نظریہ ارتقا کا جدید پوسٹ مارٹم

اگر انسان بندر سے شروع ہوا تھا تو چار پاؤں پر چلنے اور دو پاؤں پہ چلنے والا مسئلہ کسی طرح بھی نظرانداز نہیں ہوسکتا۔


[email protected]

تاریخ انسانی اپنے آغاز ہی سے اس سوال کا جواب تلاش کر رہی ہے کہ انسان اس سیارے پرکہاں سے آیا ہے؟ سائنسدانوں کو اس سوال کا کوئی حتمی جواب ابھی تک مل نہیں سکا اور بنیاد پرست اپنے اپنے عقائد کی روشنی میں اس کی تشریح و توضیح پر مصر ہیں اس کے باوجود ان مختلف دھاروں کے مل کر بہنے سے ''انسان کی آمد'' کے متعلق کچھ نہ کچھ باتیں سامنے آرہی ہیں ، لیکن یہ باتیں ''کچھ نہ کچھ'' سے آگے بڑھ نہیں پا رہی ہیں۔

سب سے بڑا راز جو آج تک مکمل نہیں ہوسکا، وہ یہ ہے کہ آج سے کوئی 4 سے 8 ملین سال پہلے ایک گوریلا یا بندر نما مخلوق (جسے بعض حلقے انسان کے ابتدائی آبا قرار دیتے ہیں) اپنے ارتقائی راستوں پرگامزن ہوئی۔ جھکا ہوا جسم دھیرے دھیرے اوپرکو آتا گیا۔ چلیے یہ سب ٹھیک ہے لیکن وہ کیا تھی کیا عمل تھا کیا ترکیب تھی جس نے چار پاؤں پر چلنے والی مخلوق کو دو پیروں پہ چلنا سکھا دیا ؟

اگر انسان بندر سے شروع ہوا تھا تو چار پاؤں پر چلنے اور دو پاؤں پہ چلنے والا مسئلہ کسی طرح بھی نظرانداز نہیں ہوسکتا۔ نیو یارک اسٹیٹ یونیورسٹی کے ایناٹومسٹ رینڈل سیوس مین کے بقول ''یہی تو وہ مسئلہ ہے جس کا حل ہمیں یہ بتا سکتا ہے کہ درخت پر رہنے والی اس بندر نما اور عام سی مخلوق سے انسان جیسی خاص مخلوق کا ابھرنا ممکن ہے توکیونکر؟''

انسانی تخلیق کو درپیش بہت سے دیگر مسائل کے برعکس یہ مسئلہ ضروری شواہد قدیم زمانے کی ہڈیوں کی صورت سامنے آتے رہتے ہیں ۔ آرہے ہیں اور امید ہے کہ آتے رہیں گے۔

ماضی میں اس تحقیق سے منسلک سائنسدانوں کا خیال یہ تھا کہ انسان نما بندر ابتدائی مخلوق کے ہاتھوں کی مخصوص ساخت اس لیے تھی کہ وہ بڑی بڑی گھاس کو ہٹا کر دیکھ سکیں۔ پھر یہ خیال سامنے آیا کہ اس کی وجہ اوزاروں کا استعمال تھا۔ اس کے بعد خوراک جمع کرنے کو سبب گردانا گیا۔ بہرحال یہ بات زیادہ تر کے نزدیک واضح تھی کہ یہ تبدیلی 2 ملین سال پہلے واقع ہوئی لیکن یہ سب کیفیت '' لوسی کی دریافت'' تک رہی۔

یہ 1970 کی دہائی کا تذکرہ ہے۔ ڈونالڈ جوہانسن (جو اب برکلے انسٹی ٹیوٹ برائے انسانی ابتدا کے سربراہ ہیں) کی قیادت میں ایک سائنسی مہم ایتھوپیا میں انجام دی گئی ۔ اس دوران انسان نما ہڈیوں کو دریافت کیا گیا اور ان تمام ہڈیوں میں 3 ملین سال پرانا ''لوسی کا ڈھانچہ'' بطور خاص قابل ذکر ہے۔

لوسی کے دماغ کی جسامت بندر جتنی تھی لیکن اس بارے میں کوئی شک نہ پایا گیا وہ سیدھی چل سکتی تھی۔ اسی دوران مالیکیولی حیاتیات دانوں نے جو ارتقا پر تحقیق کر رہے تھے یہ خیال پیش کیا کہ بندر اور انسان نما مخلوق ایک ہی قسم کی نوع سے پیدا ہوئے تھے۔ ان دونوں کے الگ الگ ہونے کا یہ عمل 5 ملین سال پہلے ہوا اور ماضی میں اسے غلط طور پر 10 سے 16 ملین سال کا عرصہ قرار دیا جاتا رہا۔ گویا کہ وہ مدت جس کے دوران چار سے دو پاؤں پر چلنے کا ارتقا ہوا۔ ارضیاتی پیمانہ وقت پر نہیں آسکتی۔

حیاتیات دانوں کے خیالات کو ماہرین اثریات نے رکازات اور دوسری شہادتوں کے بغیر قبول کرنے میں خاص پس و پیش کی۔ چنانچہ کینیا کے نیشنل میوزیم کے ڈائریکٹر رچرڈ لیکی نے کہا کہ:

''میں سمجھتا ہوں کہ ہمیں ان ماحولیاتی اور رہائشی تبدیلیوں کو تلاش کرنا چاہیے جن کی وجہ سے چار سے دو پاؤں والی تبدیلی پیدا ہوئی۔''

رچرڈ لیکی ہی کا مزید کہنا ہے کہ فی الحال میں نہیں کہہ سکتا کہ یہ سب کہاں کیوں اورکیسے واقع ہوا۔ بہرحال اس کی مدت زیادہ سے زیادہ 10 ملین سال اور کم سے کم 4 ملین سال ہوسکتی ہے اور اس لحاظ سے حیاتیات دانوں کا خیال قابل اعتبار ہے۔

آخر ڈارون کو ہی نظریہ ارتقا کا موجد یا جد امجد کیوں سمجھا جاتا ہے؟

حالانکہ یہ ایک حقیقت ہے کہ نظریہ ارتقا تقریباً 2 ہزار برس سے یونانی ماہرین حیاتیات سے لے کر جان ہاپٹسٹ لیمارک (1744 سے 1729) تک کئی مفکرین نے کامیابی کے ساتھ پیش کیا تھا اور اس ضمن میں بوفون امینوئل کیکنٹ ایراسمس ڈارون اور لیمارک کا تو خاص طور پر ذکرکیا جانا چاہیے۔ مزید برآں لیمارک نے 1809 میں اپنی کتاب ''فلاسفی ڈی زولوگی'' میں اس نظریہ کو اسباب و عمل اور دلیلوں کی روشنی میں مکمل طور پر پیش کیا تھا۔ لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ آج بھی ڈارون ہی کو نظریہ ارتقا کا موجد یا جدامجد تسلیم کیا جاتا ہے لیکن اس کی وجہ یہ ہرگز نہیں کہ آج بھی نظریہ ارتقا کا وہی فہم ہے جس کی بنیاد پر ڈارون نے نظریہ ارتقا اپنے زمانے میں پیش کیا تھا۔

بلکہ حقیقت تو یہ ہے کہ ڈارون نے اپنی کتاب کا عنوان ''انواع کی ابتدا'' تجویز کیا تھا۔ لیکن ڈارون کے دور کے ایک مداح اور جینیات کے استاد ڈاب زینسکی کے بقول ڈارون نوع کے موجودہ فہم سے قطعاً ناواقف تھے اور انھوں نے اپنی کتاب ''انواع کی ابتدا فطری انتخاب کے ذریعہ'' میں کسی ایک جگہ بھی کسی بھی مثال کے ذریعے یہ ثابت کرنے کی کوشش نہیں فرمائی کہ قدیم انواع سے جدید انواع معرض وجود میں آئیں ۔انواع میں خصوصیات کی تبدیلیوں کا انھوں نے یقینی طور پر ذکر فرمایا لیکن ان خصوصیات کی تبدیلیوں کا نوع کی ماہیت کو تبدیل نہیں کیا اور پھر ڈارون نے تو اپنی کتاب میں خود فرمایا ہے کہ وہ نوع اور زیریں نوع میں تمیز نہیں کرتے تھے بقول ان کے جب عضوؤں کی خصوصیات میں فرق نسبتاً کم تر درجے کے پائے جاتے تھے تو ماہرین انھیں زیریں نوع کا درجہ دیتے تھے لیکن جب یہ فرق اعلیٰ درجے کے ہوتے تھے تو ماہرین انھیں الگ الگ انواع سے تعبیر کیا کرتے تھے۔

ڈارون کی کتاب انواع کی ابتدا فطری انتخاب کے ذریعے نوع کی تخلیق کا جو سبب بیان کرتی ہے یعنی فطری انتخاب سے بھی آج کے ماہرین نوع کی تخلیق کا کوئی بنیادی سبب تسلیم نہیں کرتے کیونکہ بقول ان کے (ارنسٹ مائر 1923) فطری انتخاب کے ذریعے نوع کے کسی تطابق (Adaptation) کو بہتر بنایا جاسکتا ہے اور بعض حالات میں اس تطابق کو تکمیل کی منزل تک بھی پہنچایا جاسکتا ہے لیکن فطری انتخاب نہ تو کسی نوع کی آبادیوں کے درمیان تولید کی علیحدگی کی بنیاد بن سکتا ہے اور نہ ہی آبادیوں کو تولیدی عمل میں جدا جدا کرسکتا ہے۔

اس لیے فطری انتخاب کے ذریعے کسی نوع کی تخلیق کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا کسی نوع کی تخلیق کے لیے آج جو عوامل یا اسباب اہمیت کے حامل تصور کیے جاتے ہیں ۔ان میں کسی نوع کی مختلف آبادیوں کے مابین جغرافیائی علیحدگی اور جینی تبدیلیاں سرفہرست تسلیم کی جاتی ہیں ۔جینی تبدیلیوں میں سے بعض تبدیلیاں کسی جغرافیائی طور پر علیحدہ آبادی کے افراد کو اپنے ماحول میں زیادہ کامیاب بنانے میں اہم کردار ادا کرتی ہیں اور ان جینی تبدیلیوں کے حامل افراد کو فطرت آبادی میں سے منتخب کرلیتی ہے یعنی انھیں بقا حاصل ہوجاتی ہے ان کی نسلوں کا نہ صرف یہ کہ تسلسل باقی رہتا ہے بلکہ وہ ان جینی تبدیلیوں کو اپنی نسلوں میں بھی وراثت کے ذریعے منتقل کرتی رہتی ہیں اور کچھ ہی عرصے بعد نوع کی جغرافیائی طور پر علیحدہ آبادی جو دوسری آبادیوں سے اختلاط یا تولیدی ملاپ نہیں کرسکتی، ان خصوصیات کی حامل ہوجاتی ہے جن کے نتیجے میں اگر اس کے افراد کسی زمینی تبدیلی کی وجہ سے اس نوع کی دوسری آبادیوں کے افراد کے قریب آجائیں یا ان سے مل جائیں تو بھی انھیں اپنے ہم نوع ساتھی کی حیثیت سے نہیں پہچان سکتے اور اس طرح ان کے مابین تولیدی علیحدگی واقع ہوجاتی ہے اور اس طرح ایک نئی نوع معرض وجود میں آجاتی ہے۔ بقول اقبال:

یہ کائنات ابھی ناتمام ہے شاید

کہ آرہی ہے دما دم صدائے کن فیکون

جب آج کے دور میں نظریہ ارتقا کا فہم '' ڈاروینیت'' یا ڈارون کے نظریہ ارتقا سے یکسر مختلف تصورکیا جاتا ہے تو پھر ہم ڈارون کو ارتقا کا موجد یا جدامجد کیوں تسلیم کرتے ہیں۔ اس کی یقینا صرف یہی وجہ دل کو لگتی ہے کہ ڈارون نے اپنے زمانے کے لوگوں کو پہلی بار ارتقا کا اس حد تک قائل کرلیا کہ نوع کے نظریہ جمود کا ببانگ دہل ماننے والا کوئی بھی نہ رہا۔ کلیساؤں نے بھی اپنے نظریات میں تبدیلیاں پیدا کیں حالانکہ آج بھی والس کی طرح تمام راہب انسان کی تخلیق کو ارتقائی عمل سے مکمل طور پر جدا کوئی اور عمل تسلیم کرتے ہیں لیکن حیوانات اور نباتات کی انواع کے ارتقائی عمل کو عام طور پر تسلیم کیا جاتا ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں