کہانی بنت حوا کی

تطہیر فاطمہ بنت پاکستان کے کیس نے بہت سی کہانیوں کے باب پھر سے کھول دیے ہیں پھر سے بہت سے زخم رسنے لگے ہیں۔


Shehla Aijaz October 04, 2018

خدا جانے وہ کیا حالات تھے جب دونوں میاں بیوی علیحدہ ہوئے اور انھوں نے اپنی پیاری بیٹی کے بارے میں کچھ بھی نہیں سوچا لیکن ایک طویل عرصہ گزر جانے کے بعد لوگوں کے سامنے ایک علیحدہ نوعیت کا مقدمہ سامنے آیا، جب ایک بائیس سالہ لڑکی دنیا والوں کو جھنجھوڑ کر بتاتی ہے کہ اس نے اپنی زندگی کے بہترین خوبصورت اور یادگار دن جو عام طور پر سارے ہی بچے اپنے والدین کے ہمراہ گزارتے ہیں، اس نے اپنے والد کے بغیرگزارے ۔ یہ ایک احتجاج تھا یا انتقام جو تطہیر فاطمہ نے نادرا میں بچوں کی رجسٹریشن میں والد کے خانے کے ساتھ ایک اور خانے کا بھی اضافہ کرنے کا مطالبہ کیا اور اس امر کے لیے اس نے عدالت کا دروازہ کھٹکھٹایا۔

شاہد ایوب جو کوئی بھی تھا لیکن تطہیر فاطمہ نے دنیا کو اس کا چہرہ دکھا دیا کہ یہ شخص میرا باپ ہے لیکن میں اسے اپنی مرضی سے اپنے ولدیت کے خانے سے برخاست کرتی ہوں ۔ اس عجیب اور انوکھی نوعیت کے مقدمے نے بہت سے لوگوں کو جھنجھوڑکر رکھ دیا کہ کیا ایسا بھی ہو سکتا ہے۔کیا یوں بھی ممکن ہے کہ جیسے کوئی شخص اپنی طاقت اپنے زور یا تکبرکے اثر سے ٹھوکر مار کر اپنی زندگی سے دورکر سکتا ہے وہ ٹھوکر ایک وقت گزرنے کے بعد اس کے اپنے ہی منہ پر اس زور سے پڑتی ہے کہ مارے شرمندگی اور احساس بے عزتی اسے چور چورکر دیتی ہے۔ وہ حجتیں پیش کرتے ہیں لیکن بے سود کہ زمانے کی زہریلی نفرت بھری نگاہیں انھیں حقارت سے دیکھتی ہیں ۔

ایک زمانہ تھا جب لڑکیوں کو پیدا ہوتے ہی زمین میں گاڑدیا جاتا تھا ، لیکن ظہور اسلام کے بعد جس طرح عورت کو مقام دیا گیا، اس سے عورت کے رتبے اور تقدس میں اضافہ ہوا، درجات بلند ہوئے لیکن خاص کر ہر فیصلے میں عورت کے رتبے کے حوالے سے ہم اب بھی ہندوانہ جہالتوں میں الجھے ہیں ، لیکن تطہیر فاطمہ کا کیس ذرا مختلف ہے کہ جس میں غیر ذمے داری اور تجاہل نے شاہد ایوب کے لیے مشکلات پیدا کر دیں، وہیں ایک سوال بھی چھوڑا کہ اگر آیندہ بھی ایسا ہوا توکوئی اور تطہیر اٹھ کر کسی شاہد سے اپنے بچپن کی محرومیوں کا حساب مانگ سکتی ہے۔

ایسا کیوں ہوتا ہے کہ ہم نے اپنے مسئلے کو دنیا کا اہم ترین مسئلہ سمجھ کر دوسروں کی زندگی جس دکھوں کے کانٹے بکھیر دیتے ہیں ، ابھی زیادہ عرصہ نہیں گزرا کہ خبر ملی ان کا انتقال ہوگیا ۔ وہ ایک مجبور عورت ، ایک دکھیاری ماں اور اپنے شوہرکی بیوفائی کی ڈسی ہوئی عورت تھی، جس نے اپنی جوانی اپنے بچوں کی پرورش میں گزار دی اور انھیں پڑھا لکھا کر اپنے پیروں پر کھڑا ہونا سکھایا لیکن اس کی وفا، ایثار اور محبت کی قدر نہ کی گئی، دو بیٹیوں کی پیدائش کے بعد ہی شوہر ہے بیوی کو آنکھیں دکھانے شروع کر دیں کہ اس کو بیٹے کی چاہ تھی خدا نے بیٹا بھی دے دیا تو بچوں پر پرورش کے خرچے سے بچنے کی خاطر سب کچھ چھوڑ کر چلا گیا۔

یہ شادی جو بیٹیوں کو بوجھ سمجھتے ہوئے کر دی گئی تھی ایک اندھیرے انجام میں جا کر کھو گئی کیونکہ ان کے شوہرکے متعلق کسی کو علم ہی نہ تھا کہ اس کا تعلق کہاں سے ہے، پنجاب سے وہ شخص آیا تھا اور پھرکھو گیا۔ شوہرکے چلے جانے سے ان کو واہموں نے گھیر لیا حالانکہ وہ ایک پڑھی لکھی خاتون تھیں لیکن ڈپریشن کے اثر سے اپنے آپ کو نہ بچا سکیں ۔ ایک بیٹی کی شادی کر کے ذرا ہلکا محسوس کیا، دوسری بیٹی کی شادی فکر ستانے لگی، بیٹھا ابھی چھوٹا ہی تھا، بیٹی اچھی ملازمت پر لگ گئی کیونکہ وہ ایک ذہین اور پڑھی لکھی لڑکی تھی، اس نے ماں کو سنبھالنے کی بہت کوشش کی لیکن ساری کوششیں بے سود ہی رہیں اور بالآخر وہ اپنے خالق حقیقی سے جا ملیں ۔

ان کی موت کا دکھ سب کو تھا، وہیں یہ بھی خیال بار بار ستا رہا تھا کہ کیا اس بے وفا اور غیر ذمے دار باپ اور شوہرکو بھی خبر ہے کہ اس کی حرکتوں نے اس کے پیچھے ایک معصوم عورت اور بچوں کے ساتھ کیا سلوک کیا۔ معاشرے میں ایسے بچوں کا کیا کردار ہے؟ سوال اٹھتے ہیں ماں کے کردار پر، لوگ انگلیاں اٹھاتے ہیں کہ نجانے کیسی ماں ہے کہ میاں چھوڑکر بھاگ گیا خدا جانے کیا کیا نہیں کیا ہو گا اور نجانے کیا کچھ لیکن ایسے بچوں کے باپ اور بیویوں کے شوہروں کوکچھ نہیں کہا جاتا کیونکہ یہ معاشرہ مردوں کا ہے۔

تطہیر فاطمہ بنت پاکستان کے کیس نے بہت سی کہانیوں کے باب پھر سے کھول دیے ہیں پھر سے بہت سے زخم رسنے لگے ہیں لیکن اب یقیناً ایسا کرنے سے پہلے قانون کے شکنجے کی سختی سے بچنے کی ترکیبیں سوچی جائیںگی یا احتراز برتا جائے کہ تطہیر کے کیس میں بھی اس کے سولہ برس تک کے اخراجات کی طلبی کوئی معمولی حساب کتاب نہیں ہے۔

ہمارے یہاں ایسا اکثر ہوتا رہا ہے کہ پردیس جاکر پڑھنے والے ، نوکری کرنے والے نوجوان اور مرد حضرات وہیں کے ہو کر رہتے ہیں اور اپنے پیچھے اپنے گھر والوں کو اپنی یاد میں سسکتا چھوڑ دیتے ہیں۔مائیں اپنے بچوں کی شکلیں دیکھنے کو ترستی رہتی ہیں لیکن باہرکی خیرہ کر دینے والی روشنیاں ان کے پیاروں کو ان کی محبت کا احساس تک نہیں ہونے دیتی، ایسے اکثر نوجوان اور مرد حضرات اپنی اولاد کو بھی نظر انداز کر دیتے ہیں۔

ہمارے ایک دور کی جاننے والی خاتون کے بھائی اپنے خاندان میں بننے والے پہلے ڈاکٹر تھے، والد کا کام اچھا تھا لہٰذا بیٹے نے باہر جانے کی ضد کی اور باپ نے جانے کے خرچے پورے کر دیے۔ اس وقت وہ شادی شدہ اور دو ننھے منے بیٹوں کے باپ تھے، ڈاکٹر صاحب تو برطانیہ سدھارے اور پھر پلٹ کر خبر نہ لی ، بچوں کو ان کے دادا نے اپنے خرچ پر پالا، سنا کہ بیچ میں آئے بھی تھے اور پھر پردیس کی یاد ستائی مہینہ بھر بعد ہی لوٹ گئے، وقت گزرنے کے ساتھ بچوں میں اضافہ ہو گیا وہ تین بچے تھے اور باپ ہوتے ہوئے بھی سر پر نہ رہا ۔

بچے جوان ہو گئے اپنے پیروں پر کھڑے ہو گئے، سننے میں آیا تھا کہ بیٹوں کی شادی ہوگئی اور باپ کا پردیس میں ہی انتقال ہو گیا ، وہ آئے بھی لیکن لکڑی کے تابوت میں ہمیشہ کے لیے دفن ہونے کے واسطے۔ بچپن سے سنتے، اس کہانی کا ڈراپ سین یوں ہوا اور ماں اپنے بچوں کو پالتی ساری زندگی ایک بیوہ کی مانند گزارتی گئی ، پر گلہ نہ کیا۔ ایک مشرقی عورت اپنے ماحول سے کیسے دغا کر سکتی ہے کیسے آواز بلند کر سکتی ہے؟ کسے مورد الزام ٹھہرائے کہ سب کچھ نصیبوں کے کھیل پر ڈال کر ایک خاموشی سی تن جاتی ہے۔

تطہیر فاطمہ بنت پاکستان! تم اکیلی نہیں ہو تمہارے ساتھ بہت سی تطہیر ہیں جو تمہاری طرف مسکرا کر فاتحانہ انداز میں دیکھ رہی ہیں کہ اب چپ رہ کر لب سینے کا وقت گزر چکا ہے، خدا تمہارے اور تمام تطہیر فاطمائوں کے نصیب اچھے کرے ۔(آمین)

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں