ٹیکسوں کا عروج۔۔۔ معیشت کا خروج

آئی ایم ایف جو قرض بھی پاکستان کو دے گا اس کی شرائط عوام کوکس راہ پر لے جائیں گی۔


Anis Baqar May 17, 2019
[email protected]

آئے دن نت نئے ٹیکسوں کا عروج میرے خیال میں معیشت کا اس کے خلاف شدید بغاوت کا پیش خیمہ ہے، جبکہ حکومت یہ سمجھتی ہے کہ ملک کے لیے اس سے سودمندکوئی اور راستہ نہیں۔ یہ کاروبار حکومت پاکستان نے شروع سے ہی روا رکھا۔ اس لیے پاکستان کی ترقی کی رفتار جنوب مشرقی ایشیا کے بیشتر ممالک سے کم رہی بلکہ کرنسی کی صورت حال تو اس قدر نحیف ہوچکی ہے کہ آئی ایم ایف نے اپنا نمایندہ اسٹیٹ بینک کے گورنرکے عہدے پر فائز کر دیا ہے یا باہمی رضامندی سے ایسا ہوا ہے۔

اب صورت حال یوں سامنے آ رہی ہے کہ آئی ایم ایف جو قرض بھی پاکستان کو دے گا اس کی شرائط عوام کوکس راہ پر لے جائیں گی۔ ان کے جسم سے انکم ٹیکس، سیلز ٹیکس اور بجلی، گیس اور پانی کی شکل میں لوگوں کے جسم سے خون تک نچوڑ لیں گے۔ ملک اس وقت بدترین معاشی بحران میں دھنسا جا رہا ہے ملک میں ایک اور سونامی جلد آنے کو ہے۔ کیونکہ پاکستان میں بیروزگاری کی موجیں اٹھنے کو ہیں۔

پاکستان میں انڈسٹریل ڈویلپمنٹ کی امید بالکل اٹھتی چلی جا رہی ہے کیونکہ جس ملک میں گیس، بجلی اور ایندھن اور دیگر حکومتی لوازمات زیادہ ہونے سے مصنوعات کی قیمت زیادہ ہو جاتی ہے اس لیے وہ عالمی منڈی میں فروخت ہونے میں دشوار ہو جاتی ہیں جس کا انجام یہ ہوتا ہے کہ سکہ کی قیمت گرانی پڑتی ہے اور اس کے باوجود بھی ایکسپورٹ کے اہداف حاصل نہیں ہوتے۔ جیسا کہ حالیہ دنوں میں پاکستانی مصنوعات بیرون ملک سست روی کا شکار رہیں اور حکومت کو یہ تسلیم کرنا پڑا جس کے نتیجے میں قرضوں پر انحصار بڑھتا جاتا ہے۔

جو ہماری موجودہ صورتحال ہے مہنگائی کا ایک طرف ظلم ملک کے مکین برداشت کرتے ہیں تو دوسری جانب ایسے ملک میں بیرونی سرمایہ کار بھی اپنا سرمایہ لگانا پسند نہیں کرتے کیونکہ ایسے ملک کی مصنوعات کی عالمی منڈی میں اٹھان بہت کم رہتی ہے۔ اس لیے تمام سہولتوں کے باوجود بیرونی سرمایہ کار ہمارے ملک میں سرمایہ کاری سے اجتناب کرتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ملک میں جس رفتار سے صنعت کی ترقی ہونی تھی اس کے اہداف شرمساری کی تصویر بنے رہتے ہیں۔ ایک اور اہم پہلو جو قابل غور ہے پاکستان میں ٹیکس کا نظام جبری ہے۔

دنیا بھر میں ٹیکس ادا کرنے والے کی منزلت بلند ہوتی ہے مگر جبری ٹیکس کا نظام ہر غریب امیر پر یکساں عائد کیا گیا ہے۔ سیلز ٹیکس ایک ایسا ٹیکس ہے جو ہر شخص پر قطع نظر اس کی آمدنی کے لاگو کیا گیا ہے۔ یعنی جس کی آمدن دس لاکھ روپے ماہانہ ہے اس کو بھی اتنا ہی ٹیکس ادا کرنا ہے جتنا جس کی آمدن دس ہزار روپیہ ماہانہ ہے۔ لہٰذا پاکستان میں ٹیکس کا نظام عدل و انصاف سے کوسوں دور ہے۔ ہر چیز کی خریداری پر ٹیکس عائد کیا گیا ہے جس کے عوض عوام کو کوئی مراعات حاصل نہیں۔ ٹیکس کا یہ عمل اس قدر انصاف سے دور ہے کہ ڈبل روٹی پر بھی سیلز ٹیکس لگایا گیا ہے۔ حکمرانوں کی تمام تر ترجیحات ٹیکسوں کی وصولیابی پر ہے نہ کہ اس راہ کا قیام جس سے ملک میں صنعتی یا زرعی انقلاب برپا ہوسکے فکر کا یہ پہلو ملک میں سرے سے ہی موجود نہیں۔

9 ماہ بعد جب ٹیم کے کپتان نے کارکردگی کا جائزہ لیا تو یہ بات سامنے آئی کہ کوئی جدید راہ نہیں ملی جو ترقی کا سفر طے کرسکے چنانچہ کپتان نے فیلڈنگ بدل ڈالی۔ جو لانگ آف پر تھا وہ لانگ آن پر آگیا اور جو مڈ آف پر تھا وہ مڈ آن پر آگیا جبکہ یہ کرکٹ نہ تھا یہ ایک فکری محاذ تھا۔ موجودہ حکومت پر یہ واضح ہے کہ حزب مخالف صرف زبانی جمع خرچ پر یقین رکھتی ہے اور اس کا بھی عوام میں کوئی اثر و رسوخ نہیں۔ اس لیے حکومت بالکل خوفزدہ نہیں۔ البتہ اگر ٹیکسوں کا بوجھ یوں ہی بڑھتا گیا تو ایک دن کراچی میں بدنظمی کی لہر پیدا ہو سکتی ہے اور یہ حکومت کے لیے سنگین خطرہ بن سکتی ہے کیونکہ یہ کسی سیاسی پارٹی کے تابع نہ ہوگی آخر کار وہ وقت قریب آتا جا رہا ہے کہ عوام میں ٹیکس دینے کی سکت باقی نہ رہے گی کیونکہ آمدنی میں مسلسل کمی ہوتی جا رہی ہے اور روزگار کے راستے محدود تر ہوتے جا رہے ہیں۔

محض ٹیکسوں کی وصولیابی سود کی ادائیگی کے لیے ایک اندازے کے مطابق صرف سود کی ادائیگی کے لیے ہمیں تقریباً 8 ارب روپیہ روزانہ ادا کرنے پڑ رہے ہیں۔ اس شرح سود کا انجام کیا ہوگا۔ ہمارے ملک کو کہاں اور کس سفر پر دھکیل رہے ہیں۔ مانا کہ یہ سفر موجودہ حکومت کی دین نہیں بلکہ ماضی کے حکمرانوں کی دین ہے مگر موجودہ حکمرانوں نے جو سفر شروع کیا ہے اس نے لوٹی رقم کی واپسی کی کتنی رقم واپس لی اور کیا امید ہے کیونکہ جیل جانے نے ان کی عزت نفس کو مجروح کرنے کے بجائے سیاسی قد و قامت میں اضافہ کیا ہے کیونکہ موجودہ حکومت نے عوام کو مہنگائی کے دلدل میں دھنسا دیا ہے اور اس سے نکلنے کے راستے بھی نظر نہیں آرہے نہ کوئی اقتصادی منصوبہ ہے اور نہ کوئی ترقی کے راستے۔ محض حکومت کی جانب سے جو پروپیگنڈا کیا جا رہا ہے اس میں کوئی حقیقت نہیں۔

چند ماہ قبل جب دواؤں کی قیمتوں میں اضافہ کیا گیا تھا اس پر وزیر اعظم نے سختی سے مسترد کردیا تھا بلکہ ایک اخباری اطلاع کے مطابق اس اضافے کو 72 گھنٹے میں واپسی کی امید تھی مگر جانے کتنے گھنٹے ان 72 گھنٹوں کے تعاقب میں مزید لگیں گے اب جہاں تک اپوزیشن کا تعلق ہے تو ان سے کسی تحریک کی امید لگانا بے سود ہے کیونکہ اب پیپلز پارٹی بینظیر کی کابینہ نہیں جو ہتھیلی پر جان لے کے چلنے والی قوتیں تھیں اور کارکن تمام سرفروش ان کے ہمراہ مگر رفتہ رفتہ ان کی عمریں ساتھ چھوڑ گئیں مگر یہ ایک حقیقت ہے کہ اعتدال کی راہ کو چھوڑنا انتشار کی پیداوار اور خروج کا باعث بن جاتا ہے۔ لہٰذا اعتدال پسندی ہی عروج کا راستہ ہے۔

رہ گئی اپوزیشن سے امید تو پاکستان میں سیاسی پارٹیوں نے اعتدال کی راہ کا عوام سے کمٹمنٹ نہیں کر رکھا اس لیے ملک کو ترقی کی راہ دکھانے کے لیے کوئی آگے بڑھنے کو تیار نہیں۔ (ن) لیگ نے ظاہری طور پر کچھ کام کیے مگر وہ عوامی کہلانے کے زمرے میں نہیں آتے اور پیپلز پارٹی جو عوامی پارٹی تھی اس نے سندھی قوم کو دو حصوں میں تقسیم کردیا۔ ایک وہ جو نئے سندھی ہیں جن کے والدین بھارت سے آئے تھے گوکہ وہ یہاں پیدا ہوئے دوسرے قدیم اس نے عوام کو تقسیم کر رکھا ہے۔ اس لیے کراچی سے تحریک کا آغاز مشکل ہوچکا ہے گوکہ یہ ایک سنہری گھڑی تھی جو گزر گئی بس اسمبلی میں مراعات کی جنگ جاری ہے۔ البتہ ٹیکسوں کا عروج ہی خروج کا باعث بن سکتا ہے۔

قبل اس کے کہ مضمون سے رخصت ہو چلوں قارئین کا شکریہ ادا کرتا چلوں جنھوں نے چند ماہ میں پانچ ہزار ای میل کا انبار لگادیا اور ان کی دعاؤں سے عارضہ قلب کو میں شکست دینے کے قابل ہوگیا گو کہ ایک عرصہ تک فرداً فرداً جواب نہ دے سکوں گا۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں