوئے اس تمام الحاق کی دھجیاں اڑا کر وہاں پر قابض ہوچکا ہے۔

آرٹیکل 370: آرٹیکل 370 کو سمجھنے کے لیے اب ہمیں 1949ء میں جانا پڑے گا۔ بھارت کے کشمیرکے ساتھ الحاق کے بعد جب بھارتی آئین بنایا جا رہا تھا تب کشمیر کی حیثیت کا مسئلہ کھڑا ہوگیا۔1949ء میں بھارت نے اس مسئلے کا حل یہ نکالا کہ کشمیر کی حیثیت کو آئین کے اس حصے میں ڈال دیا جائے جو عارضی، انتقال اور خصوصی معاملات سے متعلق ہے۔ اس کے لیے بھارتی آئین میں ایک نیا آرٹیکل شامل کیا گیا جس کا نمبر 370ہے۔

1۔ اس آرٹیکل 370 کے مطابق بھارت کے آئین میں جو کچھ بھی لکھا ہو، ریاست کشمیر کے ضمن میں پارلیمنٹ کو قانون سازی کا حق صرف ان معاملات تک محدود ہے جو کشمیری حکومت کے مشورے سے صدر جمہوریہ طے کرینگے۔2۔ جو دستاویز الحاق سے مطابقت رکھتے ہیں ان کا تعین بھی صدر ہی کریں گے اور بھارتی آئین کے کون سے حصے کشمیر میں لاگو ہوں گے اس کا تعین بھی صدر ہی کریں لیکن بشرطیکہ کشمیری حکومت کی اس سے منظوری ہونے کے بعد۔3۔ اس آرٹیکل میں صدر کو یہ اختیار بھی حاصل ہے کہ وہ اس آرٹیکل کو جب چاہے ختم کردیں، لیکن صدر یہ اختیار صرف اس صورت میں استعمال کرے گا جب کشمیری حکومت اس کو منظور کرلے گی۔ یہ تھا آرٹیکل 370 جو تفصیل سے آپ کی گوش گزار کیا گیا۔

آرٹیکل 35A: اب آرٹیکل 35A کو تفصیل سے سمجھنے کے لیے آپ کو 1953ء میں جانا پڑے گا۔1953ء میں اس وقت کے خودمختار حکمران شیخ محمد عبداللہ کی غیر آئینی معزولی کے بعد بھارتی وزیر اعظم جواہر لعل نہرو کی سفارش پر صدارتی حکم نامے کے ذریعے آئین میں دفعہ 35A کو بھی شامل کیا گیا جسکے مطابق بھارتی وفاق میں کشمیر کو واضح طور پر ایک علیحدہ ریاست کی حیثیت دی گئی۔ آرٹیکل 35A آرٹیکل 370 کی ہی ایک مضبوط اور مکمل قانونی شکل ہے۔ فرق بس یہ ہے 1949ء میں بھارتی آئین میں آرٹیکل 370 کو عارضی، انتقال اور خصوصی معاملات کے طور پر آئین میں شامل کیا گیا جب کہ 1953ء میں آرٹیکل 35A کے مطابق:

1۔ کوئی شخص صرف اسی صورت میں جموں کشمیر کا شہری ہو سکتا ہے اگر وہ وہاں پیدا ہوا ہو۔2۔ کسی بھی دوسری ریاست کا شہری جموں کشمیر میں زمین جائیداد نہیں خرید سکتا۔ 3۔ کسی بھی دوسری ریاست کا شخص کشمیر میں سرکاری نوکری نہیں حاصل کرسکتا۔ 4۔ کوئی بھی دوسری ریاست کا شخص جموں کشمیر میں ووٹ کاسٹ نہیں کرسکتا۔

آرٹیکل 35 اے جموں و کشمیر کے لوگوں کو مستقل شہریت کی ضمانت دیتا ہے اور راجہ ہری سنگھ کے بھارت کے ساتھ ہونے والا الحاق بھی چیخ چیخ کر یہی کہہ رہا ہے۔بھارتی پارلیمنٹ 35A کو ختم کرکے نہ صرف اس الحاق کی خلاف ورزی کی جو راجہ ہری سنگھ نے بھارت کے ساتھ کیا بلکہ بھارتی سابقہ حکومت کے اپنے ہی بنائے ہوئے قانون آرٹیکل 370 کی بھی نفی کر دی۔ آرٹیکل 370 ہو یا آرٹیکل 35A یہ دونوں آرٹیکل ایک دوسرے کے بغیر کچھ نہیں کسی بھی ایک آرٹیکل کو ختم کردیا جائے تو دوسرا آرٹیکل اپنی موت خود مرجائے گا اور ایسا ہوچکا ہے۔

آپ نے کشمیر کے ماضی اور حال کو تفصیل سے جان لیا اور اب کشمیرکے مستقبل پر روشنی ڈالتے ہیں۔آرٹیکل 35A کو ختم کرکے بھارت نے اپنے مذموم مقاصد عالمی دنیا کو بتا دیے ہیں بھارت پوری طرح دنیا کے سامنے ایکسپوز ہوچکا ہے، جب کہ کشمیری عوام اور حکمرانوں کا کہنا ہے کہ بھارت کے اس عمل کی ان کے نزدیک کوئی قانونی حیثیت نہیں۔ (جاری ہے)

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں