میز کا فاصلہ

ایک جملے ’میز کا فرق کبھی نہ مٹانا‘ نے سارے طبق روشن کردیئے اور میں فلیش بیک میں آج تک کی پاکستانی سیاست دیکھنے لگا


اکرم ثاقب November 03, 2018
جب یہ میز دو کرسیوں کے درمیان آجاتی ہے تو پھر سارے ناتے تعلق اور دوستیاں ایک میز کے فاصلے پر چلے جاتے ہیں۔ فوٹو: انٹرنیٹ

کرسی کا فرق تو آپ سب جانتے ہیں مگر میز کی دیوار اس سے بھی زیادہ سخت اور ناقابل عبور ہوتی ہے۔ ہمارے ایک دوست ہوا کرتے تھے جو اسی میز کے فرق کی وجہ سے ہمیں چھوڑگئے؛ اور مزے کی بات یہ ہے کہ یہ جملہ بھی ان ہی صاحب کا ہے۔ ایک دن ہم حسب معمول اپنے فرائض منصبی ادا کرنے اپنے ادارے میں پہنچے تو حیران رہ گئے۔ ہمارے دیرینہ دوست سب سے بڑے عہدے کی کرسی پر براجمان تھے۔ ہماری خوشی کی انتہا نہ رہی۔ ہم نے سوچا کہ اب ہمارا یار اس کرسی پر آ گیا ہے۔ اب تو یہاں ہماری بڑی موجیں ہوں گیِ، کیونکہ ہمارے ہاں ایسا ہی ہوتا ہے۔ جس کا کوئی دوست یار عزیز کسی بڑے عہدے پر چلا جاتا ہے، وہ اس کے نام پر کھاتا بھی ہے اور ڈینگیں بھی مارتا پھرتا ہے۔

ہم نے بھی ایسی ہی کچھ ڈینگیں مارنی شروع کر دیں۔ مگر یہ کرسی بڑٰی ظالم ہوتی ہے، جسے یہ حسن ملتا ہے، اس میں نزاکت آ ہی جاتی ہے۔ اور جب کرسی ہی خود کو بیچ کر حاصل کی گئی ہو تو پھر اس کے اور ہی مزے ہیں۔ آپ کو کسی کا بھی ڈر نہیں ہوتا، نہ ہی اپنے کام سے غرض ہوتی ہے۔ آپ کو تو اس کا کام کرنا ہوتا ہے جس نے آپ کو خریدا ہو۔ ''جب تک بکے نہ تھے کوئی پوچھتا نہ تھا۔ تو نے خرید کر انمول کر دیا'' والا معاملہ بن جاتا ہے۔

جب ایسے خریدار مل جائیں جو انمول کر دینے والے ہوں تو پھر انسان اتراتا کیوں نہ پھرے۔ اس کی مرضی جیسا کرتا پھرے۔ جب تک یار مہربان ہو، وہیں پر دھان ہوتا ہے۔ مگر اہل علم فرماتے ہیں اور آپ سب بھی اہل علم ہی ہیں کہ آپ نے اپنی آنکھوں سے دیکھا کہ وقت کیسے بدل جاتا ہے۔ کیسے گالیاں دینے والے بڑے عہدے دار بن جاتے ہیں اور بڑے عہدے والے کیسے پا بہ زنجیر ہوتے ہیں۔ یہ ہے میز کا فرق، یہ ہے درمیان میں پڑی میز کا فاصلہ۔

ہمارے مہربان دوست ہم پر بہت سی مہربانیاں کرتے رہے۔ ہماری بہت سی کوتاہیاں بھی برداشت کیں، پر نہ جانے ایک دن کیا ہوا کہ ہمیں اپنے دفتر میں بلا لیا۔ ہم بڑے ناز کے ساتھ ان کے دفتر پہنچے۔ صاحب کرسی صدارت پر بڑے رعونت بھرے انداز میں ہمارا انتظار فرما رہے تھے۔ چھوٹتے ہی بولے اتنی دیر کیوں لگا دی؟ میں نے تھوڑی سی نہیں، بہت زیادہ حیرت سے ان کی طرف دیکھا کہ انہیں آج کیا ہوگیا ہے۔ اپنی یاری کو مدنظر رکھتے ہوئے جواب دینے کی کوشش کی کہ یار...

''یار کیا؟''

''کیا میں تمہارا ہم منصب ہوں؟ یا تم سے جونیئر ہوں جو مجھے یار کہہ رہے ہو؟''

میں حیرت زدہ ہونقوں کی طرح ان کے منہ کی طرف دیکھنے لگا۔

''بیٹھو!'' انہوں نے بڑے دبنگ لہجے میں کہا۔

میں بیٹھ گیا۔

''تم کہاں بیٹھے ہو؟''

میں نے جواب دیا کہ کرسی پر!

''کون سی کرسی پر؟'' انہوں نے پوچھا۔

''آپ کے سامنے والی۔''

''اسے غور سے دیکھو۔ یہ کرسی جس پر تم بیٹھے ہو اور میری کرسی جس پر میں بیٹھا ہوں، ان میں ایک میز کا فاصلہ ہے۔ اور جب یہ میز دو کرسیوں کے درمیان آجاتی ہے تو پھر سارے ناتے تعلق اور دوستیاں ایک میز کے فاصلے پر چلے جاتے ہیں۔ میں نے تمہیں اتنے دن برداشت کیا، مگر اب اگر تم نے اس میز کے فرق کو مٹانے کی کوشش کی تو پھر بہت برا ہو گا۔ اب تم جا سکتے ہو۔''

میں بہت بوجھل قدموں کے ساتھ وہاں سے باہر نکلا۔ مگر بہت سی باتیں مجھ پر پلک جھپکنے میں کھل گئیں۔ پاکستان کی سیاست کیا، پوری دنیا کی سیاست میری سمجھ میں آگئی۔ مجھ پر موصوف کے اس ایک جملے ''میز کا جو فرق ہے، اسے کبھی مت مٹانا'' نے سارے طبق روشن کردیے۔ میں فلیش بیک کی شکل میں قیام پاکستان سے آج تک کی سیاست کو دیکھنے لگا۔

کبھی امریکا اور پاکستان کے تعلقات کو دیکھنے لگا اور کبھی خود کو اور اپنے میز والے صاحب کو دیکھنے لگا۔ کیا جملہ کہا انہوں نے کہ میز کے فرق کو کبھی نہ مٹانا۔ میز کا فاصلہ بہت ہی دور کردیتا ہے۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔