عوام دشمن اشرافیائی جمہوریت

عوام دشمن اشرافیائی جمہوریت میں کبھی بھی عوام خوشحال نہیں ہوں گے۔


خالد گورایا April 07, 2019
[email protected]

اشرافیائی جمہوریت انگریزوں کی ایجاد کردہ ہے ۔ لارڈ کلائیو نے 1765 سے 1767 تک غدار وطن میر جعفر کے بعد اس کے بیٹے نجم الدولہ کو بہار اور بنگال کا نواب حاکم مقررکرنے کے ساتھ اس کے ساتھ دو انگریز افسر بھی تعینات کیے جو عوام سے ٹیکس وصولیوں کی نگرانی کرتے تھے، جو رقوم جمع ہوتی تھیں ان میں سے کچھ حصہ نواب نجم الدولہ کو ملتا تھا ۔ باقی رقوم لارڈ کلائیوگورنر بنگال کے پاس آتی تھیں۔

گورنر اس میں کچھ حصہ ایسٹ انڈیا کمپنی اور انگریز فوجیوں کی تنخواہوں کا رکھ کر باقی تمام رقم برطانیہ بھیج دیتا تھا۔ وارن ہیسٹنگز 1772 سے 1774 تک نے مقامی سرداروں، نوابین سے ٹیکس وصولیوں کے اختیارات چھین کر ہر ضلع میں ایک ٹیکس کلیکٹر مقررکیا اور انھیں اپنے اپنے ضلع کے ججوں کے اختیارات بھی دیے۔

ہندوؤں اور مسلمانوں کے پنڈتوں اور قاضیوں کو ان کی مدد کے لیے مقررکیا ۔گورنر جنرل لارڈ کارنوالس 1786 سے 1793 تک نے غلام ہندوستان میں بادشاہوں اور شہنشاہوں کے پورے ملک کی زمینوں کے ''ذاتی ملکیت'' کے رواج کا خاتمہ کرکے زمینوں کو ان سرداروں ، نوابوں ، حاکموں کی ذاتی ملکیتیں قرار دے دیا ۔ جن زمینوں سے یہ لوگ اپنے اپنے علاقے سے کارندوں کے ذریعے ٹیکس اکٹھا کرتے تھے جسے چوتھ کہا جاتا تھا ، جو چوتھ اکٹھا کرکے بادشاہ یا شہنشاہ کو بھجواتے تھے۔ یہ سسٹم بند کردیا گیا اور انگریز ٹیکس کلیکٹروں نے زمینوں کی ذاتی ملکیت رکھنے والے سرداروں، نوابوں، صوبے داروں سے نقد ٹیکس وصولیاں شروع کر دیں ۔

بادشاہوں اور شہنشاہوں کو گزارا الاؤنس دینا شروع کیا۔ گورنر جنرل ولیم بینٹنک 1828 سے 1833 تک نے انگریزی ثقافتی کلچر کو نافذکرنے کے لیے انگریزی زبان میں تعلیم شروع کرا دی اور دفتری زبان انگریزی قرار دے دی گئی۔ بادشاہوں، شہنشاہوں کی دفتری فارسی زبان ختم کردی۔ انگریز ساتھ ہی ساتھ غلام ہندوستان کے باقی بچے علاقے بھی اپنے قبضے میں لیتے رہے۔ سندھ پر 1843 میں گجرات پر 1849 میں قبضہ کرلیا۔ 1853تک سول سروس میں انگریزوں کو رکھا جاتا تھا ۔

1853 میں ایسٹ انڈیا کمپنی سے سول سروس کی تقرری کے اختیارات چھین کر لندن میں سول سروس کا امتحان لیا جانے لگا ۔ 1840 میں لارڈ کلائیو نے پلاسی کو فتح کر لیا، یہاں انگریز حکومت قائم کرلی۔ 1857 میں جنگ آزادی شروع ہوئی۔ میرٹھ، مدراس، دہلی، کانپور، لکھنو میں مسلم سپاہیوں نے بغاوت کرنا شروع کردی۔ لارڈ لینسڈاؤن 1888 سے 1894 کے دور میں 1893 مقامی کونسلوں کے انتخابات کرائے گئے ۔

یہ یاد رہے کہ بڑے جاگیرداروں کو چھوٹے زمینداروں نے ووٹ دیا۔ جو لوگ حکومت کو براہ راست ٹیکس دیتے تھے تاجر اور سرمایہ کار تھے ان لوگوں کو ووٹ دینے کا حق حاصل تھا۔ عوام کو ووٹ دینے کا حق نہیں تھا۔ انگریزوں نے چند غداروں کو خرید کر ان غداروں کے ذریعے کروڑوں غربت زدہ عوام کو سیاسی اور معاشی غلام بنالیا، برطانوی سامراج نے انگریزی نظام تعلیم کو جاگیرداروں کی اولادوں کو انگریزی سسٹم سکھانے کے لیے ایچی سن میوکالج، چیفس کالج و دیگر ادارے قائم کیے۔ اس طرح انگریزوں نے جمہوریت کو عوامی خدمت کا خوبصورت نام دے کر عوام کو معاشی غلام بنا لیا۔

پاکستان میں فوجی حکومتیں ہوں یا اشرافیائی عوام دشمن جمہوریت حکومتیں ہوں۔ ہمیشہ فوجی جنرلوں نے اور جاگیرداروں نے الیکٹ ایبلزکو ٹکٹ دے کر اسمبلیاں بناکر غریب عوام کا خون ٹیکسوں کی شکل میں نچوڑا ۔ عمران خان نے بھی الیکٹ ایبلز کو ٹکٹ دیے جو تقریباً تمام جاگیردارانہ خاندانوں کا حصہ ہیں۔ اب میں جاگیردارانہ کلچر کی مثال دیتا ہوں کہ جن لوگوں نے پارٹی کو ووٹ دیے ہوئے ہیں پارٹی کی حکومت اگرکچھ کرتی ہے تو یہ مخصوص لوگوں کے لیے ہی کرتی ہے۔ انگریزوں نے غداروں کے ذریعے حکمرانی قائم کی تھی۔ اسی طرح پیپلز پارٹی سندھ میں حکمران جماعت ہے۔ ان کے وزیر اپنی من پسند کے مطابق کام کرتے ہیں۔ یہ ان کے طبقاتی مفاد کے مطابق ہوتا ہے۔

اسی طرح راقم نے پانی کے مسئلے پر وزیر بلدیات سعید غنی سے کالم میں درخواست کی تھی کہ حکومت نے حال ہی میں واٹر بورڈ کے سینئر افسر اسد اللہ خان کو منیجنگ ڈائریکٹر مقررکیا ہے۔ ناظم آباد کے علاقے میں ایک بلڈنگ میں جنوری 2019 سے پانی آنا بند ہوگیا جو مسلسل واٹر بورڈ کے آفس میں جانے کے باوجود مسئلہ حل نہ ہوا تو وزیر موصوف کے پی اے بھائی ابڑو سے رابطہ کیا گیا تو انھوں نے بتایا کہ آپ اس نمبر پر بات کرلیں۔ راقم نے وزیر موصوف سے کئی بار رابطہ کیا لیکن فون ہی نہیں سنا گیا کیونکہ وزیر موصوف کی مصروفیات بڑھ گئی ہیں۔

دوسرا ایم کیو ایم پاکستان اور پیپلز پارٹی کی باہمی مالی و انتظامی اداروں کے لیے چپقلش عوام اندرون سندھ کے ہوں یا شہروں کے ہوں ان کی مشکلات میں آئے روز اضافہ ہو رہا ہے۔بہتر یہی ہے کہ عوام کے لیے باہمی تعاون و خلوص نیت سے مسئلے حل کیے جائیں۔ دونوں پارٹیاں حقیقت ہیں۔ عوام کے مسائل کے حل کے لیے انھوں نے عوام سے ووٹ بھی لیے ہیں۔ اس لیے بغیر کسی امتیاز کے عوام کے لیے کام کریں۔ جب پورا انڈیا غلامی میں تھا تو انگریزوں نے یہاں جاگیریں دے کر غداروں کے ذریعے حکمرانی کی یہاں کا سرمایہ برطانیہ منتقل کیا۔ آج معمولی معمولی مسئلوں کے لیے عوام پریشان ہیں۔

اس علاقے میں عوام سے ووٹ لینے والا نہ پی پی پی، نہ ہی تحریک انصاف نہ ہی (ن) لیگ اور نہ ہی ایم کیو ایم کا نمایندہ ملا جس سے شکایت کا ازالہ کرنے کے لیے کہا جاتا۔راقم نے پرانے واقف کار بھائی سید شارق علی سے رابطہ کیا کہ ہمیں بہادر آباد میں ایم کیو ایم پاکستان کے دفتر کا ایڈریس سمجھا دیں، انھوں نے گائیڈ کردیا، بغیر کسی فون کیے وقت لیے بغیر ہم ایک وفد لے کر بہادرآباد ایم کیو ایم پاکستان کے دفتر چلے گئے۔ وفد میں ذکا بھائی، اصغر بھائی ودیگر شامل تھے۔ ہماری ملاقات شیخ صلاح الدین سے ہوئی جو بلدیاتی کمیٹی کے انچارج ہیں انھوں نے نہایت ہی ہمدردی سے شکایت سن کر واٹر بورڈ والوں سے فوری رابطہ کیا۔ اس کے بعد دوبارہ قانونی کارروائی کے لیے واٹر بورڈ کو درخواست دی گئی۔

اس کے بعد اسسٹنٹ انجینئر سہیل طیب اور سپروائزر سہیل حسین اپنے ساتھ ٹیکنیکل عملہ لائے اور تین ماہ سے بند پانی سپلائی شروع ہوگئی۔ آج کل پورے ملک میں مالی اختیارات کے لیے کشمکش ہو رہی ہے کراچی میں ایم کیو ایم کہتی ہے کہ اس کے پاس وسائل نہیں اختیارات پیپلز پارٹی دینے کو تیار نہیں۔ اس طرح مرکزی حکومت اور تمام صوبوں کی حکومتوں سے درخواست کرتا ہوں کہ بغیر کسی پارٹی کے امتیاز کے پورے ملک اور خصوصاً سندھ میں ''عوامی محلہ کمیٹیاں'' بنائی جائیں ان عوامی کمیٹیوں کو ان کے فرائض کے مطابق مالیاتی اور انتظامی اختیارات دیے جائیں ۔

عوام دشمن اشرافیائی جمہوریت میں کبھی بھی عوام خوشحال نہیں ہوں گے ۔ سندھ میں '' ایم کیو ایم پاکستان '' جو پورے ملک میں واحد سیاسی پارٹی ہے، جو جاگیرداروں اور سرمایہ داروں سے پاک پارٹی ہے ۔ عوام کو زندہ رہنے کا حق دیا جائے جو قانون قدرت اورکائناتی قانون کے تحت ہر جاندار کو حاصل ہے۔ حکومت سندھ انگریزوں کے رائج کردہ عوام کو غلام بنانے کے سسٹم کا خاتمہ کرتے ہوئے نچلی سطح پر انتظامی و مالیاتی اختیارات منتقل کرے ۔ محلوں کی ضروریات اگر محلہ کمیٹیاں پورا کریں گی تو حکومت بھی سر درد سے بچ جائے گی ۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں